یوم کشمیر: بھارت اور بکرے کی ماں
اس بار بھی ’’یومِ کشمیر‘‘ چُپ چاپ نہیں گزرا، مقبوضہ وادی سمیت پاکستان کی کوئی گلی یا کوئی محلہ، قصبہیا گاؤں ایسا نہیں تھا جس میں بھارتی فوج کا بہیمانہ مظالم پر احتجاج کرتے ہوئے کشمیریوں سے اظہار یکجہتی نہ کیا گیا ہو۔لاہور سمیت پاکستان کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں کشمیری بھائیوں سے اظہار یکجہتی کے لئے جلسے کئے گئے اور جلوس نکالے گئے۔ یوں تو یوم کشمیر سے چند روز قبل جماعت الدعوۃ کے امیر پروفیسر حافظ سعید کو بعض ساتھیوں سمیت نظر بند کر دیا گیا، لیکن ان کی جماعت کے دوسرے اکابرین نے لاہور کے ناصر باغ میں ایک بڑے جلسے کا اہتمام کیا، جس میں تمام مکاتبِ فکر کے نمائندوں نے بھرپور شرکت کی، جبکہ نوجوانوں کی تعداد اس جلسے میں زیادہ دیکھنے میں آئی۔یہ نوجوان بہت جذباتی انداز میں حافظ سعید کی نظر بندی پر کڑی تنقید کر رہے تھے۔ حافظ محمد سعید نے کشمیر کی آزادی کی تحریک میں ایک نئی روح پھونکی ہے۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ پورے پاکستان میں حافظ محمد سعید اس تحریک کو اجاگر کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوان طبقہ نہ صرف حافظ سعید کے لئے جذباتی ہے، بلکہ جلد از جلد مقبوضہ خطے کی بھارتی چنگل سے رہائی چاہتا ہے۔
یہ بات بڑے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ اب بھارت کا کشمیر کو ’’اٹوٹ انگ‘‘کہنے والا نعرہ کھوکھلا ہو چکا ہے، بھارتی حکومت اور میڈیا جان چکا ہے کہ مقبوضہ وادی کو اب زیادہ دیر تک اپنے غاصبانہ قبضے میں نہیں رکھا جا سکتا، اس لئے بھارتی حکومت اور میڈیا پاکستان کے خلاف الزامات کی آخری ’’اننگ‘‘ کھیلتا نظر آ رہا ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ وانی کی شہادت اور حافظ محمد سعید کی جدوجہد، کشمیر کی آزادی کو بہت قریب لے آئی ہے، لیکن افسوس ہے تو اس بات کا کہ عالمی برادری ابھی تک کانوں میں روئی ٹھونسے اور منہ میں گھنگنیاں ڈالے چپ بیٹھی ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادیں فراموش کر دی گئی ہیں۔بے شک بھارت بڑی آبادی والا ملک ہے، دنیا بھر کے ’’سرخی پاؤڈر‘‘ بیچنے والے ممالک کو بھارتی خوشنودی اس لئے بھی چاہیے کہ ان کا سامان بکتا رہے، امریکہ کو لالچ ہے کہ بھارت روس سے مزید کوئی چھری یا خنجر تک نہ خریدے اور سارا امریکی اسلحہ خرید دنیا کی اس بڑی فوج کے پاسپہنچ جائے۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ ڈونلڈٹرمپ کے مسلمانوں کے خلاف مضحکہ خیز رویئے اوربیانات کے باعث بھارت کو عالمی سطح پر مزید تقویت ملنے والی ہے، لیکن کب تک؟ بھارت کے اندر کی ٹوٹ پھوٹ اور کشمیریوں کے سچے جذبۂ کے باعث اب وہ وقت دور نہیں جب بھارتی ہٹ دھرمیوں کا کھیل ختم ہوجائیگا۔ دودھ کادودھ اور پانی کا پانی ہونے کاو قت قریب آ پہنچا ہے۔بھارت نے جو آگ کشمیر کی چنار وادیوں مں جلا رکھی ہے، وہ بھجنے ہونے والی ہے، یقیناًبھارت کو 1948ء کی وہ جنگ ضرور یاد ہوگی جب کشمیری عوام نے بھارتی افواج کو چاروں طرف سے گھیرا ڈال رکھا تھا اور جواہر لعل نہرو امن کی بھیک مانگنے اقوام متحدہ میں جاپہنچا تھا، اب پھر وہی مکافاتِ عمل ہونے کو ہے۔کشمیری نوجوانوں اور ماؤں بہنوں کی تحریک اس قدر زور پکڑ چکی ہے کہ وہ دن دور نہیں جب بھارت اپنے زخموں کو چاٹتا ہواایک بار پھر اقوام متحدہ کی دہلیز پر جاگرپہنچے گا، لیکن اس بار اقوامِ متحدہ بھارت کو نیا ’’ریلیف‘‘ دینے کی پوزیشن میں نہیں ہو گی۔ اب اقوام متحدہ کو اپنی قراردادوں پر عمل کرنا ہوگا،کشمیریوں کو ان کا حق خودارادیت دینا ہوگا۔ کون نہیں جانتا کہ کشمیر کا بچہ بچہ بھارتی تسلط سے آزادی چاہتا ہے، یہ آزادی کسی بھی انسان یا کسی بھی قوم کا پہلا بنیادی حق ہے، کوئی بھی بڑا ملک یا اقوام ادارہ اب بھارت کو زیادہ دیر تک مظلوم کشمیریوں پر حکمرانی کا ’’پرمٹ‘‘ نہیں دے سکتا۔ یہ سچ ہے کہ حافظ محمد سعید اور ان کی جماعت الدعوۃ کشمیریوں کے لئے جو کچھ کرنا چاہتے تھے، کر چکے ہیں، اب پروفیسر حافظ سعید آزاد رہیں یا نظر بند، کوئی فرق نہیں پڑتا، ان کی تحریک زندہ کشمیر کے آخری گاؤں کی آزادی تک زندہ رہے گی، لہٰذا اب باقی کا کام عالمی برادری نے کرنا ہے۔ کشمیر کو آزاد کرانے میں اپنا کردار ادا کرنا ہے، اب کشمیر کی گلیاں مزید بہتے خون کی متحمل نہیں ہیں۔ وادی میں امن کی تمام فاختائیں مر چکی ہیں۔ بھارتی بارود نے ان کے پَر جلا کر راکھ کر دیئے ہیں۔ اب مزید جلنے جلانے کو کچھ نہیں بچا۔ ہاں اب جلنے کی باری بھارت کی ہے، بھارت کے جلاپے کی اس سے بڑھ کر حد کیا ہوگی کہ وہ مقبوضہ وادی میں کروڑوں کا اسلحہ استعمال کر کیبھی جنگ ہار چکا ہے اور معصوم کشمیری گولیاں کھا کر بھی جیت گئے ہیں۔ یقیناًپاکستان کسی بھی ملک سے جنگ نہیں چاہتا، یہ بات بھی روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ پاکستانی افواج اپنے ملک کے دفاع کا ہر گُر جانتی ہیں۔ کشمیری اپنی تحریک کو اس مقام پر لے گئے ہیں، جہاں سے واپسی کی کوئی راہ نکالنا ممکن نہیں۔ ان حالات میں کہنے والی آخری بات صرف اتنی ہے کہ بھارت جسے اٹوٹ انگ کہتے کہتے، سب کچھ ہار چکا ہے۔ وہ کشمیر اب اس کی دسترس میں نہیں ہے۔اب بھارت کے پاس ہاتھ ملنے کے سوا کچھ باقی نہیں رہا۔ یقیناًبھارت کے پاس آخری وقت اور آخری موقع ہے کہ وہ پُرامن انداز میں کشمیریوں کو اپنی تقدیر کا فیصلہ کرنے کا موقع دے، ورنہ آنے والے کل میں اس کے پاس کوئی کشمیر بچے گا، نہ عزت، بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ بھارت کے پاس اس کا ’’مہابھارت‘‘ بھی نہیں بچے گا، بھارت کے اندر علیحدگی کی درجنوں تحریکیں اس بات کی گواہ ہیں کہ ’’بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی‘‘؟