سرکاری حج سکیم کا پرائیویٹ سکیم سے مقابلہ کیوں ؟ (1)
حج 2016ء کا آپریشن مکمل ہو چکا ہے۔ وزارت مذہبی امور سرکاری سکیم سے حج جبکہ ہوپ پرائیویٹ حج سکیم کی تاریخ ساز کامیابی کے اعتراف میں ایوارڈ وصول کر رہی ہے۔ وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف اپنے سیکرٹری سہیل عامر مرزا اور ڈی جی حج ڈاکٹر ساجد یوسفانی کے ساتھ وزیراعظم سے ملاقات میں سرکاری سکیم کی مثالی کامیابی کی تحسین پر وزیراعظم سے چار ماہ کی تنخواہ اضافی بونس کی صورت میں وصول کرنے کا اعلان کروا چکے ہیں۔ سرکاری حج سکیم سب سے سستی اور اچھی ہے۔ حاجی کتنے خوش رہے۔ ڈاکومنٹری بنا کر وزارت مذہبی امور پوری پاکستانی قوم کو باور کروا رہی ہے کہ حج صرف سرکاری سکیم کا ہے وفاقی وزیر، سیکرٹری اور ان کا عملہ یہ بتانے کے لئے بھی تیار نہیں کہ حج 2016ء میں ایک لاکھ 43ہزار حجاج میں سے آدھے افراد نے پرائیویٹ حج سکیم کے تحت فریضہ حج کیا ہے اور وفاقی وزیر مذہبی امور سمیت کوئی ذمہ دار یہ بھی بتانے کی جرأت نہیں کر رہا کہ حج 2016ء میں سرکاری سکیم کے حجاج کی شکایات سرکاری حج کے مقابلے میں کم آئیں ہیں۔ سرکاری حج سکیم کی مشہوری کے لئے بنائی گئی فلموں کی کہانی اور حاجیوں سے لئے گئے تاثرات تک کی حقیقت معلوم ہے۔ ذاتی طور پر کبھی سرکاری سکیم اور پرائیویٹ سکیم کو علیحدہ علیحدہ نہیں سمجھا، کیونکہ دونوں پاکستانی حاجی ہوتے ہیں دونوں پاکستان کے سفیر ہوتے ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے سرکاری اور پرائیویٹ سکیم جن کی زیر نگرانی جاری ہے وہ سرکاری سکیم کے علاوہ بات کرنے کے لئے تیار نہیں آخر یہ دوعملی کیوں؟
پرائیویٹ سکیم سے بغض کیوں؟ حالانکہ دلچسپ امر یہ ہے کہ گزشتہ حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت کا ایجنڈا بھی نجکاری ہے اس پر پوری ایک وزارت کام کر رہی ہے 100سے زائد شعبوں کو پرائیویٹ کیا جا چکا ہے اور ڈیڑھ سو کے قریب ایسے ہیں جو پرائیویٹ کئے جا رہے ہیں اس میں قومی ایئر لائنز سمیت صفائی تک کے محکمے شامل ہیں۔ ایک اور دلچسپ بات سامنے آئی ہے وزارت مذہبی امور کے بڑے بڑے افسر جو بظاہر پرائیویٹ سکیم کے خلاف بولتے نظر آتے ہیں، مگر ساتھ ہی کمپنیاں بنانے کے بھی خواہش مند ہیں کوٹہ کے خواہش مند افراد سے خفیہ ملاقاتیں کرتے اور انہیں طریقے بتاتے بھی نظرآتے ہیں وزرا کی دو عملی بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے وہ ایک انٹرویو میں کچھ کہتے ہیں دوسرے سیمینار میں کچھ اور کہتے ہیں۔
وزارت مذہبی امور اس لحاظ سے بڑی خوش قسمت ہے اس کو ذہین ترین سیکرٹری جوائنٹ سیکرٹری ڈپٹی سیکرٹری سیکشن آفیسر ملتے آ رہے ہیں اس میں میری کوئی دو رائے نہیں ہے۔ اختلاف جہاں ہو سکتا ہے بعض مثبت انداز میں تاریخ رقم کر جاتے ہیں اور بعض اس خوش فہمی میں وقت گزار دیتے ہیں ہم سے بڑا ایماندار کوئی نہیں۔ مفادات کس کے کس کے ساتھ ہیں کس کا نجی کاروبار ہے کس کس کا فیملی ممبر کون کون سی کمپنی میں ڈائریکٹر ہے یہ پوری دُنیا کو پتہ ہوتا ہے سوائے اس معصوم دانشور کے۔ مَیں بات کر رہا تھا، سرکاری اور پرائیویٹ حج سکیم میں فرق کیوں کر سمجھا جاتا ہے سرکاری سکیم ہماری ہے تو پرائیویٹ سکیم ہماری کیوں نہیں؟ اس حوالے سے یقیناًہوپ کو کردار ادا کرنا چاہیے کہ وہ باور کرائے کہ ہم بھی آپ کے ہیں اور پرائیویٹ سکیم بھی آپ کی ہے۔ وزارت مذہبی امور کے ذمہ داران پرائیویٹ سکیم کو دل سے تسلیم نہیں کر رہے اس کا اندازہ ایک ریکارڈنگ سے ہوا پاکستان ہاؤس پہنچے اور وہ صاحب پوچھتے ہیں شکایات کی کیا پوزیشن ہے؟ بتایا جاتا ہے پرائیویٹ سکیم کے خلاف یہ چند شکایات آئی ہیں تو اس ذمہ دار کا کہنا تھا لگتا ہے آپ کام نہیں کرتے جو یہ صورت حال ہے۔ سرکاری سکیم کے حوالے سے زیادہ شکایات پر کیا کہا اس پر خاموشی بہتر ہے۔ تحقیقات کیں تو پتہ چلا سرکاری سکیم اور پرائیویٹ سکیم دونوں ہی سعودی تعلیمات کے مطابق ہیں۔ سرکاری حج میں کرپشن ہوتی ہے یا نہیں؟ پرائیویٹ کتنا منافع کماتے ہیں؟ اس پر بات آج کی نشست پر نہیں کرنی البتہ سرکاری حاجی جو اس سال اپنی فیملی کے ہمراہ سستے حج کا حصہ رہے ان کی طرف سے دلائی گئی توجہ ضرور پیش کرنی ہے کیونکہ کالم کا پہلا حصہ شائع کر رہا ہوں اگر کوئی اور دوست کوئی تجاویز دینا چاہے تو اس کو بھی کالم کا حصہ بنایا جا سکتا ہے۔میرے محترم حاجی صاحب کا تعلق فیصل آباد سے ہے۔ رانا طارق سرور ان کا نام ہے سینئرصحافی ہیں کالم نویس ہیں معروف بزنس مین ہیں اپنی والدہ بہن اور بہنوئی کے ساتھ انہوں نے سرکاری حج سکیم میں فریضہ حج ادا کیا ہے ان کی طرف سے اٹھائے گئے سوالات میں وزارت مذہبی امور کے ذمہ داران کے سامنے یہ بات رکھ رہا ہوں 40دنوں میں حرم سے 13کلومیٹر دور عزیزہ میں رہنے والا حاجی حرم شریف میں کتنی نمازیں پڑھتا ہے اس کا تناسب نکالا جانا چاہیے کیونکہ سرکاری سکیم میں اکثریت 60سال سے اوپر والوں کی ہوتی ہے عزیزہ سے حرم تک دو بسیں جانے اور دو ہی بسیں آنے کیلئے بدلنا پڑتی ہیں شٹل بس کے نام پر خواری سے 40دنوں میں کتنے حاجی استفادہ کرتے ہیں جیاد میں اپنی اپنی رہائشوں تک جانے کیلئے بسوں میں چڑھنے کی فلم بھی ڈاکو منٹری کا حصہ کیوں نہیں بنائی جاتی؟ مدینہ میں رہائش اچھی تھی اس کی تعریف کی جانی چاہیے براہ راست مکہ جانے اور واپس مدینہ سے لانے کا فیصلہ اچھا ہے مگر اس میں واپسی پر 24گھنٹے پہلے حاجیوں کو عزیزہ سے ایئرپورٹ لے جانا اور پھر لاوارث چھوڑ دینا کہاں کا انصاف ہے۔ عزیزہ میں رہائش کے ساتھ تین وقت کے کھانے کی فراہمی سنگل ڈش کے حصول کے لئے لمبی لائنیں لگتی ہیں اس کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ اصل حج ہوتا ہے پانچ دن منی، عرفات، مزدلفہ۔ حج 2016ء میں 50فیصد سرکاری سکیم کے حاجیوں کو منیٰ میں کھانا نہیں ملا، صبح کوچائے دی گئی احتجاج کے بعد شام کو کچے چاول دیئے گئے۔ مکتب 21 کی مثال بھی دے دیتا ہوں،منیٰ سے عرفات پہنچانے کے لئے بسوں کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ کئی افراد عرفات نہیں پہنچ سکے؟کتنے افراد کو بسیں نہیں ملیں منیٰ عرفات کے درمیان خوار ہوتے رہے اس کا بھی جائزہ لینا ضروری ہے۔
میرے دوست نے جو سرکاری حج سکیم کے حوالے سے سوالات اٹھائے ہیں وہ پیش کر دیئے ہیں اگلی نشست میں آپ بیتی بھی سناؤں گا اور پرائیویٹ سکیم کی خامیاں اور حاجی سے کمٹمنٹ پوری نہ کرنے والوں اور ناجائز منافع خوروں کا تذکرہ بھی ہوگا۔ البتہ اس کالم میں وزارت مذہبی امور اور ہوپ کے ذمہ داران سے درخواست کرنی ہے کہ آپ کو اللہ نے اپنے مہمانوں کی خدمت اور رہنمائی کی ذمہ داری سونپی۔ اس کا مطلب ہے اللہ آپ سے خوش ہے اور آپ سے اچھا کام لے رہا ہے یہ بھی ذہین میں رکھنا ہوگا جتنا اعلیٰ کام ہو جتنا بڑا اجر ہو اس میں کوتاہی کی سزا بھی اتنی بڑی ہوتی ہے اتنے بڑے کام کے لئے اتنا بڑا ظرف اور کردار بھی ضروری ہے اس پر توجہ ضروری ہے۔ وزارت مذہبی امور کو صدق دل سے اعلان کرنا چاہیے کہ سرکاری اور پرائیویٹ سکیم دونوں ہماری ہیں اگر سرکاری سکیم میں کمی ہے اس کو پورا کرنے کے لئے مشاورت غلط بات نہیں۔ پرائیویٹ سکیم میں کمی ہے اس میں سٹیک ہولڈر کو سامنے بٹھا کر بات کرنا غلط نہیں ایک دوسرے کو لڑا کر حکومت کرنا وقت گزارنا پرانا حربہ ہو چکا ہے۔ عمرہ، حج کا بل سٹیک ہولڈر کی مشاورت کے بغیر کابینہ سے منظور کروانا اچھا اقدام نہیں ہے۔ دشمنی پرائیویٹ حج سکیم سے ہو سکتی ہے۔ پرائیویٹ سکیم میں تو 80 ہزار یا ایک لاکھ افراد جائیں گے مگر عمرہ پر تو 10لاکھ افراد سالانہ جا رہے ہیں۔عمرہ کاروبار سے ملک بھر میں ہزاروں خاندان وابستہ ہیں۔ مگر ہوپ کو اس قابل نہیں سمجھا جا رہا اس سے مشاورت کی جاتی تو عمرہ کمپنیوں، ’’ٹیپ‘‘ کے نمائندوں کو مشاورت کا حصہ ضرور ہونا چاہیے تھا کابینہ کی اسمبلی سے بھی عمرہ حج بل اگر خاموشی سے منظور کروانے کی کوشش کی گئی نتائج خوفناک نکل سکتے ہیں۔ ہزاروں خاندانوں کا معاشی قتل ہو سکتا ہے اس لئے حج ہو یا عمرہ مشاورت سے آئینی بل تیار ہونا چاہیے، مشاورت کے بغیر کئے گئے فیصلوں میں برکت نہیں ہوتی۔(جاری ہے)