ہم قائد اعظمؒ کے نظریات میں ردوبدل نہیں کرسکتے

ہم قائد اعظمؒ کے نظریات میں ردوبدل نہیں کرسکتے
 ہم قائد اعظمؒ کے نظریات میں ردوبدل نہیں کرسکتے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

قائداعظمؒ کے کبھی تصور اور وہم و خیال میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ پاکستان ایک سیکولر ریاست ہو گا۔ قائداعظمؒ نے جب بھی پاکستان کی بات کی ان کے پیشِ نظر ہمیشہ ایک اسلامی ریاست کا تصور رہا۔
آج 11ستمبر کو قائد اعظمؒ کے یوم وفات پر مجھے ان کی وہ تقریر یاد آرہی ہے، جو انہوں نے 8مارچ 1944ء کو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں ارشاد فرمائی تھی۔’’پاکستان اس دن معرض وجود میں آگیا تھا، جب پہلے غیر مسلم نے اسلام قبول کیا تھا۔ یہ اس وقت کی بات ہے، جب انڈیا میں مسلمانوں کی حکومت بھی قائم نہیں ہوئی تھی۔ جونہی ایک ہندو نے اسلام قبول کیا وہ نہ صرف مذہبی بلکہ سماجی، تہذیبی اور معاشی طور پر بھی ہندوقوم سے الگ کردیا گیا۔ مختلف ادوار گزرتے رہے، مگر ہندوؤں اور مسلمانوں کی الگ الگ شناخت برقرار رہی، یہ ہے پاکستان کی بنیاد‘‘۔


قائداعظمؒ نے قیام پاکستان کے بعد بھی مختلف مواقع پر اپنی تقاریر میں غیر مبہم انداز میں یہ واضح کردیا تھا کہ پاکستان ایک مسلم ریاست ہے، جس کا دستور اسلامی اصولوں کی اساس پر بنایا جائے گا، مگر اس کے ساتھ ساتھ قائد اعظمؒ نے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں یہ وضاحت بھی کردی کہ بلا تفریق مذہب تمام پاکستانی شہریوں کے حقوق مساوی ہوں گے۔ یہاں مَیں قائداعظمؒ کی کراچی میں کی گئی ایک تقریر کا حوالہ دینا ضروری خیال کرتا ہوں۔ قائداعظمؒ نے یہ تقریر وکلا کی ایک تقریب میں 25 جنوری1948ء کو ارشاد کی تھی۔ ’’اسلام نے ہمیں جمہوریت سکھائی ہے، اسلام نے ہمیں مساوات، انصاف اور رواداری کی تعلیم دی ہے۔ پھر کسی کے لئے بھی خوف زدہ ہونے کا کیا جواز ہے، جب ملک میں ایسی آزادی، جمہوریت اور مساوات کا دور دورہ ہو گا، جس میں ہر شہری کے لئے انصاف اور رواداری کی ضمانت ہو گی‘‘۔


قائد اعظمؒ نے یہ وضاحت ان لوگوں کے لئے کی تھی، جو یہ بے بنیاد پروپیگنڈا کررہے تھے کہ اگر پاکستان کو ایک سیکولر ریاست کے بجائے، اسلامی ریاست بنایا گیا تو پھر پاکستان میں غیر مسلم شہریوں کے لئے وہ حقوق نہیں ہوں گے، جو حقوق پاکستان کے مسلمان شہریوں کو میسر ہوں گے۔ قائد اعظمؒ کے دل و دماغ میں اس حوالے سے بھی کوئی ابہام نہیں تھا کہ اسلام کے بنیادی اصول آج بھی اسی طرح قابل عمل ہیں، جس طرح تیرہ سو سال پہلے اسلام کے بنیادی اصولوں اور تعلیمات پر عمل کیا گیا تھا۔قائداعظمؒ نے اپنے ایک خطاب میں یہ بھی فرمایا تھا کہ ’’ہم ان عظیم روایات کے وارث ہیں، جو جمہوریت، انصاف اور مساوات کی ضامن ہیں۔ پاکستان میں ہندو، عیسائی، پارسی اور دیگر غیر مسلم بھی آباد ہیں، لیکن ان سب کو پاکستان میں بطور شہری ایک جیسے حقوق حاصل ہوں گے‘‘۔ یہ بات قابل غور اور قابل توجہ ہے کہ قائداعظمؒ نے جب بھی جمہوریت، مساوات، انصاف اور غیر مسلموں کے ساتھ رواداری اور اچھے سلوک کے مظاہرہ کی بات کی تو اس کے ساتھ اسلام کا حوالہ ضرور دیا۔ قائداعظمؒ یہ کہنا کبھی نہیں بھولے کہ یہ تعلیمات ہمیں اسلام نے دی ہیں۔ قائد اعظمؒ نے ایسے افراد کو بھی شرانگیز قرار دیا، جو عوام میں یہ گمراہی پھیلا رہے تھے کہ پاکستان کا دستور اسلامی شریعت سے ہم آہنگ نہیں ہو گا۔ قائداعظمؒ نے جب پاکستان کے معاشی نظام کی بات کی تو اس وقت بھی ان کا فرمان یہ تھا کہ مغرب کے معاشی نظام نے انسانیت کے لئے ایسے مسائل پیدا کردیئے ہیں، جن کا کوئی حل تلاش نہیں کیا جاسکتا۔ اس لئے ہمیں مساوات اور سماجی انصاف کے سچے اسلامی اصولوں کی روشنی میں اپنا الگ نظام معیشت تشکیل دینا چاہئے۔ قائداعظمؒ کا یہ یقین تھا کہ اسلام کے معاشی نظام میں پوری دنیا کے لئے امن، خوشحالی اور ترقی کا پیغام موجود ہے۔ قائداعظمؒ کی فکریہ تھی کہ پاکستان میں ہم زندگی کے ہر شعبے میں اسلامی اصولوں اور نظریات سے رہنمائی لیں گے۔ اسلام ہی وہ قوت تھی اور اسلام ہی وہ نظریہ تھا، جس نے قیام پاکستان سے پہلے ایک قوم کے طور پر ہمیں متحد اور منظم کردیا تھا۔ قائداعظمؒ اسلام کو محض عبادات تک محدود نہیں سمجھتے تھے، بلکہ وہ مسلمانوں کے لئے اسلام کو ایک مکمل ضابط�ۂ حیات تصور کرتے تھے، جو معاشی، معاشرتی اور سیاسی تمام شعبوں میں مسلمانوں کی راہنمائی کرتا ہے۔قائداعظمؒ جب مسلمانوں کو ایک الگ قوم قرار دیتے تھے اور اس بنیاد پر قیام پاکستان کی جنگ لڑ رہے تھے، تو وہ اسلام کو ایک مکمل ضابطۂ حیات سمجھنے کے بعد ہی پاکستان کا مطالبہ کرنے میں خود کو حق بجانب خیال کرتے تھے۔ اگر قائداعظمؒ کا اسلام کے اور قرآن کے مکمل ضابط�ۂ حیات ہونے پر اپنا یقین پختہ نہ ہوتا تو قائد اعظمؒ اتنے یقین اور استقلال کا مظاہرہ کرہی نہیں سکتے تھے، جتنا انہوں نے قیام پاکستان کی جدوجہد میں کیا۔ ہم میں سے کچھ لوگ یہ رائے رکھتے ہیں کہ ہندوؤں کے تعصب، تنگ نظری اور مسلمان قوم سے نفرت کی وجہ سے بھی قیام پاکستان کی ضرورت محسوس ہوئی، لیکن قائداعظمؒ نے پاکستان کے مطالبہ کا جذبۂ محرکہ اسلام کو قرار دیا تھا۔ قائداعظمؒ نے کہا تھا کہ تقسیم ہند کی ضرورت اس لئے پیش آئی اور مسلمانوں کے لئے جداگانہ مملکت کا واحد جواز یہ ہے کہ ہمارے لئے یہ اسلام کا بنیادی مطالبہ ہے۔ اب سیدھا سا سوال ہے کہ جو ملک اسلام کے مطالبے پر قائم ہو، جس وطن کے قیام کی وجہ ہی اسلام ہے، اس کی منزل سیکولر ازم کیسے ہوسکتی ہے اور کسی بھی طبقے کو پاکستان میں قائد اعظمؒ کی تعلیمات کی نفی کرنے کی اجازت کیسے دی جاسکتی ہے۔ قائد اعظمؒ نے واضح الفاظ میں فرمایا تھا کہ ’’قرآن کے ہوتے ہوئے مسلمانوں کو کسی اور پروگرام کی ضرورت نہیں ہے‘‘۔ہم پر لازم بھی ہے کہ ہم بطور مسلمان اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں قرآن اور اسوۂ رسولؐ پر عمل کریں۔ یہ بات ہی مضحکہ خیز ہے کہ ہماری انفرادی زندگی میں تو اسلام ہو، لیکن ہماری اجتماعی زندگی، ہمارے نظامِ حکومت اور ہماری معاشی زندگی میں اسلام نہ ہو۔یہ دوسری بات ہے کہ آج ہماری انفرادی زندگی میں بھی اسلام نہیں ہے اور ہماری اجتماعی زندگی تو بالکل ہی اسلام سے خالی ہے، لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ ہم یہ کہنا شروع کر دیں کہ قائداعظمؒ نے پاکستان اسلام کی خاطر بنایا ہی نہیں تھا، اپنی کوتاہیوں، نادانیوں اور بداعمالیوں کے ہم خود ذمہ دار ہیں، لیکن قائداعظمؒ کے افکارو نظریات میں ہم ردوبدل نہیں کرسکتے۔ اسلام اور پاکستان کے رشتے کو سمجھنا ہو تو قائداعظمؒ کے فرمودات اور علامہ اقبالؒ کی تعلیمات سے بہتر راہنمائی ہمیں اور کہیں سے میسر نہیں آسکتی۔ جس عظیم قائد نے یہ فرمایا ہوکہ ’’ ہماری نجات کا واحد ذریعہ ان سنہری اصولوں والے ضابطہۂ حیات پر عمل کرنے میں ہے، جو ہمارے عظیم پیغمبر ؐ نے ہمیں عطا کیا تھا‘‘۔ کیا اس قائد نے یہ پاکستان سیکولر ازم کے لئے حاصل کیا تھا۔ قائد اعظمؒ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ ہماری آزادی اور ہماری لئے پابندی کی حدود قرآن کریم نے متعین کردی ہیں۔ہم ان حدود کو پھلانگ نہیں سکتے۔ قائداعظمؒ نے ایک اسلامی حکومت کی تشریح بھی خود اپنے ہی الفاظ میں کردی تھی۔ قائداعظمؒ کے نزدیک ایک اسلامی حکومت قرآن کے احکامات اور اصولوں کی حکمرانی کا دوسرا نام ہے۔ قائداعظمؒ نے اپنے ارشادات میں شریعت کے مطابق دستور بنانے کی بات بھی کی، اسوۂ رسولؐ کو اپنی نجات کا واحد ذریعہ بھی قرار دیا اور قائداعظمؒ نے اسلامی حکومت کو قرآنی احکام اور اصولوں کی حکمرانی کا نام بھی دیا۔ اس کے بعد بھی اگر چند لوگ پاکستان کا مطلب اورمقصد سیکولر ازم بیان کرتے ہیں تو پھر ان کی گمراہی پر افسوس کا اظہار ہی کیا جاسکتا ہے۔

مزید :

کالم -