کیا شہباز شریف کے دروازے پر صدا دی جائے؟

کیا شہباز شریف کے دروازے پر صدا دی جائے؟
 کیا شہباز شریف کے دروازے پر صدا دی جائے؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مَیں آج بظاہر ایک مقامی مسئلے پر ایک مختصر سا کالم لکھ رہا ہوں، لیکن یہ مسئلہ انتہائی اہم ہے۔ سیالکوٹ میں ایک سرکاری لائبریری علامہ محمد اقبال کے نام سے منسوب ہے۔ اگلے وقتوں میں دانش اور دانائی کا سرچشمہ یہ لائبریری بلدیہ سیالکوٹ کی نگرانی میں تشنگانِ علم میں علم و عرفان کے خزانے بانٹتی رہی۔

اب محکمہ تعلیم ضلع سیالکوٹ کے زیر انتظام یہ لائبریری کام کر رہی ہے۔ اقبال لائبریری سیالکوٹ ایک وقت میں منٹگمری لائبریری کے نام سے سیالکوٹ کے تاریخی قلعہ میں قائم تھی۔1961ء میں جب منٹگمری لائبریری پیرس روڈ پر منتقل کی گئی تو اس لائبریری کو اقبال لائبریری کے نام میں بدل دیا گیا، جس طرح علامہ اقبال کی مادر علمی کا آغاز میں نام سکاچ مشن کالج تھا، مگر اسی تعلیمی ادارے کا نام اب مرے کالج سیالکوٹ ہے۔


ہمارا یہ قومی وطیرہ بن چکا ہے کہ جب کوئی سرکاری ادارہ صوبائی سطح پر یا ضلعی سطح پر انتظامیہ یعنی نوکر شاہی کی غفلت کے باعث نظر انداز کر دیا جاتا ہے تو پھر اس ادارے کا کوئی والی وارث، مددگار اور حمایتی نظر ہی نہیں آتا۔ اقبال لائبریری سیالکوٹ بھی ایک ایسا لاوارث ادارہ ہے جس کی حالت ناقابل بیان ہو چکی ہے۔ گلیاں اور سڑکیں قومی اور صوبائی اسمبلی کے جن ارکان کی خصوصی گرانٹس سے بنتی ہیں۔ ان ارکان اسمبلی میں سے بھی شاید ہی کبھی کسی نے اقبال لائبریری کی شکستہ حالی بلکہ پریشان حالی کو قابل توجہ سمجھا ہو۔ کاش اقبال لائبریری کو ایک عام سڑک یا گلی جتنی ہی اہمیت دے دی جاتی۔ سیالکوٹ میں تعینات اور مقرر کئے جانے والے ڈپٹی کمشنر بڑے متحرک اور فعال ہوتے ہیں۔ یہ لوگ پی سی ایس یا سی ایس ایس افسر ہونے کے ناطے اپنے دور طالب علمی میں یقیناًکسی نہ کسی لائبریری ہی سے استفادہ کرتے ہیں۔ مقابلے کے اعلیٰ امتحانات میں اعلیٰ ترین نمبروں میں پاس ہونے کے لئے لائبریریوں سے استفادہ کرنا ایک لازمی بات ہے۔ اس پس منظر میں دیکھا جائے تو لائبریری ہر سی ایس ایس افسر، ہر ذہین طالب علم، ہر وکیل، ہر پروفیسر، ہر ڈاکٹر، ہر انجینئر بلکہ کسی بھی شعبہ ء تعلیم سے وابستہ افراد کے لئے محسن کا درج رکھتی ہے۔ ایک ڈپٹی کمشنر کے پاس اپنے ضلع کو سنوارنے کے لئے صوبائی حکومتوں کی طرف سے دیئے گئے بے پناہ وسائل اور اختیارات موجود ہوتے ہیں اور ضلع کو بگاڑنے کے لئے تو صرف غفلت اور نااہلی ہی کافی ہیّ اگر کوئی ڈپٹی کمشنر اپنے فرائض ادا کرنے میں مستعد اور فعال نہیں ہے یا ضلع کی بہتری کے لئے اس میں مطلوبہ اہلیت ہی نہیں ہے تو پھر اس ضلع کا خدا حافظ ہے۔ ڈپٹی کمشنر ہی ایک ضلع میں موجود تمام سرکاری اداروں کے درمیان رابطے اور پل کا کام سرانجام دیتا ہے۔ ضلع کی سطح پر محکمہ تعلیم کی نگرانی بھی ڈپٹی کمشنر کے فرائض میں شامل ہے۔ ضلعی محکمہ تعلیم صوبائی حکومت کو بھی پوری طرح جواب دہ ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ اقبال لائبریری سیالکوٹ کو مکمل طور پر ہی نظر انداز کر دیا گیا ہے۔سب سے بنیادی بات تو یہ ہے کہ اقبال لائبریری تقریباً 20سال کے عرصہ سے ایک باقاعدہ اور مطلوبہ اہلیت و قابلیت کے لائبریرین ہی سے محروم ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی کالج پرنسپل، کوئی ہسپتال ڈاکٹر، کوئی عدالت جج سے یا کوئی ہوائی جہاز پائلٹ ہی سے محروم ہو۔ گریڈ 9کا ایک سکول ٹیچر اقبال لائبریری کا انچارج ہے۔ یہ سکول ٹیچر اپنے احساسِ ذمہ داری کے حوالے سے لائق ستائش ہے کہ میں نے اپنی آنکھوں سے اسے لائبریری میں مالی اور قاصد تک کی بھی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ اس لائبریری میں گریڈ ایک کا نائب قاصد ایوب خان سب سے پرانا ملازم ہے۔ ایف اے تک تعلیم رکھنے والا ایوب خان گزشتہ ستائیس اٹھائیس سال کے بعد اب بھی گریڈ ایک ہی میں ہے۔ اس نائب قاصد کو کتنے ہی سال سے مَیں خاکروب یعنی بھنگی کی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے بھی دیکھتا ہوں، کیونکہ اقبال لائبریری باقاعدہ لائبریرین کے ساتھ ساتھ مالی اور خاکروب تک سے بھی محروم ہے۔ کیا ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ اور کمشنر گوجرانوالہ بتا سکتے ہیں کہ ان کے دفتر اور رہائش گاہ میں کام کرنے والے مالیوں اور خاکروبوں کی تعداد کتنی ہے۔ کاش علامہ محمد اقبال سے منسوب لائبریری کو ڈپٹی کمشنر اور کمشنر اپنے سرکاری گھروں اور دفاتر سے زیادہ اہم سمجھتے۔ کیونکہ یہ ایک قومی ادارہ ہے۔ لائبریری میں ایک گیارہویں گریڈ کے کلرک بھی فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ یہ کلرک دل کے عارضے میں مبتلا ہونے کے باوجود اپنی ہمت اور بساط کے مطابق اپنی ڈیوٹی ادا کر رہا ہے، لیکن جس لائبریری کو قائم ہوئے ایک پوری صدی گزر چکی ہے۔ اس طرح اس کی ایک تاریخی اہمیت بھی ہے۔ جس لائبریری میں 40ہزار سے زیادہ کتب موجود ہوں۔ کئی سال کے اخبارات اور رسائل کا ریکارڈ بھی موجود ہو۔ اس لائبریری کے نظام کو کیا کسی باقاعدہ لائبریرین کے بغیر لائبریری سائنس کے اصولوں کے مطابق قائم رکھا جا سکتا ہے؟ ذرا تصور کریں جس لائبریری میں کم و بیش ایک سو سے زیادہ افراد ہر روز آتے جاتے ہوں وہاں خاکروب کے بغیر صفائی ممکن ہے؟ اقبال لائبریری میں ایک مدت سے صرف تین افراد ہیں جو سارے محاذوں کو سنبھالے ہوئے ہیں۔ وقتی یا عارضی طور پر دوچار مزید افراد ضلعی محکمہ تعلیم نے لائبریری میں بھیجے تھے، مگر پھر وہ بھی واپس بلا لئے گئے ہیں۔ لائبریری میں سب سے زیادہ اہمیت تو خود کتابوں ہی کو حاصل
ہوتی ہے۔ کیا ضلعی انتظامیہ اور بالخصوص تعلیم کا محکمہ ہمیں مطلع کر سکتا ہے کہ ہر سال اقبال لائبریری کے لئے کتنی نئی کتابیں خریدی جاتی ہیں۔جس لائبریری کے لئے20 سال سے مطلوبہ اہلیت رکھنے والے لائبریرین کی ضرورت ہی محسوس نہ کی گئی ہو وہاں نئی کتابوں کی اہمیت کو ضلعی محکمہ تعلیم کیا سمجھے گا؟ خاکروب ، مالی یا ایک اور نائب قاصد اقبال لائبریری میں تعینات کر دینا تو کوئی ناممکن بات نہیں، لیکن ہماری ضلعی انتظامیہ تو اس جانب بھی توجہ نہیں دے رہی۔ علامہ اقبال نے فرمایا تھا کہ انسان ہمت کرے تو آسمانوں کی تسخیر بھی ناممکن نہیں، لیکن یہاں ہمت اور عمل کا وہ فقدان ہے کہ اقبال لائبریری کے معمولی نوعیت کے مسائل بھی حل کرنے کے لئے کوئی آمادہ نظر نہیں آتا۔ اقبال لائبریری سیالکوٹ کے معاملات حل کرنے کے لئے دولتِ قارون یا فکرِ افلاطون کی ضرورت نہیں۔ ایک دن کے ایک لمحہ کے لئے بھی اگر ڈپٹی کمشنر کے دل میں علامہ اقبال کی عظمت کا احساس بیدار ہو جائے تو یہ سارے مسائل چند دنوں میں حل کئے جا سکتے ہیں۔ اگر کمشنر گوجرانوالہ یا ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ اس کام کے لئے خادم پنجاب جناب شہباز شریف کے کسی خصوصی حکم کے منتظر ہیں توان کے دروازے کی زنجیر بھی ہلائی جا سکتی ہے۔

مزید :

کالم -