کلامِ اقبال بزبانِ اقبال؟ (2)
اسی اثناء میں یہ ویڈیو کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی تھی۔ پانچ سات دوستوں کی طرف سے یہی ویڈیو موصول ہوئی اور خوشخبری سنائی گئی کہ اب آئندہ شائد اقبال کی مزید آڈیوز بھی سننے کو ملیں گی۔ میں ان تمام دوستوں کو وہ داستان نہیں سنانا چاہتا تھا جو میں نے اس کالم کے پہلے حصے میں لکھی ہے۔
یہی سوچا کہ اخبار میں ایک کالم لکھ دیا جائے تاکہ وہ قارئین بھی باخبر ہو سکیں جن کو اب تک ’’آوازِ اقبال‘‘ سننے کا ’’شرف‘‘ حاصل نہیں ہو سکا۔ اسی سبب سے اس کالم کی دو قسطیں ہو گئی ہیں۔ انگریزی عبارتوں کے ساتھ ان کا ترجمہ دینے میں طوالتِ کالم کا ارتکاب تو ہو گیا ہے لیکن جو قارئین انگریزی زبان سے کم آشنا ہیں، ان کے لئے شائد یہ ضروری تھا۔۔۔ (بہر کیف اس کے لئے معذرت!)
پھر اگلے روز بیٹے کی طرف سے یہ میسج موصول ہوا:
The Voice behind Shikwa is the Voice of Jamal Nasir, settled in Chicago. His channel is Just a Voice Channel.He recorded this Shikwa in his own voice in 2007. In 2016 somebody stole it from his channel and labelled it as Iqbal`s own voice.Jamal himself never claimed that it was Iqbal`s voice.Hence it is an act of cheating.
[اس آڈیو میں شکوہ کے پیچھے جو آواز ہے وہ جمال ناصر کی ہے جو آج کل شکاگو میں رہتے ہیں۔ ان کا اپنا ایک چینل ہے۔
جو صرف آڈیو چینل ہے۔ انہوں نے 2007ء میں یہ نظم اپنی آواز میں ریکارڈ کی تھی۔ 2016ء میں کسی نے اسے اس چینل سے چوری کرکے اس پر ’’اقبال کی اپنی آواز‘‘ کا لیبل لگا دیا۔ تاہم جمال نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ یہ آواز اقبال کی آواز ہے۔ چنانچہ اس حرکت کو دھوکہ بازی کہا جا سکتا ہے[
شکوہ اور جواب شکوہ، اقبال کی شاہکار نظموں میں شمار کی جاتی ہیں۔ مجھے ان کو کئی بار پڑھنے اور سننے کا اتفاق بھی ہوا۔ نیز مصر کی مشہور مغنیہ ام کلثوم کی آواز میں بھی یہ نظم پاکستان ٹیلی ویژن پر آ چکی ہے اور یومِ اقبال کے کئی مواقع پر مختلف اور معروف فنکاروں نے بھی اس کو تحت اللفظ پڑھ کر سامعین سے داد پائی ہے ۔
ان نظموں کی ایک اور بات ان کی ایک مخصوص ’’لَے‘‘ ہے۔ یہ ’’لَے‘‘ (Tune) عجمی سے زیادہ عربی موسیقی سے قریب تر ہے جبکہ اقبال کی اکثر منظومات ایرانی (عجمی) لَے میں کہی گئی ہیں۔ عربی لَے کو سننے اور ان سے محظوظ ہونے کے لئے ایک خاص طرح کا حسنِ سماعت درکار ہے جو اہلِ برصغیر کے ہاں نسبتاً کم کم پایا جاتا ہے۔اس موضوع پر بہت کچھ کہا جا سکتا ہے۔ لیکن میں اسی شکوہ کے آخری شعر پر اکتفا کرتا ہوں جس میں حضرتِ علامہ نے خود اس فرق کو ملحوظِ خاطر رکھ کر فرمایا تھا:
عجمی خُم ہے تو کیا، مَے تو حجازی ہے مری
نغمہ ہندی ہے تو کیا، لَے تو حجازی ہے مری
تفتن برطرف اس نظم (شکوہ) سے میرے بچپن کا ایک ذاتی واقعہ بھی وابستہ ہے جس میں ہم بھائیوں کو والد صاحب کی طرف سے سخت ڈانٹ پڑی تھی۔ وہ واقعہ یوں ہے کہ اسی شکوے کا ایک مطبوعہ بند والد مرحوم نے فریم کروا کر میرے بیڈ کے سامنے والی دیوار پر لگوایا ہوا تھا جبکہ دوسری دیواروں پر مختلف فطری مناظر کی تصاویر آویزاں تھیں۔ یہ بند چونکہ سوتے جاگتے میری آنکھوں کے سامنے رہتا تھا اس لئے اس کو گاہ گاہ پڑھتے رہنا میری ایک مجبوری سی بن گئی تھی۔
یہ بند برصغیر کے ایک مشہور خطاط عبدالمجید پروین رقم کے قلم سے لکھا ہوا تھا اور ان کا نام بھی ایک کونے میں درج تھا۔ اس فریم شدہ پوسٹر کے چاروں طرف گلاب کے پھولوں کا رنگین حاشیہ بھی لگا ہوا تھا۔۔۔ بند یہ تھا:
مشکلیں امتِ مرحوم کی آساں کر دے
مورِ بے مایہ کو ہمدوشِ سلیماں کر دے
جنسِ نایابِ محبت کو پھر ارزاں کر دے
ہند کے دیر نشینوں کو مسلماں کر دے
جوئے خوں می چکد از حسرتِ دیرینہ ء ما
می تپد نالہ بہ نشتر کدۂ سینہ ء ما
ہمارے زمانے میں پرائمری کلاسوں کے بعد ہائی سکول میں جانے سے پہلے پرائمری ورنیکلرکا ایک وظیفے کا امتحان بھی ہوتا تھا جس میں چوتھی جماعت کے وہ لڑکے شامل ہوتے تھے جو کلاس میں ذہین اور پڑھاکو سمجھے جاتے تھے۔ اس میں شامل ہونا ایک اعزاز بھی سمجھا جاتا تھا اور فرسٹ ڈویژن میں پاس ہونے والے کو شائد چار روپے ماہانہ وظیفہ بھی ملتا تھا۔
میں بھی اس امتحان میں بیٹھا اور کامیاب ہو کر وظیفہ خور بن چکا تھا اور ہائی سکول میں پانچویں کلاس میں جا کر ان طلباء میں شمار کیا جاتا تھا جو اس وظیفہ خوری کے طفیل اپنے آپ کو بڑا پھنّے خان سمجھتے تھے۔ اس امتحان میں پاس ہونے کے لئے اردو، حساب اور اردو املا کے ٹیسٹ دیئے جاتے تھے۔
میں جب اس وظیفے کے امتحان کی تیاری کر رہا تھا تو اردو املا میں پریکٹس کے لئے مشکل مشکل اردو الفاظ کی مشق کیا کرتا تھا۔ اچانک ایک دن خیال آیا کہ اس فریم شدہ کتبے میں جو اشعار لکھے ہوئے ہیں ان کی مشق کیوں نہ کی جائے۔
چنانچہ میں لکڑی کی تختی پر قلم دوات سے اس قطعہ کی املا کی مشق کرنے لگا۔ اچانک والد صاحب آگئے اور انہوں نے دیکھ کر پوچھا: ’’ان الفاظ کے معنی بھی جانتے ہو یا نہیں؟‘‘۔۔۔ میں نے جواب دیا: ’’یہ تو سارے کا سارا قطعہ اتنا مشکل ہے کہ اس کو پڑھا بھی نہیں جا سکتا، مطلب سمجھنے کی بات تو دوسری ہے۔‘‘۔۔۔والد مرحوم کو اقبالیات سے کافی شغف تھا ۔وہ ہمارے سامنے اس بند کی قرات کرنے لگے۔آخری شعر جو فارسی میں تھا اس کی تو ہمیں ’’ککھ‘‘ سمجھ نہ آئی جبکہ پہلے چار مصرعوں میں صرف۔۔۔ کردے، محبت، ہند اور مسلماں۔۔۔ کے چار الفاظ آسان تھے۔
باقی الفاظ یعنی امتِ مرحوم، مورِ بے مایہ، ہمدوشِ سلیماں، جنسِ نایاب، ارزاں اور دیر نشینوں وغیرہ کا مفہوم تو بالکل سر کے اوپر سے گزر گیا۔ والد صاحب ان مشکل الفاظ کا ترجمہ کرنے لگے۔ چھوٹا بھائی دوسری یا تیسری جماعت میں تھا وہ بھی سن رہا تھا۔
جب والد صاحب ’’جنسِ نایاب‘‘ کا مطلب بتانے لگے تو چھوٹے بھائی نے فوراً کہا : ’’ابا جی! یہ دائی صفّاں اور ماسی خیراں تنور پر بیٹھ کر ہر وقت لڑتی رہتی ہیں اور یہی لفظ ایک دوسری کو زور زور سے اس طرح سناتی ہیں جیسے کہ یہ کوئی گالی ہو!‘‘۔۔۔ والد صاحب نے حیران ہو کر پوچھا: ’’کون سا لفظ؟‘‘ تو اس نے کہا : ’’یہی ’یاب‘ والا لف٭۔۔۔‘‘۔۔۔میں نے بھی اس کا ساتھ دیا اور کہا: ’’ہاں ہاں ابا جی! یہ لفظ تو ہر روز ماسی خیراں اپنا دایاں ہاتھ دائی صفّاں کے منہ کے نزدیک لے جا کر بولتی ہے۔ اور دائی صفاں اس کو کہتی ہے: ’’نی توں آپ یاب ہوویں گی۔۔۔ تیری ماں یاب۔۔۔ تیری بھین یاب۔۔۔ ‘‘ اتنے میں والدہ بھی ’’یاب یاب‘‘ کی گردان سن کر ہنستی ہنستی کمرے میں داخل ہوئیں۔ والد صاحب کو بہت غصہ آ رہا تھا۔ والدہ نے کہا: ’’اگر بچوں کو ’’یاب‘‘ کا مطلب نہیں آتا تو آپ نے ضرور بتانا ہے۔۔۔ چھوڑیں، جیلانی کو لکھنے دیں!‘‘۔۔۔ بہت بعد جا کر معلوم ہوا کہ ’’جنسِ نایاب‘‘ کیا ہے اور اس ’’جنس‘‘ کا تعلق ’’یاب‘‘ سے کیا ہے!
قارئین سے معافی کا خواستگار ہوں کہ یہ لطیفہ سنا کر ایک مبتذل پنجابی گالی کا حوالہ دینا پڑا۔لیکن گالی کا یہ واقعہ شکوے کا یہ بند پڑھتے ہوئے مجھے کئی بار یاد آتا رہا اور آج بھی آتا ہے۔۔۔ لیکن اس ویڈیو کلپ میں یہ بند (Stanza) سرے سے موجود ہی نہیں تھا۔ اسی طرح شکوے کا ایک اور بند بھی اس آڈیو کلپ میں سنائی نہیں دیا جو یہ ہے:
بادہ کش غیر ہیں گلشن میں لبِِ جُو بیٹھے
سنتے ہیں جام بکف نغمہء کُوکُو بیٹھے
دور ہنگامہ ء گلزار سے یک سو بیٹھے
تیرے دیوانے بھی ہیں، منتظرِ ’’ھو‘‘ بیٹھے
اپنے پروانوں کو پھر ذوقِ خود افروزی دے
برقِ دیرینہ کو فرمانِ جگر سوزی دے
میں پہلے لکھ آیا ہوں کہ اس نظم کے 31 بند ہیں۔ لیکن جمال ناصر نے اس کلپ میں 29بند سنائے اور دو کو حذف کر دیا ہے۔ یہ بات بھی میری سمجھ میں نہیں آئی کہ یہ دو بند (6اشعار) کیوں نہیں پڑھے گئے۔ کیا پڑھنے والے کے سامنے بانگِ درا کا کوئی ایسا نسخہ بھی تھا جس میں یہ دو بند موجود نہیں تھے؟۔۔۔ میرے خیال میں ایسا کوئی بھی نسخہ نہیں ہو گا جس میں یہ ’’شکوہ‘‘ ان دو بندوں کے بغیر چھاپا گیا ہو۔
اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ قرات کرنے والے نے جان بوجھ کر ان اشعار کو نہیں پڑھا۔ یعنی اس حرکت کو سہوبھی نہیں کہاجا سکتا۔ یہ ایک ارادی غلطی ہے۔
لیکن اس کے ساتھ ہی اگلا سوال یہ بھی ہوگا کہ اس سوچی سمجھی غلطی کا سبب کیا ہے؟۔۔۔ میرے خیال میں اس کی دو بدیہی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ پہلی وجہ پہلے بند کا وہ مصرعہ ہے جس میں اقبال نے ہند کے دیر نشینوں کا ذکر کیا ہے اور دعا مانگی ہے:
ہند کے دیر نشینوں کو مسلماں کر دے
ہرچند کہ ’’دیر نشینوں‘‘ سے مراد اس وقت کے ہندوستانی ہندوؤں سے نہ تھی۔ اقبال جیسا شاعر اس طرح واشگاف الفاظ میں یہ دعا نہیں مانگ سکتا تھا کہ : ’’اے خدا! ہندوستان کے سارے ہندوؤں کو مسلمان کر دے‘‘۔
اقبال نے ہند اور دیرنشینوں کے الفاظ استعارتاً استعمال کئے ہیں۔ ان کا مطلب یہ کہ اے خدا! برصغیر کے باشندوں (جن میں مسلمان بھی شامل تھے) کو مندروں میں بیٹھے پنڈتوں اور برہمنوں کی طرزِ بت پرستی سے نجات دے۔
یہاں بت پرستی کا مفہوم، شخصیت پرستی ہے نہ کہ مٹی اور پتھرکے وہ بت جن کو ہندو پوجتے ہیں۔۔۔ ہمیں معلوم ہے اس وقت (اور آج بھی) پاکستان اور بھارت کی آبادیوں کا ایک کثیر طبقہ شخصیت پرستی کا عادی ہے اور اُس وحدانیت کو فراموش کر بیٹھا ہے جو اقبال نے اپنی ایک دوسری نظم ’’نانک‘‘ میں بیان کی ہے۔ اس نظم کا آخری شعر بھی دیکھ لیجئے:
پھر اٹھی توحید کی آخر صدا پنجاب سے
ہند کو اک مردِ کامل نے جگایا خواب سے
(یہاں مردِ کامل سے مراد بابا گورو نانک ہیں)
جمال ناصر کا خیال ہو گا کہ اس بند میں اس ایک مصرعہ (ہند کے دیر نشینوں کو مسلماں کر دے) سے ہندومذہب کے ماننے والوں کو غلط فہمی ہو سکتی ہے اس لئے انہوں نے خوفِ فسادِ خلق سے اس کو پڑھنا مناسب نہیں جانا ہوگا۔
اسی طرح دوسرے بند میں بھی ایک مصرعہ یہ ہے:
تیرے دیوانے بھی ہیں، منتظرِ ’’ھو‘‘ بیٹھے
اس مصرع کا بھی غلط مطلب نکالا جا سکتا ہے اور اسے مسلم اور غیر مسلم کے امتیاز کی طرف موڑا جا سکتا ہے۔ ’’منتظرِ ھو‘‘ کا مطلب ’’منتظرِ اللہ ھو‘‘ بھی لیا جا سکتا ہے۔ جبکہ اللہ کے دیوانوں میں تو ساری مخلوقِ خدا شامل ہے۔ لفظ’’ھو‘‘ کو مسلمانوں کے ’’اللہ ھو‘‘ سے خاص کرنا اقبال کا مقصود نہ تھا۔
علاوہ ازیں اس آڈیو کلپ کو جمال ناصر کے آڈیو سٹوڈیو سے چرا کر اس کے ساتھ ریڈیو پاکستان اور پھر آئی ایس پی آر کے ناموں کو نتھی کر دینا ،ایک ایسی مذموم حرکت ہے جو سوشل میڈیا کی دوسری بہت سی مردود حرکات میں شمار کی جا سکتی ہے۔