صدر کا افطار .......... اعلیٰ سطحی تبدیلی

صدر کا افطار .......... اعلیٰ سطحی تبدیلی
صدر کا افطار .......... اعلیٰ سطحی تبدیلی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


برطانوی سفیر تھامس ڈریو کا مرچ مصالحہ سے معمور کراچی بریانی کا چمچ منہ میں ڈالنے سے چہرہ سرخ ہورہا تھا ، لیکن مزید تیز بریانی کا چسکہ انہیں بریانی کھانے سے دستبردار نہیں کر پا رہا تھا، ایوان صدر میں کھانے کی میز پر کراچی بریانی اور کھٹی بھنڈی کے تیز کھانوں کا مزہ لیتے بار بار پانی کے گلاس کی جانب ہاتھ بڑھانے سے ہمارے ساتھ ان کی غیر رسمی لیکن دلچسپ گفتگو کا تسلسل ٹوٹ جاتا ، یہ موقع صدر مملکت ممنون حسین کی جانب سے غیر ملکی سفراء کے اعزاز میں منعقدہ ایک افطار ڈنر کا تھا جہاں ہمیں برطانوی سفیر ڈیوڈہیل کے ساتھ ایک ہی میز پر بیٹھنے کا موقع میسر آیا تھا ، برطانوی سفیر جن کا چہرہ پہلے سے ہی تیز مرچ والے دیسی کھانوں کی بناء پر لال ہورہا تھا ، لیکن حال ہی میں ہونے والے مانچسٹر بم دھماکے اور اس کے بعد لندن میں ہونیو الے حملوں کے تذکرہ نے انہیں قدرے مغموم تو ضرور کیا لیکن ان کے رویہ میں گرمی آئی نہ ان کے لہجے میں غصہ آیا ، ان کا خیال تھا کہ مغربی معاشروں میں امیگرنٹس کے سماجی و معاشرتی انضمام کا ایک اہم چیلنج موجود ہے ، تاہم دلچسپ امر یہ ہے کہ ان کے رویہ میں وہ تلخی اور غصہ و اضطراب سے معمور وہ گھبراہٹ نہیں تھی جو امریکی رویہ اور پالیسیوں میں نظر آتی ہے ، ان کی گفتگو سے یہ تاثر عیاں تھا کہ برطانیہ جنوبی ایشیائی نژاد برطانوی شہریوں کی بھر پور ملکیت کے ساتھ معاملات کو حل کرنے کا خواہاں ہے جبکہ یہ بات عیاں ہے کہ جنوبی ایشیائی ممالک کے معاملات میں خواہ وہ داخلی ہوں یا باہمی برطانیہ کا کردار ہمیشہ نظر آتاہے ، جبکہ بعض مواقع پر امریکہ بھی برطانیہ کو سفارتی ڈھال کے طورپر استعمال کرتاہے ، حال ہی میں پاک افغان کشیدگی جب بام عروج پر تھی تو برطانیہ نے حسب روایت ایک بروکر کا کردار ادا کیا جس کے نتیجہ میں ہی آستانہ میں وزیراعظم محمد نوازشریف اور افغان صدر اشرف غنی کے مابین ملاقات میں باہمی اعتماد سازی کے بعض اقدامات پر اتفاق ہوا ، درحقیقت تھرڈ پارٹی کی جانب سے پاکستان اور افغانستان دونوں اطراف کے اقدامات کی توثیقی میکانزم کے تشکیل پر اتفاق لندن میں پاکستان اور افغان قومی سلامتی کے امور کے مشیران نے برطانوی حکام کی موجودگی میں ہی کیا تھا ، یعنی پاکستان اور افغانستان کی قیادت نے آستانہ میں جس میکانزم پر اتفاق کیا ہے اس کے خدو خال کھینچنے میں برطانیہ کا کردار اہم تھا ، ڈیوڈ ہیل سے برطانیہ میں دہشتگردی کے اسباب ، ’’بریگرٹ ‘‘برطانوی انتخابات اور پاکستان کو درپیش چیلنجز سے عہد برآ ہونے کیلئے برطانوی کردار کے حوالے سے تمام موضوعات پر غیر رسمی بات چیت ہوئی ۔
ایوان صدر میں ہونیوالے اس افطار ڈنر پر بعض دلچسپ مناظر بھی دیکھنے میں آئے روس اور چین کے سفیر شائد پاکستان کی انکے ممالک کے ساتھ حالیہ قربت کے باعث صدر مملکت ممنون حسین کی مرکزی میز پر براجمان تھے ، جبکہ مغربی ممالک کے بیشتر سفراء دیگرمیزوں پر تشریف فرما تھے ، چین اور روس کے سفیر جو ویسے بھی نہ صرف خاصے متحرک ہیں بلکہ سماجی حلقوں میں قدرے مقبول بھی ہیں ، دونوں خاصے خوش نظر آرہے تھے ایسا لگ رہا تھا کہ مغربی ممالک کے سفیروں کو ان جیسی پذیرائی نہیں مل رہی ، جبکہ ایران اور قطر کے سفیروں میں خاصی باہمی قربت نظر آرہی تھی ، دونوں نہایت گرم جوشی سے ملے اور گفتگو کرتے بھی نظر آئے ، تقریب میں بھارتی سفیر بمبانوالہ بھی موجو د تھے ، افطار کے بعدان سے بھی مختصر ملاقات ہوئی تو میں نے انہیں کہا کہ کچھ خیال کریں کہ رمضان المبارک کے مہینہ میں تو کنٹرول لائن کو ٹھنڈ ارکھیں ، پاکستان میں بھارتی سفیر عمدہ سفارتکار ہیں ان کی بغل میں شائد چھری ہو لیکن وہ منہ پر رام رام کرتے ہی ملتے ہیں ، انہوں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ڈی جی ایم اوز کی باہم گفتگو ہوئی ہے امید ہے کہ اس سے فرق پڑے گا ، دلچسپ امر یہ ہے کہ صدر ممنون حسین نے بھارتی سفیر کی موجودگی میں کشمیر میں بالخصوص رمضان کے مہینہ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے حق میں بھارت کو آڑے ہاتھوں لیا اس موقع پر بھارتی سفیر آنکھیں چراتے ہوئے پائے گئے ، صدر مملکت نے ترقی یافتہ ممالک کے ضمیر کو بھی جھنجھوڑا کہ نا انصافی کرکے وہ ترقی کے ثمرات سے بہرہ ور نہیں ہوسکتے ، موجودہ عالمی حالات کے حوالے سے اہم ملک سعودی عرب کے سفیر نائب سفیر اور ناظم الامور تینوں کی عدم موجودگی کے باعث سعودی سفارتخانہ کے میڈیا اور پبلک افئیر ز کے سربراہ نے نمائندگی کی نامزد سعودی سفیر کی جانب سے عہدہ نہ سنبھالنے اور دیگر سینئر سفارتکاروں کی عدم موجودگی کے باعث پاکستان کومعروضی سفارتی معاملات میں دقت کا سامنا ہے۔
افطار ڈنر میں صدر کے سیکرٹری شاہد خان بھی موجود تھے ، ان کے بارے میں شنید ہے کہ انہیں وفاقی محتسب کے عہدہ پر لگانے کی تجویز ہے ، اس اہم ترین عہدہ پر چار سال کے لئے تعیناتی ہوتی ہے تاہم جب اس تجویز کے بارے میں ان سے استفسار کیا گیا تو انہوں نے کہا میرا رازق اللہ ہے جہاں چاہے بھیج دیگا، لیکن جب ایک طرف انہیں وفاقی محتسب لگانے کی تجویزہے تو دوسری جانب یہ معلوم ہو اہے کہ قومی احتساب بیورو ان کے پیچھے ہے وہ اس عہدہ سے قبل سیکرٹری داخلہ کے عہدہ پر فائز تھے ، نیب کے اعلیٰ ترین ذرائع کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے بحیثیت سیکرٹری داخلہ نیشنل پولیس فاؤنڈیشن سے ایک کمرشل پلاٹ لیا مبینہ طورپر جس کے وہ اہل نہیں تھے ،جو منتقلی کے فوراً بعد مبینہ طورپر چار کروڑ روپے کا فروخت کردیا گیا ، اس حوالے سے بعض لوگوں کی رائے ہے کہ اس پلاٹ کو لینے میں کوئی قانونی مضائقہ نہیں تھا ، اور انہوں نے یہ پلاٹ لے کر کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا ، جبکہ شاہد خان بیوروکریسی اور حکومتی حلقوں میں ایک اعلیٰ پائے کی شہرت کے حامل افسر کے طورپر گردانے جاتے ہیں ، شومی قسمت کہ محتسب اعلیٰ کے عہدہ کیلئے زیر غور افسر اس وقت خود احتساب کے کٹہرے میں ہیں ،دریں اثنا مختصر مدت میں بجٹ 2017-18تیار کرنے والے سیکرٹری خزانہ طارق باجوہ 18جون کو ریٹائر ہورہے ہیں ، طارق باجوہ قابلیت اور کردار کے حوالے سے اعلیٰ ساکھ کے حامل ہیں وہ پنجاب میں بجٹ کی تشکیل سازی کے ساتھ ساتھ مرکز میں چیئرمین ایف بی آر اور سیکرٹری اکنامک افیئر ز ڈویژن بھی رہے ہیں ، انہیں آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے عہدہ پر تعینات کرنے کی تجویز ہے جبکہ ان کی جگہ پر سپیشل سیکرٹری خزانہ شاہد محمود کو تعینا ت کئے جانے کا امکان ہے ،شاہد محمود نہ صرف داخلی طورپر معاشی شعبہ میں ایک ماہر بیوروکریٹ کے طورپر گردانے جاتے ہیں بلکہ انہیں عالمی مالیاتی اداروں میں کام کرنے کا بھی وسیع تجربہ ہے ۔

مزید :

کالم -