ان اساتذہ سے بھی ملئے

ان اساتذہ سے بھی ملئے
ان اساتذہ سے بھی ملئے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

یونیورسٹیوں میں بہت سے ڈیپارٹمنٹ ہو تے ہیں اور ہر ڈیپارٹمنٹ کا اپنا مزاج۔کلاسوں میں بھی ہر طرح کے طالب علم ہوتے ہیں اورہر طالب علم کا اپنا مزاج۔ دیکھا گیا ہے کہ ہر کلاس میں ایک دو طالب علم ایسے ہوتے ہیں جو پڑھتے کم اور شغل زیادہ کرتے ہیں۔

کبھی کبھی کوئی ایسی کلاس بھی آ جاتی ہے کہ جس کے زیادہ طالب علم علمی سرگرمیوں سے لاتعلق اور شغل سے زیادہ سروکار رکھتے ہیں۔ اس میں بھی اصل قصور اساتذہ کا ہوتا ہے۔اساتذہ اگر طلبا کو صحیح ڈلیور نہ کریں تو یقیناًطلبا کی رگ ظرافت پھڑکتی ہے اور خوب پھڑکتی ہے۔

لاہور کی ایک بہترین اور شاندار یونیورسٹی میں بھی ایک ایساڈیپاٹمنٹ ہے جہاں خواتین اساتذہ کی اکثریت ہے ۔ یہ شعبہ اک عرصے تک لاوارث رہا ، کوئی مستقل ڈائریکٹر نہیں۔ کچھ لاوارث سا ہونے کے سبب، ڈیپارٹمنٹ میں کام کرنے والوں کی عادتیں بھی بگڑی ہوئی ہیں۔ اتفاق سے ایک مستقل ڈائریکٹر میسر آئے تو ہیں، مگر کچھ ہومیوپیتھک سے ہیں، ویسے پیدائشی شرمیلے بھی بہت ہیں۔ طالب علموں سے بات کرتے کچھ سہمے سہمے نظر آتے ہیں۔

لگتا ہے ان کا تعلق اس قبیلے سے ہے کہ جن کے بارے شاعر کہتا ہے’’ جو کچھ نہیں کرتے کمال کرتے ہیں‘‘۔


اس مخصوص ڈیپاٹمنٹ کی کچھ بچیاں بضد ہیں کہ میں ان کی ہمہ صفت خواتین اساتذہ کی گوناگوں خوبیوں کے بارے کچھ لکھوں۔میں لکھوں، کیوں لکھوں اورکیا لکھوں مجھے سمجھ نہیں آتی۔بچیوں سے پیار اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ انکار نہیں کرنا۔

میں بھی ایک استاد ہوں ، اس ڈیپارٹمنٹ میں ایک عرصے تک درس وتدریس کی ہے اور ایک ساتھی کی حیثیت سے ان خواتین اساتذہ کا احترام بھی ملحوظ نظر ہے ۔ سوچا جو میں جانتا ہوں وہ تو میں آسانی سے بیان کر سکتا ہوں چلو آج ہلکی پھلکی گفتگو ان کے بارے بھی ہو جائے۔

بڑی معذرت کے ساتھ کہ وہ سبھی استاد ہیں اورمستند استاد کیونکہ لوگ کہتے ہیں کہ وہ شخص جوجب آپ چاہتے ہوں تو نہ بولے اور جب نہ چاہتے ہوں تو خوب بولے یقیناً استاد ہوتا ہے ۔ ان خواتین کی اسی مخصوص خوبی کی وجہ سے میں بغیر کسی شرط کے انہیں استاد تسلیم کرتا ہوں۔

میرے ساتھ ان کا پیار اور احترام کا رشتہ ہے اس رشتے میں کبھی میں نے اپنی اور نہ ہی ان کی طرف سے کوئی کمی محسوس کی ہے۔علم و عرفان کے حوالے سے اگر دیکھا جائے تو ما شا اﷲ ان میں ایک سے بڑھ کر ایک لائق ہے۔ ان کی باتوں اور انداز سے علم چھلکتا ہے۔

ان کا چلنا، ان کا ہلنا، ان کا اٹھنا بیٹھنا ان کا ہر فعل سراپا علمیت کا اظہار ہے۔وزن کے لحاظ سے بھی اﷲکے فضل سے کوئی انہیں مات دے،یہ ممکن نہیں ، ایک سے بڑھ کر ایک ہے۔لباس اور فیشن میں بھی پوری استادی نظر آتی ہے۔

آج کا میں کہہ نہیں سکتا مگر جب تک میں وہاں تھا۔ میں نے ان کی قابل دید پھرتیاں دیکھی ہیں۔ دس سے گیارہ بجے کی کلاس ہو۔ بھاگتی ہوئی ساڑھے دس کے فوراً بعد ڈیپاڑمنٹ میں داخل ہونگی ۔ بچیوں کو حکم ہو گا، آرہی ہوں اور پونے گیارہ بجے سے پہلے کلاس میں۔فرض کی ادائیگی کایہ احساس بڑی بات ہے۔ پوری پندرہ منٹ کلاس سے سر کھپانے کے بعد تھکی ہاری کمرے میں آ جاتی ہیں۔


کہتے ہیں اﷲشکر خورے کو شکر دیتا ہے۔ علم اور طریقہ تدریس کی متلاشی ان اساتذہ کو اﷲ نے ایک منٹریعنی ایک بزرگ جہاندیدہ استاد بھی مہیا کیا ہوا ہے جو اس قدر مخلص ہے کہ تدریس کے داؤ پیچ سکھانے کے لئے ہمہ وقت ان کے کمروں کے آس پاس ان کے انتظار میں موجود رہتا ہے۔

ویسے تو میرے ان محترم، شفیق اور انتہائی محترم استاد کا اپنا بھی ایک شعبہ اور اپنا کمرہ بھی ہے مگر وہ کہتے ہیں کہ خدمت وہ جو سورج کی طرح کی جائے۔ ادھر ڈوبے ادھر نکلے، ان کی مخلصی کا کمال ہے کہ وہ کبھی ایک خاتون اور کبھی کسی دوسری خاتون کے کمرے میں آتے جاتے نظر آتے ہیں اور یوں سارا دن خدمت خلق میں گزار دیتے ہیں۔

یہ نہ کریں تو کیا کریں۔ ان کے اپنے شعبے میں تو صرف وظیفہ ہے کام نہیں۔وظیفے کو حلال رزق میں بدلنے کے لئے ان کی یہ سعی موجودہ دور میں اک زمانے کے لئے مشعل راہ ہے۔ اﷲ سب کو ایسی توفیق دے۔


ایک بچی بتا رہی تھی کہ کم نمبر آنے کے سبب اس کی والدہ شکایت لے کر آئیں۔ انہوں نے ٹیچر کو درخواست کی کہ بچوں کو چیک بھی کیا کریں کہ انہیں سمجھ بھی آئی یا نہیں تو جواباً ٹیچر ان کی والدہ کو کہنے لگیں کہ آپ کی بیٹی نالائق ہے اسے نقل کرنا ہی نہیں آتی، نمبر کیسے لے گی۔ وہی ٹیچر ایک دن حسب عادت بھاگتی ہوئی کلاس میںآئی اور کہنے لگی کہ آج میں مینڈک لائی ہوں اور تم سب کو دکھانا چاہتی ہوں۔ پھر اس نے پرس میں ہاتھ ڈالا اور پریشانی سے ایک سینڈوچ نکالتے ہوئے بولی ، راستے میں تو میں نے سینڈوچ کھایا تھا ، مگر یہ کیا کہ سینڈوچ موجود ہے اور مینڈک؟ کہیں میں مینڈک تو۔۔۔۔۔


ایک دفعہ کسی شکایت پر انکوائری کے لئے ایک سینئر پروفیسر تشریف لائے۔ کلاس کے چند لڑکے باہر کھڑے رہے۔ اندر نہ آنے کی وجہ پوچھی تو کہنے لگے کہ وہ outstanding لوگ ہیں ۔

باہر کھڑے رہ کر کتاب پڑھتے ہیں تو سب سمجھ آ جاتا ہے جب کہ کلاس کے اندر کچھ سمجھ نہیں آتا۔اس دن مجھے آؤٹ سٹینڈنگ کے اصلی معنی پتہ چلے۔ کلاس کے اندر پچھلی سیٹوں پربہت سی لڑکیاں سو رہی تھیں۔ پروفیسر صاحب نے کلاس کی بقیہ لڑکیوں کوکہا انہیں اٹھاؤ۔

جواب ملا آپ کے ساتھ جو ٹیچر کھڑی ہیں ان کو کہیں انہیں اٹھائے کیونکہ یہ ان کا لوری دینے کا وقت ہے۔ یہ لوری کے تصور میں روزانہ ان کے آنے قبل ہی سو جاتی ہیں۔ جاگتی بچیوں سے انہوں نے پانی کا کیمیکل فارمولا پوچھا ۔

ایک بچی فرفر بولنے لگی، H,I,J,K,L,M,N,O پروفیسر صاحب نے پریشان ہو کر پوچھا، اتنا لمبا فارمولا، اس نے ٹیچر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ہی توبتایا تھا کہ یہ H سے O (H to O)تک ہوتا ہے۔ٹیچر جسے اپنی شاندار تدریس پرشرمندہ ہونا تھا، مسکرا رہی تھی اور پروفیسر صاحب تعلیمی بربادی پر پانی پانی ہو رہے تھے۔


بچیاں کہتی ہیں کہ ان کے ڈیپارٹمنٹ میں انہیں محسوس ہوتا ہے کہ ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔انہیں کسی غمگسار کی ضرورت ہے۔ان کے بقول بعض ٹیچر گھر کی پریشانیوں کا حل اپنی طالبات کو پریشان کرنے میں ڈھونڈتی ہیں۔

چند ٹیچر جائز نمبر بھی ذلیل کرکے دیتی ہیں۔ انہیں احساس ہی نہیں کہ اب ہم بالکل بچیاں نہیں۔عمر کے اس حصے میں ہیں جب احساس اور شعور پوری طرح جوان ہوتا ہے۔ عزت صرف ان کا سرمایہ نہیں ۔ احترام اور جائز احترام ہمارا بھی حق ہے۔

ہم پڑھنے آئی ہیں ، اس سارے عمل میں ٹیچر کو جھڑکنے کا حق ضرور ہے ۔ مگر اوقات سے باہر ہونے کا نہیں۔کسی ٹیچر سے اسی کے بارے بات انہیں بہت مہنگی پڑتی ہے۔ ڈائریکٹر سے بات کریں تو الٹا ڈانٹ پڑتی ہے۔ کوئی ٹیچر اپنی اصلاح کی کوشش نہیں کرتا۔

یونیورسٹی میں کوئی ایک شخص ایسا ہونا چائیے کہ شکایت کا ازالہ بھی ہو جائے اور اس کے نتیجے میں کوئی کسی کی ناراضگی کا نشانہ بھی نہ بن جائے۔کوئی استاد اگر کچھ ڈلیور نہیں کرتا تو طلبا کے کسی احتجاج سے پہلے اس ٹیچر کو سمجھانے یا اس کا متبادل ملنے کی گنجائش ہونی چاہئیے

۔ویسے ان کا خیال ہے کہ ان کے شعبے میں اچھے ٹیچر کو کوئی برداشت ہی نہیں کرتا۔وہاں موجود ٹیچروں کا ایک خاص معیار ہے اور ان کے اپنے مطابق سب اچھے ہیں اور اس جمہوری دور میں اساتذہ کی اکثریت اگر یہ کہتی ہے تو جمہوری قدروں سے کون ٹکرائے گا۔

مزید :

کالم -