ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر
نیٹو سپلائی بحال ہونے کے فوراً بعد امریکہ نے ڈرون حملوں کا سلسلہ بھی شروع کر دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے صرف سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کو ہی اپنی آزادی و خود مختاری پر حملہ سمجھا تھا، باقی امریکہ جہاں چاہے حملے کرتا رہے، اسے پوچھنے والا کوئی نہیں اور نہ ہی ہماری لیڈر شپ کو اس کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت ہوتی ہے....دنیا کا شاید ہی کوئی آزاد ملک ایسا ہو، جس پر امریکہ اس طرح ڈھٹائی کے ساتھ حملے کرنے کی جرا¿ت کر سکے، حتیٰ کہ ایران اور شمالی کوریا جیسے امریکی نفرت کا شکار ملک بھی امریکہ کو ایسے حملوں کی اجازت نہیں دیتے اور نہ ہی امریکہ میں اتنا حوصلہ ہے کہ انہیں نشانہ بنا سکے۔ ایک ہم ، جو ایٹمی طاقت بھی ہیں، امریکہ کو ان حملوں سے نہیں روک سکے۔ امریکہ ایک طرف ہمیں ڈیڑھ ارب ڈالر سالانہ امداد دینے کا لالچ دیتا ہے اور دوسری طرف اس نے پاکستان کو مفتوحہ علاقہ سمجھ رکھا ہے۔ اسی امریکی پالیسی کی وجہ سے پورا پاکستان دہشت گردی کی لپیٹ میں آیا ہوا ہے اور امریکہ کے خلاف مسلح جدوجہد کرنے والے افراد اپنا غم و غصہ پاکستانی عوام کو دہشت گردی کا نشانہ بنا کر نکال رہے ہیں۔
موجودہ صورت حال کے پس منظر میں آج کل یہ تاثر بڑی تیزی سے ابھر رہا ہے کہ پاکستان کو ایک ایسی قیادت کی ضرورت ہے، جو امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکے۔ اکثر لوگوں کی خواہش ہے کہ پاکستان میں کوئی نیلسن منڈیلا یا امام خمینی جیسا لیڈر پیدا ہو جائے، جو امریکیوں کی گیدڑ بھبھکیوں کو جوتے کی نوک پر رکھے.... حال ہی میں مجھے ایک ای میل کے ذریعے سٹیزن لبرٹی کونسل کے چیئر مین ڈاکٹر سہیل فاروق نے ایک اہم نکتے کی نشاندہی کی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ نیلسن منڈیلا اور امام خمینی کی عظمت اپنی جگہ، تاہم حالیہ برسوں میں خود مسلمانوں کے اندر ایسے رہنما بھی پیدا ہوئے، جنہوں نے صحیح معنوں میں سٹیٹس مین کا کردار ادا کیا۔ انہوںنے جدید ملائیشیا کے ہر دل عزیز رہنما ڈاکٹر مہاتیر محمد کی مثال دی۔ انہوں نے جس طرح یورپ اور امریکہ کو للکارا اس پر جنوبی اور وسطی ایشیا کے عوام کو ہمیشہ فخر رہے گا۔ اس خطے میں، جسے ان ملکوں نے تیسری دنیا کا نام دے رکھا ہے اور جس کی جڑوں میں قرضوں کی افیون ڈال کر انہیں مجہول بنا دیا گیا ہے، اب کوئی ایسا شخص نظر نہیں آتا، جو سٹیٹس مین کا کردار اپنائے اور اپنے اندر دنیا کی اقتصادیات پر مسلط ان طاقتور ملکوں کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کرنے کا حوصلہ پیدا کرے۔
چھ مرتبہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے ڈاکٹر مہاتیر محمد جہاں اپنی قوم کی آنکھ کا تارا تھے، وہیں بڑی طاقتوں کی آنکھوں میں ہمیشہ کانٹا بن کر چبھتے رہے۔ ان پر بنیاد پرستی اور رجعت پسندی کے الزامات لگا کر امریکہ اور یورپ کے ممالک اپنا غصہ نکالتے رہے۔ ڈاکٹر مہاتیر محمد نے ہمیشہ بڑی طاقتوں کی چودھراہٹ کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ چند بڑے ممالک چھوٹے ملکوں کو ڈکٹیشن دینے والے کون ہوتے ہیں۔ انہیں کس نے اختیار دیا ہے کہ وہ چھوٹے ملکوں کی معیشت کے بارے میں فیصلے کریں؟....غربت کو غلامی کے معانی پہنانے والے دنیا کے ٹھیکیدار ممالک کو جس طرح ڈاکٹر مہاتیر محمد نے آڑے ہاتھوں لیا، اس پر مغربی میڈیا انگشت بدنداں تھا اور دبے دبے لفظوں میں ان خدشات کا اظہار کرتا رہا کہ مہاتیر محمد تیسری دنیا کی ترجمانی کر رہے ہیں اور مغرب کے تسلط کے خلاف چنگاری پھر شعلہ بن رہی ہے۔
تیسری دنیا خصوصاً اسلامی بلاک کی ترجمانی کا فریضہ کسی زمانے میں پاکستان کی ذمہ داری تھی، لیکن پاکستانی قیادت کی پے در پے بد اعمالیوں نے اس ملک کو بڑی طاقتوں کا دریوزہ گر بنا دیا حتیٰ کہ نوبت یہاں تک آچکی ہے کہ امریکی اب پاکستان کو گالی دینے سے بھی نہیں چوکتے اور اس پر حملوں کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ اصل میں پاکستان اور ملائیشیا میں فرق ہی یہ ہے کہ پاکستان میں ایسی قیادت کو مستحکم نہیں ہونے دیا گیا، جو سٹیٹس مین کا کردار ادا کر سکے۔ آج اگر ملائیشیا سیاسی و اقتصادی طو رپر ایک مضبوط ملک ہے، تو اس میں قیادت کے اس تسلسل کو بڑا عمل دخل حاصل ہے جو ہمیشہ قومی امنگوں کی آئینہ دار رہی ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں پاکستان کی 65 سالہ تاریخ میں کئی مواقع ایسے آئے، جب اس ملک کو وہ قیادت میسر آئی، جو اگر سازشوں کے ذریعے ختم نہ کی جاتی تو پاکستان کی صورت حال یکسر مختلف ہوتی۔ قائد اعظمؒ اگر چند سال زندہ رہتے تو یقینا ہم ان تمام الجھنوں سے بچ جاتے، جن کا بعد میں یکے بعد دیگرے شکار ہوتے چلے گئے....تاہم ان کی وفات کے بعد لیاقت علی خان کی شکل میں قوم کو جو قیادت ملی، اس میں بھی اتنی صلاحیت موجود تھی کہ قوم کی بھٹکتی ناﺅ کو کنارے لگا دے، لیکن ایک سازش کے تحت، جو بدقسمتی سے آج تک بے نقاب نہیں ہو سکی، لیاقت علی خان کو راستے سے ہٹا دیا گیا، پھر اگلے بیس سال تک قوم کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ تاریخ کا حصہ ہے۔
لیاقت علی خان کے بعد ذوالفقار علی بھٹو ایسے لیڈر تھے، جو سٹیٹس مین کی تعریف پر پورا اترتے تھے۔ کوئی ان کی ذات سے لاکھ اختلاف کرے، لیکن اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کو اسلامی دنیا کی ایک مرکزی قوت بنانے کے لئے ناقابل فراموش کردار ادا کیا۔ ان میں یہ حوصلہ بھی تھا کہ وہ بڑی طاقتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکتے تھے۔ انہیں اگر دس پندرہ سال مزید کام کرنے کا موقع مل جاتا، تو نہ صرف پاکستان کی صورت حال آج سے مختلف ہوتی، بلکہ علاقائی سیاست کا نقشہ بھی کچھ اور ہوتا۔ جنرل محمد ضیاءالحق اگرچہ ایک آمر کی حیثیت سے اقتدار میں آئے تھے، لیکن سات آٹھ سال اقتدار میں گزارنے کے بعد وہ عالمی سطح کی شخصیت بن گئے تھے اور میرے نزدیک انہیں سٹیٹس مین کا درجہ حاصل ہو گیا تھا۔ عالمی سطح پر ان کے جس سب سے بڑے کارنامے کو سراہا گیا، وہ افغانستان میں روس کی پسپائی تھی۔ اس حقیقت کو جھٹلانا نا ممکن ہے کہ اگر جنرل ضیاءالحق کی زندگی میں ہی افغانستان میں مجاہدین کو اقتدار کی منتقلی کا مرحلہ عمل میں آتا، تو وہ خون خرابہ نہ ہوتا جو افغانستان میں ہوا۔
افغانستان کے تمام گروپ انہیں اپنا گاڈ فادر سمجھتے تھے۔ انہیں عین اس موقع پر راستے سے ہٹا دیا گیا، جب افغانستان میں عوامی راج قائم ہونے والا تھا اور اس کے نتیجے میں نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کا شغر اسلامی دنیا کے خواب کو تعبیر ملنے والی تھی۔ اس صورت حال کی وجہ سے افغانستان میں جو انتشار پیدا ہوا، وہ آج تک نہ صرف ایشیا،بلکہ پوری دنیا کے لئے درد سر بنا ہوا ہے۔ جس طرح لیاقت علی خان کی وفات کے بعد قیادت کا بحران اور سیاسی عدم استحکام اپنے عروج پر پہنچ گیا تھا، اسی طرح جنرل ضیاءالحق کی وفات کے بعد سیاسی بحران شدید تر ہو گیا، جو کسی نہ کسی شکل میں آج تک جاری ہے۔ ملائیشیا آج ترقی و خوشحالی کی جس منزل پر کھڑا ہے، اس میں سیاسی استحکام کا بڑا عمل دخل ہے۔ سیاسی استحکام رہے، تو قوم میں اچھی روایات خود بخود پنپنے لگتی ہیں۔ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے کرپشن، لاقانونیت، کساد بازاری اور غربت نے قوم کے سینے پر پنجے گاڑ دئیے اور قوم ان کے بوجھ تلے دبتی چلی گئی۔
آج پاکستان کو ڈاکٹر مہاتیر محمد جیسی قیادت کی اشد ضرورت ہے۔ ایسی قیادت جو سٹیٹس مین کا کردار ادا کر سکے، ایسی قیادت جو پاکستانیوں کو ایک بے ہنگم ہجوم کے بجائے قوم میں ڈھال سکے۔ جو ان فتنوں پر قابو پا سکے، جو فرقہ واریت، نسلی تعصب اور دہشت گردی کی شکل میں پروان چڑھ رہے ہیں۔ جو قوموں کی برادری میں پاکستان کا وقار بحال کر سکے، جو اس کاسہءگدائی سے نجات دلا سکے، جو ہمارا امتیازی نشان بن کر رہ گئی ہے جو پاکستانیوں کو بھوک، ننگ اور افلاس سے بچا سکے جو پاکستان کی اسلامی دنیا میں مرکزیت کو بحال کر سکے، جو پاکستان کے ماتھے سے کرپشن کا داغ دھو سکے، جو پاکستان کو قائد اعظمؒ کا پاکستان بنا سکے، جو کمزوروں اور طاقتوروں کے درمیان حائل امتیازات کی وہ زہریلی خلیج پاٹ سکے، جس نے معاشرے میں ”جس کی لاٹھی اس کی بھینس“ کے فلسفے کو عام کر رکھا ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے بات کرسکے۔ اس کے حملوں پر غلامانہ احتجاج کی بجائے منہ توڑ جواب دینے کا حوصلہ پیدا کر سکے۔
ایسی قیادت کا حصول ناممکن نہیں، لیکن اس کے لئے اس سچائی، بے غرضی، خلوص اور قوم پرستی کی ضرورت ہے، جو انسان کو دوسرے تمام تعصبات اور مفادات سے بالا کر دیتی ہے۔ سیاسی، گروہی، مفاداتی اور ذاتی تعصبات نے ہماری لیڈر شپ کو اس آفاقیت سے محروم کر رکھا ہے، جو ایک بڑا لیڈر بننے کے لئے ضروری ہوتی ہے۔ کاش کوئی رہنما اس آفاقیت کو چھولے، قوم اس کے پاﺅں چھولے گی۔ کاش! دہری شہریت کا قانون بنانے والے یہ سوچیں کہ دوغلا آدمی کب کوئی بڑا قدم اٹھا سکتا ہے؟ جس کی وفا داری دو قوموں میں منقسم ہو، وہ کسی ایک قوم کی رہنمائی کا فریضہ کیسے ادا کر پائے گا؟ مگر اس بارے میں کوئی نہیں سوچے گا، کیونکہ پاکستان ہمارے لیڈروں میں سے اکثر کی کبھی ترجیح رہا ہی نہیں۔ ان لیڈروں پر غالب کا یہ شعر صادق آتا ہے:
ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ میرے پیچھے ہے، کلیسا میرے آگے