امریکہ۔بھارت دفاعی اشتراک؟ (1)
میں آج کے فارن پرنٹ میڈیا میں ایک بہت دلچسپ اور سبق آموز خبر پڑھ رہا تھا (بشرطیکہ ہم پاکستانی اس سے کوئی سبق سیکھ سکیں)۔۔۔
امریکہ نے دنیا کو مختلف خطوں میں تقسیم کر رکھا ہے اور ان کے لئے مختلف کمیٹیاں اور پینل بنا رکھے ہیں جو ان خطوں میں امریکی مفادات کی نگہداشت کرتے ہیں۔ ان مفادات میں جیو ملٹری اور جیوپولیٹیکل مفادات سرفہرست ہوتے ہیں۔
ہم جس خطے میں بس رہے ہیں اس کو ’’جنوبی ایشیا‘‘ (South Asia) کا نام دیا جاتا اور اس میں امریکی مفادات کی نگہداشت کرنے والی امریکی تنظیموں میں ایک تنظیم کا نام ’’ساؤتھ ایشیا پینل آف ہاؤس فارن افیئرز کمیٹی‘‘ ہے۔ یعنی جنوبی ایشیا میں امریکہ کی خارجہ امور کی دیکھ بھال کرنے والی کمیٹی۔۔۔۔
یہ کمیٹی گاہے بگا ہے کانگریس کو امریکی امور و مفادات کے سلسلے میں بریفنگ دیتی رہتی ہے۔ (برسبیلِ تذکرہ! ذرا اپنی پاکستانی پارلیمنٹ پر بھی نگاہ دوڑائیں اور اس کی کارکردگی کا ایک سرسری سا جائزہ بھی لیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ہم ابھی تک اس موضوع کے سلسلے میں پتھر کے زمانے میں رہ رہے ہیں)امریکی ایڈمنسٹریشن کے جو عہدیدار کانگریس کو اس کمیٹی کی ورکنگ اور پرفارمنس کے بارے میں بریف کرتے ہیں ان میں مرد بھی شامل ہوتے ہیں اور خواتین بھی۔ امریکی وزارتِ خارجہ کی ایک اسسٹنٹ وزیر خارجہ برائے جنوبی ایشیاء بھی ہیں۔ دراصل امریکہ میں ایسی اسسٹنٹ وزرائے خارجہ ایک نہیں، کئی ہیں۔ ان میں سے ایک کا نام ایلس ویلز (Alice Wells) ہے۔ یہ محترمہ اگلے روز کانگریس کی اپنی کمیٹی کی کارکردگی کے سلسلے میں جو کچھ بتا رہی تھیں وہ میرے نزدیک دو پہلوؤں سے حیران کن بھی ہے اور چشم کشا بھی۔ ایک پہلو تو یہ ہے کہ امریکی بیورو کریٹ اور کابینہ کی اراکین، دفاع اور خارجہ امور کے سلسلے میں کتنی باخبر اور صاحبِ علم ہیں اور دوسرے یہ لوگ اپنے ملک کو دنیا کی واحد سپرپاور بنانے کے سلسلے میں کیا شاندار کردار ادا کر رہے ہیں۔۔۔ میں پہلے قارئین کی خدمت میں مسز ایلس ویلز کے بیان کے وہ حصے پیش کرنا چاہتا ہوں جو پاکستان کے لئے حد درجہ اہم ہیں بلکہ ہم پاکستانیوں کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہیں۔۔۔ مسز ویلز (Wells) کانگریس کو بتا رہی تھیں:
’’گزشتہ 10برسوں میں امریکہ سے انڈیا کو فروخت کئے جانے والے عسکری سازوسامان کا حجم زیرو ڈالر سے بڑھ کر 15ارب ڈالر ہو چکا ہے۔ (یعنی 1500 کروڑ ڈالر)۔۔۔ انڈیا، آنے والے سات برسوں میں اپنے دفاع کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لئے 30ارب ڈالر خرچ کرنے کا پروگرام بنا چکا ہے اور ہم اس رقم کا ایک بڑا حصہ اپنے لئے مختص کرنا چاہتے ہیں۔۔۔‘‘
’’ان 30ارب ڈالروں میں سے 10ارب ڈالر وہ ہوں گے جو ہمیں انڈیا کو نیو کلیئر ساز وسامان / مواد فروخت کرنے سے حاصل ہوں گے۔ اس سودے میں ہم امریکیوں کو 15ہزار جاب (نوکریاں) بھی حاصل ہوں گے۔ یعنی ہماری آبادی کے 15000 افراد کو روزگار فراہم ہو گا۔ ہم انڈیا کی خوشحالی کو سپورٹ کرنے میں ایک بڑا رول ادا کرنا چاہتے ہیں۔ چین اور انڈیا دنیا کی دو ابھرتی ہوئی طاقتیں ہیں لیکن ہمارے لئے بالخصوص انڈیا کے ساتھ روابط اہم ہیں۔ یہ روابط اس لئے اہم ہیں کہ ہم دونوں ممالک کی بنیادیں، جمہوری اقدار پر استوار ہیں اور یہ اقدار نہائت قریبی سیاسی اور اقتصادی روابط کے ساتھ وابستہ ہیں‘‘۔
’’ذرا ہمارے باہمی عسکری روابط پر بھی نگاہ ڈالئے۔۔۔ ہم آج کل انڈیا اور جاپان کے ساتھ سب سے مل کر بڑے پیمانے پر فوجی مشقیں کر رہے ہیں جن میں ہمارے 10ہزار فوجی اور بڑے بڑے دیوہیکل طیارہ بردار بحری جنگی جہاز شامل ہیں۔۔۔ جب اسی برس جون میں مسٹر مودی نے واشنگٹن کا دورہ کیا تھا اور صدر ٹرمپ سے ملاقات کی تھی تو صدر نے مودی کو ایک ایسی پیشکش کی تھی جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔۔۔ صدر ٹرمپ نے انڈیا کو ’’گارڈین ائر کرافٹ سسٹم‘‘ فروخت کرنے کا اعلان کیا تھا۔ یہ ایسے طیارے ہیں جن میں کوئی پائلٹ نہیں ہوتا اور ان میں سمندروں کی سطح پر رواں بحری ٹریفک کی ریکی کرنے والے ریڈار نصب ہوتے ہیں جن کا مواصلاتی رابطہ ساحلی ہیڈکوارٹر سے ہوتا ہے۔ اس اسلحہ کی پیشکش امریکی دفاعی پالیسی میں ایک بہت بڑی تبدیلی تھی کیونکہ امریکہ نے اب تک اس سسٹم کو اپنے چند قریب ترین دوست ممالک ہی کو فروخت کیا ہے۔ ہم اب انڈیا۔ امریکہ روابط کو مزید سیمنٹ کرنا چاہتے ہیں
۔
ہماری بوئنگ اور لاک ہیڈ طیارہ ساز کمپنیاں پہلے ہی انڈیا کو ایف۔18 اور ایف۔16 طیاروں کی فروخت کی پیشکش کر چکی ہیں۔اگر انڈیا یہ طیارے خریدے گا تو مستقبل میں انڈیا کو امریکی فضائیہ کے ساتھ مل کر آپریشن کرنے میں کافی تکنیکی سہولیات بھی میسر آئیں گی‘‘۔
قارئین کرام! یہاں پہنچ کر مسز ویلز نے پہلے سے لکھے ہوئے بیان سے نگاہیں اٹھائیں اور کانگریس کو بتایا کہ امریکی حکام کو معلوم ہوا ہے کہ انڈیا 2030ء تک اپنا 70 فیصد دفاعی انفراسٹرکچر تبدیل کرنے جارہاہے۔ یہ صورتِ حال امریکی اسلحہ ساز کمپنیوں اور کارخانوں کے لئے ایک سنہری موقع ہوگا کہ وہ انڈیا کے اس توسیعی دفاعی پروگرام سے فائدہ اٹھائیں۔ ہمارے ان اداروں کو قبل ازیں اس قسم کے مواقع سے فائدہ اٹھانے کا ایک وسیع تجربہ حاصل ہے۔۔۔ انہوں نے مزید کہا کہ صرف ہماری بوئنگ طیارہ ساز کمپنی آنے والے 20 برسوں میں 2000کمرشل طیارے بنانے اور ان کو فروخت کرنے کا پروگرام رکھتی ہے۔ اور انڈیا ان طیاروں کا سب سے بڑا خریدار ہوگا۔ جون 2017ء کے اسی دورے میں مسٹر مودی نے ان طیاروں کی جس خریداری کا اعلان کیا تھا اس کی مالیت 23 ارب ڈالر تھی۔
اس کے بعد مسز ویلز نے دوبارہ تحریر شدہ بیان پڑھنا شروع کیا اور فرمایا : ’’مستقبل میں یہ کمرشل اور فوجی طیارے دونوں ملکوں میں ہماری ایکسپورٹ کے کلیدی سیکٹر ہوں گے۔۔۔ اس خطے (جنوبی ایشیا) میں امریکی کاروبار کے 50کروڑ خریداروں کی گنجائش ہے جو امریکہ سے مختلف طرح کا عسکری اور سویلین سازو سامان خرید سکیں گے۔ 2014ء میں امریکہ، جنوبی ایشیاء کا سرکاری سیکٹر میں سب سے بڑا برآمد کنندہ تھا۔ ہم نے اس خطے کو 22ارب ڈالر کا سامان فروخت کیا تھا۔۔۔ انڈیا ہمارا اس خطے میں اہم ترین پارٹنر بھی ہے اور ایک ایسا ملک ہے جس کی سیاسی اور اقتصادی قوت اور ساکھ بڑھ رہی ہے اور یہ صورتِ حال ہم امریکیوں کے لئے انتہائی سازگار اور باعثِ مسرت ہے‘‘۔
قارئین محترم! جب میں نے یہ خبر پڑھی تو امریکہ کی عیاری اور انڈیا کی سادہ لوحی بلکہ بے وقوفی پر تادیر دل ہی دل میں مسکراتا اور خوش ہوتا رہا۔۔۔ اس ’’مسکراہٹ‘‘ کی کئی وجوہات تھیں۔اول تو یہ کہ انڈیا کا حال اپنے اس سردار جی کا سا ہے جس نے 100جوتے بھی کھائے اور 100 پیاز بھی۔۔۔ پہلے تو 1991ء تک (سقوط سوویت یونین تک) یہی انڈیا تھا جو سوویت یونین کا سب سے بڑا اسلحہ خریدار تھا۔ اسی لئے انڈیا کا 70 فیصد عسکری انفراسٹرکچر رشین ہے جس کو اب انڈیا تبدیل کرنا چاہتا ہے اور جس کا حوالہ مسز ویلز (Wells) دے رہی ہے۔ دوسرے لفظوں میں 1947ء سے لے کر 2000ء تک کی نصف صدی میں انڈیا نے سوویت بلاک میں شرکت کرکے اپنا دفاعی سازوسامان روس سے خریدا اور اب اگلے 50برسوں میں وہ رشین انفراسٹرکچر تبدیل کیا جائے گا اور اس کی جگہ امریکی انفراسٹرکچر آ جائے گا۔۔۔ جس کا مستقبل اگلی نصف صدی میں جانے کیا ہو!۔۔۔
دوسرا سببِ مسکراہٹ یہ تھا کہ مودی نے اقتدار میں آنے کے بعد اعلان کیا تھا کہ : ’’ہم سب برآمدات Make in India کے قومی سلوگن کے ساتھ منسلک کریں گے‘‘۔۔۔ اس سلوگن کا بڑا چرچا کیا گیا۔ امریکی، فرانسیسی، برطانوی اور ڈچ دفاعی اداروں کو کہا گیا کہ جو سامان (Equipment)بھی بنانا ہے اسے انڈیا میں بناؤ تاکہ ہماری کاریگر ’’جنتا‘‘ بھی اسلحہ سازی کا فن سیکھ سکے۔ لیکن بہت جلد انڈیا اور مودی کو معلوم ہواکہ یہ فن ایسا سہل اور آسان نہیں۔ انڈیا کا پورا DRDO مل کر بھی اب تک انڈیا کا کوئی مین بیٹل ٹینک (MBT) نہیں بنا سکا اور نہ ہی کوئی چھوٹا موٹا طیارہ ہی بنا سکا ہے۔
بڑی مشکل سے اس نے ’’تیجا‘‘ نام کا ایک چھوٹا طیارہ بنایا۔ لیکن انڈین آرمی نے اپنے خانہ ساز ارجن بیٹل ٹینک کو اور انڈین ائر فورس نے تیجا ائر کرافٹ کو اپنی اپنی سروس میں انڈکٹ کرنے سے انکار کر دیا اور اس طرح ناچارمودی کو واشنگٹن جا کر Make in India کے سلوگن کو بھول جاناپڑا۔۔۔۔ کوئی بھارتیوں سے یہ پوچھے کہ کیا امریکی اپنے F-16،F-18 یا گارڈین ائر کرافٹ سسٹم وغیرہ کی انڈسٹری انڈیا منتقل کرکے خود اپنے ہاتھ کٹوا بیٹھیں گے؟
تیسرا سببِ مسکراہٹ یہ تھا کہ امریکہ تو اپنی دفاعی ٹیکنالوجی اور دفاعی مصنوعات کو اس غرض سے انڈیا کو فروخت کر رہا ہے کہ اس کی بے روزگار افرادی قوت کو روزگار میسر آئے اور اس کے اسلحہ ساز کارخانے چلتے رہیں، اس کی وار ٹیکنالوجی ریفائن ہوتی رہے، اس کے ایف۔16وغیرہ بکتے رہیں اور ان اربوں ڈالروں سے اس کا آئندہ کا دفاعی ریسرچ اینڈ ڈویلپ منٹ سیکٹر بھی فروغ پاتا رہے۔۔۔
لیکن مودی جی ہیں کہ ان کو یہ معلوم ہی نہیں کہ جنگ عظیم دوم کے بعد امریکہ کی تینوں سروسز نے فیصلہ کیا تھاکہ اس کا سٹیٹ آف دی آرٹ عسکری سازوسامان ہر پانچ سال بعد تبدیل ہو جایا کرے گا۔۔۔ امریکی افواج اس فیصلے پر آج تک بڑی سختی سے کاربند ہیں۔ یہ ایک وسیع موضوع ہے۔ امریکی فضائیہ کے ائر چیف نے نومبر1945ء میں ایک خفیہ رپورٹ (سٹڈی) مرتب کرکے وزارتِ دفاع کو دی تھی جس میں اس موضوع پر سیر حاصل بحث کی گئی تھی اور بتایا گیا تھا کہ امریکہ نے اگر دنیا کی سپرپاور بنے رہنا ہے تو اسے بتدریج ہر 5سال بعد اپنے ترکش میں نئے اور جدید تر تیروں کااضافہ کرنا پڑے گا۔
قارئین اگر اس موضوع پر زیادہ معلومات لینا چاہیں تو جنرل آرنلڈ (Arnold) کی سوانح حیات پڑھ کر دیکھیں۔ اس دور میں امریکی فضائیہ ہنوز ایک الگ سروس نہیں تھی اس لئے اس کے ائر چیف کو ائر مارشل نہیں بلکہ جنرل کہا جاتا تھا اور آرنلڈ امریکی فضائیہ کا آخری چیف تھا جس کا رینک، امریکن آرمی کا ہم نام تھا!۔۔۔ اور آخری سببِ مسکراہٹ انشاء اللہ آنے والے کل کے کالم میں عرض کروں گا! (جاری ہے)