خوب سے خوب تر
خیبرپختونخوا کے بلدیاتی انتخابات اور اس کے دوران ہونے والی بے قاعدگیوں نے کھلاڑی کو یہ سوچنے پر مجبور ضرور کیا ہو گا کہ جن الزامات کے سہارے پچھلے دو سال سے وہ دھما چوکڑی مچائے ہوئے تھے خود پہ آن پڑی تو سماں وہی تو تھا الیکشن پر اب تک پارلیمانی کارروائی میں نقصان صرف عوام کا ہوا ہے، کیونکہ جو وقت دھرنوں میں ضائع کیا گیا ہے وہ اگر انتخابی اصلاحات پر صرف کیا جاتا تو دھاندلی پکڑ و ‘ مار ڈالو‘ جیسی سستی شہرت کے ڈائیلاگ سے بچا جا سکتا تھا اور معنی خیز قانون سازی سے آنے والے انتخابات کو موثر اور بامعنی بنایا جا سکتا تھا، لیکن ہم تو ہم ہیں اور پتھر چاٹے بغیر مڑنا ہم نے کب سیکھا ہے عمرانی سیاست 16دسمبر 2014ء کے پشاور حملے اور اسکے بعد والے پاکستان پر گہری نظر ڈالنے سے قاصر رہی ہے قومی ایکشن پلان کی کامیابی سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے اور اندرون ملک سیکیورٹی اور نظام کو مضبوط بنائے بغیر غیر ملکی دشمنوں سے نبرد آزما ہونا اتنا آسان نہیں ہے پولیس پر فرائض سے غفلت اور ترقی کے لئے دوسرے صوبے انکا منہ چڑا رہے ہیں ابھی بھی وقت ہے کہ عمران خان اپنی کارکردگی کی بنا پر اگلے انتخابات کی طرف جانے کی ٹھانیں اور بلدیاتی انتخابات تک اصلاحات پارلیمان کے ذریعے پایہ تکمیل تک پہنچائیں جمہوریت میں حکمران جماعت کی طرح حزب اختلاف کا بھی ایک مثبت کردار ہوتا ہے نہ ہی ہمیں شیڈو کیبٹ نظر آئی اور نہ ہی وائٹ پیپرز ‘ نہ ہی الیکشن اصلاحات کا جامع پیکج نظر آیا ہے اور نہ ہی قومی لائحہ عمل ایسے میں لفظی تنقید سے ووٹر کا پیٹ نہیں بھرا جا سکتا، کیونکہ جب وہ لفظوں کے ساتھ کارکردگی کی طرف نظر دوڑاتا ہے تو بانجھ نظر آتا ہے مسلم لیگ(ن) نے دھرنوں کے باوجود جون 2015ء میں اسلام آباد سے پنڈی میٹرو بس جسے پاکستان میٹرو کے نام سے پکارا جائے گا کا افتتاح کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ تنقید اور احتجاجی سیاست پر یقین نہیں رکھتی اور اپنے کام کے ذریعے ہی عوام سے ووٹ کی خواہش مند ہے وزیراعلیٰ پنجاب کی ان تھک جدوجہد اور وزیراعظم نواز شریف کی مدبرانہ سیاست بے نظیر کے ساتھ ہونے والے میثاق جمہوریت کو ساتھ لیکر چل رہی ہے، جس طرح پیپلز پارٹی کے 5سالہ دور میں انتقامی سیاست کا خاتمہ کیا گیا اور کوئی بھی سیاسی قیدی ملکی سیاست کی وجہ سے پابند سلاسل نہیں کیا گیا۔
نواز شریف بھی تمام تر ترغیبات اور دوسروں کی خواہشت کے باوجود مفاہمت کی سیاسی فضا کو آلودہ کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان اقتصادی ترقی کرتا جائے اور جوں جوں ترقی کی رفتار تیز ہو ہم اندرونی معاملات میں پائی جانے والی بے چینی دور کرتے جائیں خوشحال پاکستان ناراض دوستوں کو گلے لگائے اور ترقی کرتا پاکستان روشن خیالی کی طرف پیش قدمی کرے اور انتہا پسندی اور انتہا پسندانہ سوچ کو مسترد کر دے جب قوم کے معمار اور نوجوان روزگار کے مواقع حاصل کریں گے تو وہ پاکستان کی تعمیر وترقی میں اپنا بہترین کردار ادا کر سکیں گے، فارغ اور بیروزگار نوجوان بلکہ گریجویٹ کو لیکچر تو دیے جا سکتے ہیں، لیکن دو وقت کی روٹی نہیں اور یہی اصل حاصل وصول ہے کہ جب پڑھا لکھا نوجوان ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کرے گا وہی اصل جیت ہو گی اور تمام باغیانہ اور انتہاپسندانہ خیالات اس کے کام کی وجہ سے مسترد ہو جائیں گے اقتصادی طور پر ابھرتا پاکستان ایک امید کی کرن ہے معاشی طور پر مضبوط پاکستان ہی ایک آزادانہ خارجہ پالیسی کا خواب دکھا سکتا ہے پاک چائنہ کا ریڈور ہو یا گوادر کی بندرگاہ توانائی کے بحران سے نبرد آزما ہونا ہو یا دہشت گردی کے عفریت پر کاٹھی ڈالنا ہو یہ تمام اہداف اس وقت تک ناممکن ہیں، جب تک ملکی لیڈر شپ ایک صفحے پر موجود نہ ہو گلگت بلتستان کے انتخابات میں شکست تسلیم کرنے کی روایت بدلتے پاکستان کی طرف ایک پیش قدمی ہو گی، لیکن ابھی مفاہمت کی فضا کو قومی اتفاق رائے میں بدلنے کے لئے مزید بامقصد بامعنی اور نتیجہ خیز اقدامات کی ضرورت ہے جمہوریت ایک تحفہ ہے، جس کی وجہ سے ہی پاکستان معرض وجود میں آیا اور اس کی حفاظت بھی باہمی احترام اور جمہوریت اور اس کی اساس سے محبت اس کے بچاؤکے لئے بہت ضروری ہے جمہوریت کی حفاظت ‘ جمہوری رویوں میں پائیداری اور انہیں شفاف بنانے میں پنہاں ہے اگر کہیں طریقہ کار شفاف نہیں ہے تو اسے شفاف بنایا جائے کمزور اداروں کو مزید مضبوط کیا جائے اور قانون سازی پر توجہ دینا پارلیمان میں بیٹھی جماعتوں کی آئینی ذمہ داری ہے جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ 24ماہ میں بامقصد قانون ساز ی نہ ہونا شفاف الیکشن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور اس کی ذمہ داری سیاست دانوں پر اور نقصان کا وزن عوام پر گرتا ہے۔
نواز شریف نے کھلاڑی کی طرح 20/20کی بجائے ٹیسٹ میچ کھیلنے کو ترجیح دی ہے۔ انہوں نے نہ صرف چین سے اقتصادی معاہدے کے لئے سر توڑ کوشش کی ہے، بلکہ 46بلین ڈالر کے معاہدات کے ذریعے گوادر اور پاک چین راہداری کے منصوبے کو تکمیل کے مراحل کی طرف موڑ دیا ہے دشمن پاکستان اس معاہدے سے اتنا نالاں ہے کہ وہ 1971ء کی تصویر دکھا کر دل بہلا رہا ہے اور شریکوں کے ساتھ محرومیوں پر نوحہ کناں ہے پاکستان میں ہونے والے ضمنی انتخابات اور ملتان، ننکانہ اور منڈی بہاؤ الدین میں حکمران جماعت کی جیت ،گلگت بلتستان میں ان کی بنتی نظر آتی حکومت ووٹر کے بدلتے رجحان کی عکاسی ہے پاکستان صیح معنوں میں بدل رہا ہے اور تبدیلی آ نہیں رہی تبدیلی واقعتا آ گئی ہے۔ تحریک انصاف کو اپنی کارکردگی پر الیکٹوریٹ کے پاس جانا ہے اور کارکردگی بلدیاتی انتخابات کے انعقاد اور اس پر اٹھنے والی انگلیوں سے عیاں ہے کجا کہ خیبرپختونخوا ایک رول ماڈل صوبہ بنتا اور وہاں آکسفورڈ سے پڑھے لکھے لیڈر کی جھلک نظر آتی اور مساوی سلوک اور بہترین نظم ونسق پر معاملے میں روز روشن کی طرح واضح ہوتا وہاں کرپشن کے الزامات صوبے کی لیڈر شپ اور ان کے رشتہ داروں پر لگ رہے ہیں ۔