مردم شماری: انقلابی قدم
اللہ اللہ کر کے یہ دن بھی آیا کہ ملک میں مردم شماری کا آغاز ہونے جا رہا ہے۔ اس کا اصل کریڈٹ تو سپریم کورٹ کو جاتا ہے، جس نے بار بار حکم دے کر اربابِ اختیار کو مجبور کر دیا کہ وہ یہ کام شروع کریں۔ فوج نے اس کے لئے اپنی مکمل سپورٹ فراہم کر دی ہے اور 2 لاکھ فوجی جوان اس مردم شماری مہم میں عملے کی حفاظت اور شفافیت کو یقینی بنائیں گے۔ جو ہمارا بنیادی کام ہونا چاہئے تھا، ہم سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے اسے ٹالتے رہے۔ پچھلی مردم شماری سے لے کر آج تک نجانے کتنی تبدیلیاں آ چکی ہیں، مگر ہم انہی پرانے اعداد و شمار کے تحت انتخابات کراتے رہے، منصوبے بناتے رہے اور ایف ایف سی ایوارڈز کے تحت فنڈز تقسیم کرتے رہے،یعنی سب کچھ جعلی اور سب کچھ مفروضوں پر مبنی۔ ایسے میں نہ تو اسمبلیوں میں حقیقی نمائندگی ہو سکتی ہے اور نہ ہی قومی آمدنی میں سے سب کو ان کی آبادی کے مطابق حصہ مل سکتا ہے۔ حیرت ہے کہ ہمارے سیاسی رہنما ان مسائل پر بھی سیاست چمکانے سے باز نہیں آتے۔
شاید وہ اس بات سے خوفزدہ رہتے ہیں کہ اصل آبادی سامنے آ گئی یا آبادی میں رنگ و نسل کے تناسب میں تبدیلی کے اعداد و شمار کھل گئے تو ان کی اجارہ داریا ں اور چودھراہٹ کا بھی خاتمہ ہو جائے گا۔ صاف ظاہر ہے کہ مردم شماری کے بعد نئی حلقہ بندیاں ہوں گی نئے لسانی و نسلی علاقے سامنے آئیں گے۔ پاکستان میں بسنے والوں کی حقیقی تصویر ابھرے گی، جس کے مطابق نمائندگی کا گراف بھی اوپر نیچے ہوگا۔ ایک نیا عمرانیہ، جس کی بہت عرصے سے ضرورت محسوس کی جا رہی تھی، اب شاید لکھا جا سکے، کیونکہ وفاق کی کمزوریاں کھل کر سامنے آ رہی ہیں اور چاروں اکائیوں میں سوائے سینٹ میں یکساں نشستوں کے اور کچھ بھی برابر نہیں ہے۔
مردم شماری کو شفاف بنانا ایک بنیادی ضرورت ہے، کیونکہ اگر اس پر اعتبار نہ ہو تو ہر چیز متنازعہ ہو جائے گی۔ بڑی اچھی بات ہے کہ فوج کو اس عمل میں ایک بنیادی اسٹیک ہولڈر کے طور پر شامل کر لیا گیا ہے۔ وزیر مملکت برائے اطلاعات مریم اورنگ زیب اور آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے اس حوالے سے جو مشترکہ پریس کانفرنس کی، وہ سب کیلئے ایک بڑا پیغام تھی کہ اس مردم شماری میں سول و فوجی قیادت متحد ہو کر کام کریں گی اور کسی کو اس کی شفافیت پر شک و شبہ نہیں ہونا چاہئے۔ اس بارے میں جو تفصیلات بیان کی گئی ہیں، ان کے مطابق مردم شماری کے لئے عملہ ملک کے ہر گھر میں جائے گا۔ ہر ٹیم کے ساتھ فوجی جوان ہوں گے، جو اعداد و شمار لکھوائے جائیں گے ان کی دیگر دستیاب ذرائع سے بھی تصدیق کی جائے گی۔۔۔ مثلاً شناختی کارڈ اور ب فارم وغیرہ سے۔۔۔ غلط اعداد و شمار دینے کی صورت میں قید و جرمانے کی سزائیں بھی رکھی گئی ہیں گویا ایک طرح سے اس امر کو یقینی بنایا گیا ہے کہ مردم شماری حتی الامکان غیر جانبدارانہ اور حقیقت پر مبنی ہو۔ اس میں یقیناً بہت سے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پاکستان چونکہ کثیر القومیتی اور کثیر اللسانی ملک ہے، اس لئے کچھ قوتیں یہ چاہتی ہیں کہ وہ مختلف علاقوں میں اپنی تعداد کو بڑھا چڑھا کر ظاہر کریں۔ پچھلی دو اڑھائی دہائیوں میں آبادی کا بہت زیادہ تبادلہ ہوا ہے۔ دیہی علاقوں سے شہری علاقوں کی طرف آبادی کی منتقلی کا رجحان نمایاں ہے، پھر ایک صوبے سے دوسرے صوبے میں آباد ہونے والوں کی شرح بھی بہت زیادہ رہی ہے۔۔۔ مثلاً کراچی کے بارے میں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا کہ وہاں مہاجروں، پنجابیوں، بلوچوں اور پشتونوں کا تناسب کیا ہے؟ ایک شفاف مردم شماری ہی اس حقیقت کو سامنے لا سکتی ہے۔ ایک بڑا چیلنج یہ ہوگا کہ ایک شخص ایک فرد کے فارمولے کو یقینی بنایا جائے۔ جو شخص ہجرت کر کے شہر میں منتقل ہو چکا ہے، مگر اس کا آبائی گھر آج بھی دیہات یا اس صوبے میں ہے، جہاں سے اس نے ہجرت کی اور وہ دونوں جگہ اپنی موجودگی پر اصرار کرتا ہے تو یہ بات الجھاؤ کا باعث بنے گی۔ یقیناً اس کے لئے لائحہ عمل بنایا گیا ہوگا اور اس مقصد کے لئے نادرا سے بھی مدد لینے کی حکمت عملی تیار کی گئی ہو گی۔
پاکستان میں مخلوط آبادی ہر جگہ موجود ہے۔ کوئی صوبہ بھی ایسا نہیں جہاں مختلف قومتیوں، زبانوں اور تہذیبوں سے تعلق رکھنے والے موجود نہ ہوں۔ یہی بات ہماری خوبصورتی اور وفاق کی یکجہتی کا باعث بنتی ہے، لیکن مسائل تب کھڑے ہوتے ہیں، جب کوئی اپنے حق سے زیادہ مانگنے کی کوشش کرتا ہے۔ آئین میں ہر چیز واضح ہے، مگر مستند اعداد و شمار نہ ہونے کی و جہ سے کئی ابہام پیدا ہوتے ہیں۔ کئی جگہوں پر ان خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ مختلف ہتھکنڈے استعمال کر کے کسی علاقے کی آبادی کو نسل و لسانی حوالے سے کم یا زیادہ ثابت کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ ادھر جنوبی پنجاب میں قوم پرست جماعتیں یہ واویلا کر رہی ہیں کہ اگر مردم شماری کے خانے میں ان کی سرائیکی زبان کو بغیر کسی دباؤ کے لکھنے کی آزادی نہ دی گئی تو وہ اس مردم شماری کو نہیں مانیں گی۔ سیاسی حوالے سے یہ مسئلہ جنوبی پنجاب میں شاید اس لئے بھی زیادہ حساس ہے کہ یہاں الگ صوبے کی تحریک چل رہی ہے اور قوم پرستوں کا مطالبہ ہے کہ صوبے کا نام سرائیکستان ہونا چاہئے،جبکہ لسانی شناخت کے حوالے سے صوبے کی تشکیل کے مخالفین اس مطالبے کو رد کرتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ گزشتہ نصف صدی کے عرصے میں جنوبی پنجاب ایک کثیر اللسانی خطہ بن چکا ہے۔ جہاں پنجابی، اردو، ہریانوی اور سرائیکی بولنے والوں کی تعداد تقریباً برابر ہے، اس لئے لسانی شناخت کے حوالے سے اگر صوبہ بنایا گیا تو انتشار پھیلے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اب سرائیکی قوم پرست تنظیمیں یہ مہم چلائے ہوئے ہیں کہ مادری زبان کے خانے میں زیادہ سے زیادہ سرائیکی لکھوایا جائے تاکہ ان کے مطالبے کو تقویت مل سکے۔ اس صورت حال میں دباؤ اور دھونس دھاندلی کے عنصر کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس لئے ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا ہوگا۔
جنوبی پنجاب کے لئے یہ مردم شماری اس لئے بھی بہت اہم ہے کہ ہمیشہ یہ شکوہ کیا جاتا رہا ہے کہ پنجاب میں آبادی کے تناسب سے اس علاقے کو صوبائی بجٹ میں سے حصہ نہیں دیا جاتا۔ ایف ایف سی ایوارڈ صوبائی سطح پر تقسیم ہوتا ہے، ایسا کوئی طریقہ موجود نہیں کہ صوبے کے اندر بھی اسے این ایف سی فارمولے کے مطابق تقسیم کیا جائے۔ اس حوالے سے اپر پنجاب اور زیریں پنجاب کے درمیان ایک واضح تفاوت کی نشاندہی ہمیشہ کی جاتی رہی ہے۔ اس مردم شماری کی وجہ سے یہ عقدہ بھی حل ہو سکے گا کہ جنوبی پنجاب کے تین ڈویژن ملتان، بہاولپور اور ڈیرہ غازیخان کتنی آبادی کے مالک ہیں اور صوبے کو ملنے والے این ایف سی ایوارڈز کے تحت حصے میں سے اس آبادی پر کتنا بجٹ صرف کیا جاتا ہے؟ یہاں کے مبصرین کا دعویٰ ہے کہ جنوبی پنجاب کی آبادی اپر پنجاب سے زیادہ ہے، مگر بجٹ میں تقریباً ستر فیصد حصہ اپر پنجاب کے لئے رکھا جاتا ہے اور صرف 30 فیصد جنوبی پنجاب پر صرف ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس علاقے میں پسماندگی کا تناسب اپر پنجاب کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ موجودہ مردم شماری سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔
آبادی کے حوالے سے تمام حقائق سامنے آ جائیں گے اور پھر یہ مطالبہ بھی زور پکڑے گا کہ جنوبی پنجاب کو اس کی آبادی کے مطابق فنڈز فراہم کئے جائیں۔
مردم شماری کے بغیر کوئی ملک ترقی نہیں کر سکتا، کیونکہ اگر اس حوالے سے مستند اعداد و شمار موجود نہیں تو کوئی بھی منصوبہ بندی بیکار ثابت ہو گی۔ آج شہر کہاں سے کہاں تک پھیل گئے ہیں، مگر اُن کی ترقیاتی سکیمیں اندھیرے میں رہ کر بنائی جاتی ہیں۔ مردم شماری نہ صرف سیاسی حوالے سے وفاق کو مضبوط کرے گی،بلکہ ترقیاتی منصوبوں کے لئے بھی بہتر فیصلے کئے جا سکیں گے، جس سے ترقی یافتہ اور پسماندہ علاقوں میں موجود تفاوت کو کم کیا جا سکے گا۔ اُمید کی جانی چاہئے کہ اس عمل کو بڑے احسن طریقے سے سر نجام دینے کے لئے تمام سیاسی جماعتیں، ادارے اور خود عوام اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے۔ یہ ایک انقلابی کام ہے، جس کی تکمیل سے پاکستان واقعتاً ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہو جائے گا۔