ڈرٹی بم، داعش اور پاکستان

ڈرٹی بم، داعش اور پاکستان
 ڈرٹی بم، داعش اور پاکستان

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

دو تین روز پہلے ایک دو ماہی (بائی منتھلی) میگزین ’’کاؤنٹر پنچ‘‘ (Counterpunch) میں شائع ہونے والے ایک مضمون ’’ڈرٹی بم اور داعش‘‘ پر کرنل برائن کلاؤلی (Brian Claughly)نے جو تبصرہ کیا ہوا تھا وہ میرے لئے نہ صرف حیرت انگیز تھا بلکہ بعض حوالوں سے لرزہ خیز بھی تھا۔۔۔۔ پہلے درجِ بالا فقرے میں بعض الفاظ کی تصریح کردوں تو بہتر ہوگا۔


کاؤنٹر پنچ انگریزی زبان میں شائع ہونے والا ایک میگزین ہے جو ہر دو ماہ بعد نیویارک اور لندن وغیرہ سے شائع ہوتا ہے۔ اس میں بین الاقوامی سیاسیات اور سٹرٹیجک جیوملٹری موضوعات پر دنیا بھر کے معروف کالم نگاروں کے مضامین شائع ہوتے ہیں۔ ان میں درجن بھر سے زیادہ پاکستانی کالم نویس بھی شامل ہیں۔ ان لکھاریوں کے خیالات اور تبصروں سے آگاہی پانا ایک ٹریٹ سے کم نہیں۔


کرنل برائن کلاؤلی کو مغرب کا پاکستان دوست صحافی سمجھا جاتا ہے۔ وہ برٹش اور آسٹریلوی افواج (Armies) میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔ انہوں نے جرمنی، مشرق وسطیٰ، برصغیر پاک و ہند اور مشرق بعید میں عسکری ملازمت کے مراحل طے کئے اور دادِ شجاعت دی۔ بورنیو (انڈونیشیا) اور ویت نام کی جنگو ں میں حصہ لیا اور 1986ء میں آسٹریلین آرمی میں ان کو تمغہ ء جرات کے اعزاز سے نوازا گیا۔ 1980ء سے 1982ء تک کشمیرمیں اقوام متحدہ کے مشن میں بطور آبزرور تعینات رہے، اس لئے لائن آف کنٹرول کے چپے چپے سے واقف ہیں۔ پانچ برس تک (1989ء تا 1994ء) پاکستان میں آسٹریلیا کے ڈیفنس اتاشی رہے۔

اسی عرصے میں انہیں پاکستان اور افواج پاکستان کے گہرے اور وسیع مطالعے کا موقع ملا اور انہوں نے بعدازریٹائرمنٹ پاکستان اور پاکستانی افواج پر نہائت معلوماتی مضامین لکھے۔ ’’انٹرنیشنل ڈیفنس ریویو‘‘ اور ’’ایشیا پیسیفک ڈیفنس رپورٹر‘‘ جیسے عالمی شہرت یافتہ میگزینوں میں ان کے کالم اور آرٹیکل شائع ہوتے رہے۔ انہیں ایام میں مجھے بھی GHQ میں ان کو ایک اجلاس میں سننے کا موقع ملا۔بڑے اچھے مقرر بھی ہیں۔


ریٹائرمنٹ کے بعد 1999ء میں انہوں نے پاکستان آرمی پر ایک مختصر لیکن نہایت متوازن اور گرانقدر تاریخ قلمبند کی جسے آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے شائع کیا۔ اس کتاب کا عنوان: ’’اے ہسٹری آف دی پاکستان آرمی۔۔۔ جنگیں اور آویزشیں‘‘ ہے۔ اس کتاب کے 384صفحات اور 13ابواب ہیں۔ کرنل کلاؤلی نے ان ابواب میں گویا دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہے۔ ان ابواب کے عنوانات سے قارئین کو اندازہ ہو سکے گا کہ انہوں نے کس نئے طریقے اور اچھوتے پہلوؤں سے پاک آرمی کی تاریخ پر نظر ڈالی ہے:
(1) شروعات
(2) ایوب خان۔ ایڈجوٹننٹ جنرل سے پریذیڈنٹ تک
(3) جنگ کی تیاریاں
(4) 1965ء کی جنگ کا اولیں مرحلہ۔۔۔ کشمیر
(5) ستمبر1965ء کی پاک بھارت جنگ
(6) ایوب خان کے آخری ایام
(7) یحییٰ خان اور 1971ء کی جنگ کا ناگزیر ہونا
(8) خانہ جنگی اور انڈین حملہ
(9) مغربی پاکستان میں جنگ اور یحییٰ کا زوال
(10) ذوالفقار علی بھٹو
(11) ضیاء کا دور
(12) ایک بار پھر جمہوریت
(13) ایک نئی اور جدید آرمی۔
ان ابواب کے عنوانات دیکھ کر آپ کو اندازہ ہو گیا ہوگا کہ کلاؤلی کی اپروچ گھسی پٹی تاریخ نویسی کی روایات سے ہٹ کر ہے۔ میں نے پاکستان آرمی پر آج تک پاکستانی اور غیر ملکی مصنفین کی جتنی بھی تواریخ پڑھی ہیں ان میں کلاؤلی کی یہ تاریخ نہ صرف مختصر، آسان اور جامع ہے بلکہ اس نے جنگوں اور لڑائیوں پر جو تجزیاتی تبصرے کئے ہیں ان میں بے مثال عسکری اختصار اور جامعیت کا ثبوت دیا ہے۔ بلاشبہ ان تبصروں کو بیک وقت مجمل اور مفصل کہاجا سکتا ہے۔ جگہ جگہ نقشوں سے مختلف محاذوں کی وضاحت کی گئی ہے اور آخر میں اُن عسکری اصطلاحات کی تشریح و توضیح بھی شامل کر دی ہے جو کسی بھی سویلین قاری کو دورانِ مطالعہ کسی مشکل میں ڈال سکتی تھیں۔ اس کتاب کا دیباچہ پاک آرمی کے ایک سابق آرمی چیف، جنرل عبدالوحید کاکڑ کے قلم سے ہے جو بمشکل ایک صفحہ پر مشتمل ہے۔مجھے چونکہ جنرل کاکٹر کے سٹاف میں (جب وہ 16ڈویژن کے GOCتھے) دو برس تک کام کرنے کا موقع ملا اس لئے مجھے اچھی طرح معلوم ہوا کہ ان کی تحریر میں اختصار اور جامعیت (Brevity and comprehensiveness) کا معیار کیا تھا۔ جنرل صاحب نے اس پیش لفظ کے آخر میں جو پیراگراف لکھا ہے اس کا ترجمہ دیکھئے اور خود فیصلہ کیجئے کہ انہوں نے کس غیر جانبدار پیشہ ورانہ حق گوئی سے کام لیاہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’مجھے ان سے (کرنل کلاؤلی سے) بعض نکات پر اختلاف بھی ہے۔ پاکستانی افسرو ں کی نو آموز اور نو عمر نسل پر ان کے تحفظات شائد زیادہ ہی سخت (Harsh)ہیں کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ ان ینگ افسروں نے ملک کی سرحدوں کے اندر رہ کر اور نیز قیامِ امن کے لئے ملک سے باہر جا کر بھی جو عسکری خدمات انجام دیں، وہ اپنے فرائض کے ساتھ ان کی دلی وابستگی کی دلیلِ محکم ہیں۔ تاہم میں مصنف کو ان کی اس گراں بہا تصنیف پر دادِ تحسین پیش کرتا ہوں‘‘۔


میں نے کئی بار سوچا کہ اگر اس کتاب کا اردو ترجمہ بھی شائع کر دیا جاتا تو یہ اردو جاننے والے قارئین کی بیش بہا خدمت کے مترادف ہوتا۔لیکن اس طرف نہ تو GHQ نے اور نہ کسی اور پبلشر نے توجہ کی۔ یہی وجہ ہے کہ اردو کے طالب علموں کے لئے پاکستان آرمی کی کوئی قابلِ اعتناء ، غیر جانبدارانہ اور مختصر تاریخ پڑھنے کے لئے میسر نہیں۔


کرنل کلاؤلی کے اسی آرٹیکل میں جس کا ذکر میں نے کالم کے شروع کے پیراگراف میں کیا ہے، لفظ ’’ڈرٹی بم‘‘ (Dirty Bomb)بھی وضاحت طلب ہے۔ پڑھنے والا سوچتا ہے کہ یہ ’’گندا بم‘‘ کیا بلا ہے؟ اور یہ سوال بھی اس کے ذہن میں اٹھتا ہے کہ کیا کوئی ’’صاف ستھرا بم‘‘ بھی ہوتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ: جی ہاں بم ’’ڈرٹی‘‘ (Dirty) بھی ہوتے ہیں اور ’’کلین‘‘ (Clean) بھی۔۔۔ کلین بم سے مراد وہ بم ہے جس کے معانی اور اثرات میں کوئی اشتباہ نہ ہو۔ ان کی درجنوں اقسام ہیں لیکن ان کے ناموں کی مناسبت سے ان کی تاثیر میں کوئی ابہام نہیں۔ مثلاً دستی بم ،آتشیں بم ،ایٹم بم، کیمیکل بم، بیالوجیکل بم اور سمارٹ بم وغیرہ۔ یہ سب معانی کے اعتبار سے ’’کلین بم‘‘ کہلاتے ہیں لیکن ’’ڈرٹی بم‘‘ کی اصطلاح ذرا وضاحت طلب ہے۔
ڈرٹی بم وہ بم ہے جو روائتی اور نیو کلیئر بم دونوں کا مرکب کہا جا سکتا ہے۔ اپنے اثرات کے اعتبار سے آپ اسے ’’نیم جوہری بم‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ اس میں روائتی بم کا وہ عنصر بھی موجود ہے جس کو پھٹاؤ یا بلاسٹ کا عنصر کہا جاتا ہے کہ جب اس کا بارود (Explosive) پھٹتا ہے تو اس کا پھیلاؤ دور دور تک جاتا ہے لیکن اس کا اصل عنصر وہ مرکب ہے جو تابکار مادہ یا افزودہ یورینیم کہلاتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ یورینیم کو جب ایک حد تک افزودہ (Enrich) کر دیا جاتا ہے تو اس میں تباہ کاری اور ہلاکت کا وہ اثر پیدا ہو جاتا ہے جو اسے ’’ایٹم بم‘‘ کا نام دینے کا سبب بنتا ہے۔ جب سنٹری فیوج میں سادہ یورینیم کو اتنا زیادہ اور اتنا تیز گھمایا جاتا ہے کہ وہ کرٹیکل (Critical) ہو جاتی ہے اور اس میں مہلک تابکاری کا 100 فیصد زور آ جاتا ہے تو یہ بم گریڈ افزودہ یورینیم کہلاتی ہے۔ لیکن اگر یورینیم کو 100کی بجائے 40،50 فیصد تک افزودہ کر دیا جائے تو اس میں 100 فیصد ہلاکتی عنصر یا اثر پیدا نہیں ہوتا۔ یہ نیم افزودہ یورینیم بہت سے ملکوں کے پاس موجود ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ گزشتہ برس امریکہ سے معاہدہ کرنے سے پہلے ایران نے بھی ایک حد تک یورینیم کی افزودگی کی یہ شرح حاصل کر لی تھی لیکن ابھی مکمل بم سازی (ایٹم بم) کی منزل سے تقریباً دو چار برس دور تھا۔ اسی طرح اور کئی ممالک بھی ہیں جو یورینیم کی کرٹیکل افزودگی میں دن رات کوشاں ہیں لیکن ان کو تاحال کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔


اگر یہ نیم افزودہ یورینیم کسی دہشت گرد کے ہاتھ لگ جائے تو وہ اس سے ’’ڈرٹی بم‘‘ بنا سکتا ہے۔ ایسا بم جب پھٹتا ہے تو انسان ہلاک نہیں ہوتے لیکن ان کے عصبی نظام مفلوج ہو جاتے ہیں۔ ان کے جسم پر آبلے پڑ جاتے ہیں اور ان کو نیم اپاہج یا تین چوتھائی حد تک جسمانی اور ذہنی طور پر معذور کر دیتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ایسا انسان نہ زندہ رہتا ہے اور نہ مرتا ہے۔ کچھ دنوں کے بعد ممکن ہے اس کے اعضاء دوبارہ کام کرنے لگیں اور وہ نارمل زندگی گزارنے کے قابل بھی ہو جائے لیکن (ایک محدود عرصے تک ہی سہی) نیم اپاہج رہنے کی وجہ سے اس کی نفسیات متاثر ہو جاتی ہے اور وہ اعصابی مریض بن جاتا ہے۔


کرنل برائن کلاؤلی نے اپنے آرٹیکل میں لکھا ہے کہ داعش (ISIS) سرتوڑ کوشش کر رہی ہے کہ وہ ’’ڈرٹی بم‘‘ تیار کر لے۔ جہاں تک نیم افزودہ یورینیم کے حصول کا تعلق ہے تو وہ کچھ ایسا مشکل کام نہیں۔ یہ بہت سے ملکوں سے خریدی یا چرائی جا سکتی ہے۔ اصل مشکل اس کو بارودی حصے کے ساتھ منسلک کرکے اس میں شدید تابکاری اثرات پیدا کرنا ہے۔ فی الحال داعش اس میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ لیکن جس دن اسے یہ کامیابی مل گئی وہ دن بنی نوع انسان کے لئے بدقسمت ترین دن ہوگا!۔۔۔


کلاؤلی نے یہ بھی لکھا ہے کہ دہلی اور کراچی دو ایسے شہر ہیں جن میں اگر ایک دو ڈرٹی بم چلا دیئے جائیں تو یہاں کے عوام میں اس قدر سراسیمگی پھیل جائے گی کہ پورے انڈیا اور پورے پاکستان پر اس کے اثرات تباہ کن ہوں گے۔ ایک تو برصغیر کے عوام کی اوسط (Mean) سوجھ بوجھ اور معلومات اس بم کے اثرات کو برداشت کرنے کا وہ حوصلہ نہیں رکھتیں جو یورپ اور امریکہ کی لکھی پڑھی اور ’’باخبر‘‘آبادی کی ہیں اور دوسرے ہمارا میڈیا اجتماعی حواس باختگی پیدا کرنے میں اپنا جواب آپ ہے۔


داعش (ISIS)فی الوقت شام اور عراق میں مار کھا رہی ہے۔ لیکن اس کی اگلی منزل وہاں سے نکل کر افغانستان، پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا اور مشرق بعید کے دوسرے ممالک ہیں۔ ہم اس جنگ کے مظاہر ہر روز دیکھ اور سن رہے ہیں اور اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ داعش اب ایک بین الایشیائی آفت بن چکی ہے۔ یہ اگرچہ ابھی مغرب کا رخ نہیں کر سکی لیکن ایشیا کے ممالک اس کے مرغوب اور آسان ٹارگٹ ہیں۔


ہم دیکھ چکے ہیں کہ پاکستان کو فاٹا میں (بالخصوص شمالی وزیرستان ) ضربِ عضب کی لانچنگ کے دوران کئی ایسی فیکٹریوں کا سراغ ملا تھا جس میں دہشت گردی کا سارا اَلابلا (Paraphernalia) تیار کیا جا رہا تھا۔ مثلاً مختلف اقسام کے بارود، دستی بم، ڈیٹونیٹر، فلیتے، جیکٹیں، سوئچ، تاریں، کیبلیں، ری پرکشن کیپ وغیرہ ۔۔۔ یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ داعش کے پاس بم سازی کے ماہرین کی کمی نہیں۔ جس روز ان ماہرین نے ’’ڈرٹی بم‘‘ اسمبل کر لیا، وہ ان کی فتح کا عظیم ترین اور ہم جیسے معاشروں کی شکست کا بدترین دن ہو گا۔اس کا توڑ کرنے کے لئے پاکستان جیسے ممالک کو دو محاذوں پر کام کرنا ہوگا۔ ایک یہ کہ داعش کے خاتمے کے لئے ہر ممکن طریقہ اختیار کیا جائے اور بین الاقوامی برادری کے ساتھ مل کر اس مصیبت سے چھٹکارا حاصل کرنے کی تمام سبیلیں بروئے کار لائی جائیں۔۔۔اور دوسرے اس کام میں کسی بھی طرح کا تساہل نہ برتا جائے۔

مزید :

کالم -