سوشل میڈیا قوانین
ڈس انفارمیشن، غلیظ پراپیگنڈہ، دہشت گردی اور بے راہ روی، یہ وہ چار ناسور ہیں جو اس وقت سوشل میڈیا کے ذریعے تیزی سے پھیل رہے ہیں۔ پچھلے دنوں پنجاب حکومت کی سب کیبنٹ کمیٹی امن و امان کا انتہائی اہم اجلاس ہوا ۔ اجلاس میں سوشل میڈیا پر فرقہ وارانہ مواد پھیلانے والے 20 افراد کے خلاف کارروائی، جبکہ 50 لنکس بند کرنے کی منظوری دی گئی اوریہ تمام کیسز وفاقی حکومت کو بھجوا دئیے گئے۔ اجلاس میں مزید بتایا گیا کہ سوشل میڈیا کی مکمل طور پر مانیٹرنگ کی جا رہی ہے اور اب تک وفاقی حکومت کو 200 سے زائد کیس بھجوائے جا چکے ہیں،جبکہ اب مزید بیس کیس رپورٹ ہوئے ہیں جو غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔کچھ ایسے لنکس جو کہ پاکستان سے باہر پڑوسی ممالک خاص طور پر بھارت سے استعمال ہو رہے تھے ، وہ پاکستان میں حالات خراب کرنے اور پاکستان کا غلط امیج ظاہر کرنے کے لئے بے بنیاد پراپیگنڈہ کرتے رہتے ہیں، اس لئے انہیں فوری طور پر بلاک کیا جا رہا ہے۔یہ بات بہت خوش آئند ہے کہ وفاقی اور پنجاب حکومتیں اس وقت سوشل میڈیا کے غلط استعمال کو روکنے میں بہت سنجیدہ ہیں اور ایسے اقدامات کر رہی ہیں کہ ڈس انفارمیشن پھیلانے والے عناصر ملک دشمن پراپیگنڈہ نہ کر سکیں۔ اسی طرح مذہبی ، سیاسی یا سماجی منافرت کو ہوا دینے والوں کی سرکوبی بھی کی جا رہی ہے ، خاص طور پر دہشت گرد تنظیموں کی طرف سے سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے استعمال کی سخت نگرانی کی جا رہی ہے۔ سمارٹ فونز کے عام ہونے کی وجہ سے سوشل میڈیا کا استعمال بہت زیادہ ہو گیا ہے اور اس وقت پاکستان میں کروڑوں لوگ سوشل میڈیا کے ذریعے بے شمار لوگوں سے رابطہ میں رہتے ہیں۔ بیشتر سائنسی ایجادات کی طرح سوشل میڈیا کے اچھے اور برے، دونوں پہلو موجود ہیں اور اس بات کا انحصار اس کے صارفین پر ہے کہ وہ اس کا کیا استعمال کرتے ہیں۔پاکستان میں واٹس ایپ اور فیس بک کا استعمال بہت زیادہ ہوتا ہے، جس میں لوگوں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ سماجی نیٹ ورکنگ کریں۔عام مشاہدہ ہے کہ پاکستان میں سوشل میڈیا کا بلا ضرورت اور بے دریغ استعمال ہو رہا ہے جس کی وجہ سے لوگ اپنا قیمتی وقت کام کاج میں دھیان دینے کی بجائے فیس بک ، واٹس ایپ اور ٹویٹر پر روزانہ گھنٹوں کے حساب سے ضائع کرتے ہیں،جو کوئی مثبت مصرف نہیں ہوتا۔
واٹس ایپ اور فیس بک دونوں ہی ڈس انفارمیشن پھیلانے کے لئے بے دریغ استعمال کی جا رہی ہیں۔ پچھلے کچھ سالوں سے دہشت گرد بھی اپنی نیٹ ورکنگ اور نئی بھرتی کے لئے زیادہ تر واٹس ایپ استعمال کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا کا ایک اور غلط استعمال جنسی بے راہ روی پھیلانا بھی بنتا جا رہا ہے، حتیٰ کہ عصمت فروشی کے مکروہ دھندے میں ملوث لوگ بھی اب زیادہ تر واٹس ایپ کا استعمال ہی کر رہے ہیں۔۔۔ اس وقت دنیا کے بیشتر ملکوں میں سوشل میڈیا کی مانیٹرنگ کے سخت قوانین موجود ہیں،جن کی وجہ سے اس کا غلط استعمال کرنا بہت مشکل ہے۔ یورپ اور امریکہ قوانین نہ صرف موجود ہیں، بلکہ ان پر عمل درآمد بھی ہوتا ہے، حتیٰ کہ بھارت میں بھی سوشل میڈیا کے بارے میں قوانین بہت سخت ہیں اور وہاں واٹس ایپ یا فیس بک کے غلط استعمال پر گرفتاریاں ہوتی ہیں ۔پاکستان میں بھی سوشل میڈیا کے قوانین تو موجود ہیں، لیکن ایک تو وہ بہت زیادہ نرم ہیں اور دوسرے ان پر عمل در آمد پر بھی کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی۔ ملک کے صدر اور وزیر اعظم کے خلاف جس طرح کی تضحیک آمیزتصاویر اور ویڈیو کلپس پاکستان میں پھیلائی جاتی ہیں، اس کی نظیر دنیا کے کسی ملک میں نہیں ملتی۔ صدرِ مملکت کا عہدہ وفاق کی علامت ہوتا ہے، لیکن ہمارے یہاں ہر وقت اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے جو کسی بھی مہذب معاشرے کو زیب نہیں دیتا۔ پاکستان تحریک انصاف نے سوشل میڈیا کا استعمال دوسری سیاسی پارٹیوں سے پہلے شروع کیا تھا، لیکن اس کا سوشل میڈیا سیل زیادہ تر تحقیر اور تضحیک پر مبنی مواد بناتا ہے اور اسے فیس بک، ٹویٹر اور واٹس ایپ پر پھیلاتا ہے، لیکن ڈس انفارمیشن اور غلط پراپیگنڈے کی وجہ سے اس کی پذیرائی میں بہت تیزی سے کمی آئی ہے۔ بھارت میں سوشل میڈیا کے قوانین بہت سخت بنا دئیے گئے ہیں۔اب وہاں واٹس ایپ پر کوئی بھی نا زیبا مواد پوسٹ کرنے پر فوری طور پر نہ صرف پوسٹ کرنے والے، بلکہ اس گروپ کے ایڈمنسٹریٹر کے خلاف ایف آئی آر کاٹ کر گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ ہماری پارلیمنٹ کو بھی بھارت کی طرح قانون سازی کرنا ہو گی، نازیبا مواد پوسٹ کرنے والے اور اس گروپ کے ایڈمنسٹریٹر کے خلاف گرفتاری سمیت سخت کارروائی کے قوانین بنانا ہوں گے۔
نازیبا مواد سے مراد جعلی طور پر بنائی گئی تصویریں اور ویڈیوز وغیرہ کے خلاف، غلط اور جھوٹا سیاسی یا مذہبی پراپیگنڈہ، جھوٹی خبریں، فرقہ واریت پر مبنی مواد، مذہبی یا لسانی منافرت پھیلانا وغیرہ شامل ہیں۔ اسی طرح سوشل میڈیا پر ایسے کسی مواد کی اجازت نہیں دی جا سکتی جو ملک میں بد امنی، انارکی یا امن و امان کے مسائل پیدا کرے۔اس کے علاوہ سوشل میڈیا کا ایک غلط استعمال سیاسی افواہ سازی ہے جو ملک کو بے پناہ نقصان پہنچاتی ہے۔ ٹیکنالوجی کا ایک کمال یہ ہے کہ یہ بہت تیزی سے اپ گریڈ ہوتی ہے، اس لئے جب تک قانون سازی ہوتی ہے، ٹیکنالوجی اس سے بہت آگے نکل چکی ہوتی ہے۔ ٹیکنالوجی کے اس تیز رفتار سفر کو پکڑنے کے لئے ضروری ہے کہ پارلیمنٹ میں کی جانے والی قانون سازی کو نہ صرف جلد از جلد پایہ تکمیل تک پہنچایا جانا انتہائی ضروری ہوتا ہے، بلکہ ان قوانین میں بھی اتنی ہی تیزی سے ردو بدل اور ترامیم کرنا ضروری ہوتا ہے جس تیز رفتاری سے آگے بڑھتی ہوئی ٹیکنالوجی کو بے اثر کر سکے۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ بلوچستان، کراچی اور فاٹا سمیت ملک کے مختلف علاقوں میں ہونے والی دہشت گردی میں بھارتی ایجنسیاں ملوث رہی ہیں اور یہ سرحد کے اس پار بیٹھ کر واٹس اپ اور فیس بک کے ذریعے پاکستان میں واقع اپنے اہداف پر سٹرائیک کرتی ہیں۔ ان واٹس گروپوں کے ایڈمنسٹریٹر بھارت یا افغانستان میں موجود ہوتے ہیں اور وہ وہاں سے بیٹھ کر اپنے ایجنٹوں کو اہداف دیتے اور کنٹرول کرتے ہیں۔پاکستانی سیاست میں بہت زیادہ تیزی ہے، ایک تو اگلے سال الیکشن کی وجہ سے تمام پارٹیاں غیر اعلانیہ الیکشن کمپین شروع کر چکی ہیں، دوسرا یہ کہ مختلف ایشوز، مثلاً پاناما لیکس کا مقدمہ یا اب بننے والی جے آئی ٹی، ڈان لیکس اور دوسرے تمام سیاسی سکینڈل جو ان پارٹیوں سے جڑے ہوئے ہیں۔
ان تما م ایشوز اور سکینڈلز میں مخالف پارٹی کو ناک آؤٹ کرنے کی دوڑ لگی رہتی ہے۔سوشل میڈیا پر چلائی جانے والی کمپین میں جھوٹ کا عنصر غالب ہوتا ہے، کس کے پاس اتنا وقت ہے کہ واٹس ایپ یا فیس بک پر آئے مواد کی تصدیق کرتا پھرے۔ اُدھر کوئی چیز موصول ہوئی اور اگلے ہی چند منٹ میں اپنے درجنوں جاننے والوں کو فارورڈ کر دی۔ ایک صاحب نے تجربے کی خاطر کچھ پوسٹیں اپنے پاس سے گھڑیں اور اپنے دوستوں کو فارورڈ کر دیں، دیکھتے ہی دیکھتے وہ سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئیں اور ہزاروں لوگ دھڑادھڑ انہیں آگے بھیجتے رہے۔ اس تجربے سے ثابت ہو گیا کہ افواہ سازی اور اسے پھیلانے اور گھر گھر پہنچانے میں سوشل میڈیا اہم کردار ادا کر رہا ہے۔یہ کہنے میں بھی کوئی عار نہیں کہ سوشل میڈیا پر موجود مواد زیادہ تر جھوٹ ہے اور اسے مختلف پارٹیوں کی سوشل میڈیا ٹیمیں باقاعدہ منظم منصوبہ بندی سے پورے ملک میں پھیلاتی ہیں اور ہم چونکہ افواہوں پر یقین کرتے ہیں،اس لئے موصول مواد کو آگے فارورڈ کرکے اپنا حصہ بقدر جثہ ڈالتے رہتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ ملک میں بے چینی یا انارکی پھیلانے کے لئے ہم خود بھی استعمال ہو رہے ہیں۔ دنیا کے بیشتر ملکوں میں سوشل میڈیا کے سخت قوانین پر عمل درآمد ہوتا ہے، ہم بادشاہ لوگ ہیں، اس لئے ابھی تک ہماری کسی حکومت نے سوشل میڈیا کی سنجیدہ قانون سازی نہیں کی، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر لاکھوں کی تعداد میں ’’دانشور ‘‘ پیدا ہو چکے ہیں، جنہیں نہ صرف ملکی سیاست پر ’’عبور‘‘ حاصل ہے، بلکہ انہیں اپنے ممدوح سیاست دانوں کے ذاتی بیڈ رومز تک ’’رسائی‘‘ بھی حاصل ہے۔ یہ سب مادر پدر آزادی کی طرح ہے اور اگر اسے روکا نہ گیا تو ’’فری فار آل‘‘ ہو جائے گا۔ واٹس ایپ، ٹویٹر اور فیس بک کو ایسی قانون سازی کے دائرے میں لانا ضروری ہے جس سے افواہ سازی نا ممکن ہو جائے اور کھمبیوں کی طرح اگ آنے والے دانشور، تجزیہ کار، ملکی اور بین الاقوامی امور کے ماہرین، عسکری اور اقتصادی مشیر ، جن کی اکثریت واجبی سی تعلیم یافتہ ہی ہوتی ہے، وہ قوم کو اپنی ماہرانہ آراء دینے کی بجائے وہ کام کریں، جو انہیں آتا ہے۔ پچھلے ایک ہفتے کے دوران بھارت میں ایسے کئی واٹس ایپ گروپوں کے ایڈمنسٹریٹروں کو جیل میں ڈالا گیا ہے، جن کے گروپوں میں تضحیک آمیز مواد شیئر ہوا، ایسا مواد شیئر کرنے والے اور واٹس ایپ گروپ چلانے والے کو بھی۔ یہ حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستان میں سوشل میڈیا کو ذمہ داری کے دائرے میں لانے کے قوانین کا نفاذ کرے اور ان پر سختی سے عمل درآمد کرائے۔