خاک اُڑاتے سیاسی مقدمات

خاک اُڑاتے سیاسی مقدمات
 خاک اُڑاتے سیاسی مقدمات

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ویسے تو قانون کی کتابوں میں مقدمات کی دو اقسام ہیں : دیوانی اور فوج داری۔افراد سے افراد کے معاملات مثلاً معاہدے، طلاق اور اس سے متعلقہ مقدمات، جائیداد کے مقدمات ۔غفلت اور کاپی رائٹ کی خلاف ورزی، کاروباری لوگوں یا اداروں کے تنازعات اور شہری زندگی کے کئی سینکڑوں معاملات دیوانی مقدمات کے زمرے میں آتے ہیں، جبکہ افراد کی طرف سے ایسے ریاستی قوانین کی خلاف ورزی جس سے مفاد عامہ کو نقصان پہنچے،مثلاً دنگا فساد،چوری ،ڈکیتی ،زیادتی ،اغوا،قتل وغارت ،ملکی املاک کو نقصان پہنچانا جیسے جرائم فوجداری مقدمات شمار ہوتے ہیں۔

ان اقسام کے خمیر سے تیسری قسم ایسی وجود میں آئی ہے کہ آج کل ملک کی تمام اعلیٰ عدالتیں اسی کے سحر میں گرفتار، بلکہ ’’ بری طرح‘‘ الجھی ہوئی ہیں۔وہ تیسری قسم ہے، سیاسی مقدمات۔


قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی موت سے لے کر بینظیر بھٹو کی شہادت تک، سربراہان مملکت،وزرا اعظم اور معروف سیاسی شخصیات کے قتل، قانون کی رو سے تو فوجداری مقدمات تھے، لیکن چونکہ وہ سیاستدان تھے ، ان کے قتل کے پیچھے زیادہ محرکات بھی سیاسی تھے۔اس لئے عدالتی تاریخ میں انہیں سیاسی مقدمات ہی تصور کیا اور ان کو ’’پروٹوکول‘‘ بھی ایسا ہی دیا گیا۔پہلے منتخب وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خان کو اس وقت کی سیاسی قوتوں نے افغان شہری سید اکبر کے ذریعے راولپنڈی کے اسی کمپنی باغ میں موت کے گھا ٹ اتار دیا جو بعد میں انہی سے موسوم ہو کر لیاقت باغ بن گیا اور اسی لیاقت باغ میں ملک کی مقبول ترین رہنما بینظیر بھٹو کو اتنے بے رحمانہ اور سیاسیانہ طریقے سے ماراگیاکہ بہت سارے ثبوت دھو دیے ،کئی عینی شاہد مار دیئے اور باقی ذمہ داران شامل اقتدار کرلئے گئے۔تاریخی سانحے، مگر کمزور اور بے جان مقد مے کے دس سال بعد آنے والے فیصلے پر بینظیر کے ’’ورثاء ‘‘ اور بی بی کی شہادت کے ثمر میں حکومت کرنے والی پیپلز پارٹی کا عدم اطمینان سمجھ سے بالاتر اور اس مقدمے پر اپیل، پنجابی کہاوت ’’گونگلوواں توں مٹی جھاڑنا‘‘کے مترادف ہے۔پارٹی کی پانچ سالہ حکومت،آصف زرداری کی صدارت سمیت دس سال میں بینظیر قتل کیس کو اس طرح ’’ڈیل‘‘ کیاگیا جیسے کسی ہمسائے کی بکری چوری کا مقدمہ ہو۔

ایک تو عدم ثبوت کی بنا پر کمزور مقدمہ،دوسرے سیاسی مقاصد کے حصول کا پس منظر۔خدشہ یہی ہے کہ ساری زندگی اس قتل کا راز بھی نہیں کھلے گا۔لیاقت علی خان کے قتل کی طرح،ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی پھانسی کی طرح، جنرل ضیاء الحق کے فضائی حادثے کی طرح،مرتضیٰ بھٹو کے قتل کی طرح۔


مرضی کے خلاف فیصلہ آنے پر یہ کہنا بہت آسان بھی ہے اور سیاسی روایت کاحصہ بھی کہ ہمیں عدالتوں سے کبھی انصاف نہیں ملا۔پیپلز پارٹی قیادت کی طرف سے تواتر سے دیا جانے والا یہ بیان تاریخ کا حصہ ہے۔ابھی چند روز قبل ہی انہی عدالتوں سے پارٹی کے شریک سربراہ آصف زرداری کو ناجائز اثاثہ جات کے آخری ریفرنس میں بھی باعزت بری کیا گیا۔دوسال پیچھے بھی انہیں خوردبرد کے دو بڑے مقدمات میں اسی اعزاز سے نوازا گیا۔وہ فیصلہ بھی پارٹی نے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے آصف زرداری کی ’’معصومیت اور پاکبازی‘‘کے کھاتے میں قبول کر لیا۔ (پارٹی میں اندر ہی اندر ’’ ُ کھسرُ پھسر ‘‘کرنے کے بجائے کاش کوئی ببانگ دہل بھی کہتا کہ یہ نا انصافی ہے۔ہم فیصلے کے خلاف اپیل کریں گے۔اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ ہمیں عدالتوں سے کبھی انصاف نہیں ملا)۔نیب کا آصف زرداری کے فیصلے کے خلاف اپیل میں جانا کوئی بڑی بات نہیں،وہ اپنی ساکھ بچانے کے لئے ایسا نہ کرتاتو اور کیا کرتا؟

عدالتوں کے اندر بہت معروف شخصیات کی خوردبرد، لوٹ مار اور ٹیکس چوری کی بے تحاشا اور بے مثال داستانیں بھی دھرائی جاتی ہیں۔قانون کی رو سے یہ مقدمات دیوانی ہیں، لیکن وہ شخصیات یا تو سیاسی ہیں یا سیاستدانوں کی رشتے دار،یا ان مقدمات کی ’’آواز‘‘کسی طرح میڈیا کے کان میں بھی پڑگئی۔

اس لئے ان مقدمات کو سیاسی مقدمات کا درجہ مل گیا اور اہمیت دوگنا ہو گئی۔عدالتوں کے اندر باہر سارا رونق میلہ انہی مقدمات کے طفیل ہے۔عدالتوں میں تیز ترین سماعت کے ریکارڈ بھی انہی مقدمات کی وجہ ہی سے بنتے ہیں۔


بلکہ کبھی کبھی تو لگتا ہے عدالتیں آج کل صرف سیاسی مقدمات ہی لیتی، سنتی اور ان کے فیصلے کرتی ہیں۔کیونکہ عام آدمی کے لاکھوں دیوانی اور فوجداری مقد مات عدل کے ایوانوں کے اندر میڈیا کے اچھالے سیاسی مقدمات کے بوجھ تلے دبے ہیں اور باہر عام آدمی تاخیر کی سولی پردم توڑ رہا ہے۔


تماشا ملاحظہ کیجیے جو عام آدمی سالہا سال سے صرف پیشیاں بھگتتا ہے، وہ ہر نئی پیشی پر، نئی امید کے ساتھ منہ اٹھا کر عدالت پہنچ جاتا ہے،جبکہ اہمیت کے حامل سیاسی مقدمات کے فریقین چھینک بھی آجائے تو میڈیکل سرٹیفکیٹ بھیج کر حاضری سے استثنیٰ لے لیتے ہیں۔اور جب فیصلہ خلاف آجائے تو ’’وکٹری‘‘ کا نشان بنا کرپہلے تو یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم نے عدالت کو ’’چاروں شانے چت‘‘ کر دیا ہے۔پھر وہی رونا کہ ہمیں انصاف نہیں ملا، ججوں نے جانبداری کا مظاہرہ کیا۔اور اب ہم چین سے نہیں بیٹھیں گے،اپنا حق لینے کے لئے آگے اپیل میں جائیں گے۔

جیسا کہ اوپر ذکر کر چکا ہوں ہماری سیاسی روایت بن چکی ہے کہ اپنے خلاف فیصلہ آجائے تو ’’نا منظور ،نامنظور، فیصلہ نامنظور‘‘کا واویلا اور عدالت کے خلاف زہر افشانی کا کھلے عام مظاہرہ۔جب تک سماعت ہورہی تھی تو نون لیگ کے دل میں سپریم کورٹ کا احترام مچلتا رہا جیسے ہی نااہلی کا فیصلہ آیا تو شریف خاندان سمیت اعلیٰ قیادت ڈٹ کر’’ فیصلہ نا منظور ریلی ‘‘ نکالنے لگی۔


حال ہی کا لطیفہ بھی ملاحظہ کیجیے جب آصف زرداری کی باعزت رہائی پر عمران خان نے احتساب عدالت کا سارا ’’جرم‘‘نیب کے کھاتے میں ڈالتے ہوئے، وہی’’بنا مغز‘‘ تقریر کرڈالی جو وہ ہر اس موقع پر کرتے ہیں جب ان کی مرضی کے خلاف فیصلہ آجائے۔یہی عمران خان کچھ ہی دن پہلے نااہل نواز شریف کو نیب کے ذریعے جیل بھیجنے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔اب ایک دم یاد آگیا کہ یہ نیب تو مک مکا والی عدالت ہے۔بالکل اسی طرح جیسے کنٹینر پر کھڑے ہو کر سپریم کورٹ کو نواز شریف کے ہاتھوں بکی ہوئی عدالت کہتے رہے۔نواز شریف کی نااہلی کے بعد وہی عدالت اب عمران خان کے لئے اتنی مقدس ہو گئی کہ اس کا تقدس پامال کرنے والوں کے خلاف جنگ اور دھرنے کی دھمکی بھی دے دی گئی۔(اللہ کرے مستقبل میں عدالت عظمیٰ سمیت ملک کی تمام عدالتیں اور تمام ادارے عمران خان کی مرضی کے مطابق ہی فیصلے کرتے رہیں، تاکہ ان کا تقدس بحال رہے۔)حالانکہ جس نیب پر عمران خان سیخ پا ہیں، وہ تو خود مخالف فریق ہے اور فیصلے کے خلاف اپیل میں جارہا ہے۔


سیاسی مقدمات نے ماحول میں اتنا انتشار پھیلا رکھا ہے کہ فیصلوں کے خلاف ججوں پر ذاتی حملے اور عدالتوں کی پامالی معمولی بات سمجھی جانے لگی ہے۔ ابھی چند روز قبل سرگودھا میں مرضی کے خلاف فیصلہ آنے پر خاتون اسسٹنٹ کمشنر کے کمرے میں وکلا کی غنڈہ گردی، توڑپھوڑ اور خاتون جج کو کمرے میں بند کردینا، اسی سیاسی عدم برداشت کی دلیل ہے۔سیاسی مقدمات سے اڑنے والی خاک نے عدل کے ایوانوں کا نقشہ بگاڑ کے رکھ دیا ہے۔

اپنی مرضی کیخلاف فیصلہ آنے پر عدالت پر دشنام طرازی اور ججوں پر ذاتی حملے، اگر عدالت کی بے حرمتی اور توہین کے زمرے میں نہیں آتے تو اس ’’سہولت‘‘ کو آئین کا حصہ بنا کر عام آدمی تک بھی پہنچایا جائے کیونکہ وہ تو ’’تاریخ پر تاریخ ،تاریخ پر تاریخ ‘‘ کے کلچر سے تنگ بھی نہیں آتا اور آنکھیں بند کر کے اور ہاتھ باندھ کرعدالتوں اور ججوں کا احترام بھی کئے جا رہا ہے، اسے بھی تو کسی ’’قومی خدمت‘‘کا موقع ملنا چاہئے۔

مزید :

کالم -