عطاء الحق قاسمی کا استعفا اور ایاز صادق کی مایوسی
دو ایسی باتیں ہوئی ہیں جن سے لگ رہا ہے کہ کچھ نہ کچھ ہونے والا ہے۔ ایک سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی گفتگو جس میں انہوں نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ اسمبلی اپنی مدت پوری کرتی دکھائی نہیں دیتی۔
یہ وہی ایاز صادق ہیں،جنہوں نے اِس سے پہلے بارہا کہا کہ اسمبلی اپنی مدت پوری کرے گی اور قبل از وقت انتخابات کے خواب دیکھنے والوں کو مایوسی ہوگی۔دوسری اہم بات عطاء الحق قاسمی کا چیئرمین پی ٹی وی کے منصب سے استعفا ہے۔ ایک مایوسی کا اظہار ایاز صادق نے کیا ہے، تو دوسری مایوسی عطاء الحق قاسمی نے ظاہر کی ہے۔
مثلاً انہوں نے اپنے استعفے میں لکھا ہے کہ اُنہیں پی ٹی وی کی عظمتِ رفتہ بحال کرنے کا ٹاسک سونپا گیا تھا، مگر وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکے،کیونکہ وزارتِ اطلاعات میں بیٹھے افسروں کی طرف سے رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔مجھے ایاز صادق کی باتوں پر تو کوئی حیرت نہیں ہوئی،البتہ عطاء الحق قاسمی کے مستعفی ہونے کی تحریر نے ضرور چونکا دیا ہے۔قاسمی صاحب نے بھاری مشاہرے پر پی ٹی وی میں دو سال گزارے۔
کبھی کسی رکاوٹ کا انکشاف نہیں کیا،بلکہ اُلٹا یہ تاثر موجود تھا کہ عطاء الحق قاسمی کے آگے کسی کی مجال نہیں کہ پَر بھی مار سکے۔وہ پی ٹی وی کے چیئرمین ہونے کے ساتھ ساتھ ایم ڈی کے اختیارات بھی استعمال کرتے رہے۔
نواز شریف سے قربت کی وجہ سے کسی میں ہمت نہیں تھی کہ اُنہیں روک سکتا۔دو سال بادشاہت کے انداز میں گزارنے کے بعد اب وہ کہہ رہے ہیں کہ اُنہیں تو کام ہی نہیں کرنے دیا گیا۔
مُلک بھر میں مشہور ہے کہ عرفان صدیقی، عطاء الحق قاسمی اور ڈاکٹر انعام الحق جاوید ایک ایسی ٹرائیکا ہیں، جس نے پوری ادبی و ثقافتی پالیسیوں کو اپنی انگلیوں پر رکھا ہوا ہے، پھر یہ کیسے ہوا کہ قاسمی صاحب جو کرنا چاہتے تھے وہ اُنہیں کرنے نہیں دیا گیا۔
واقفانِ حال تو اس کے برعکس ہی کہانیاں سناتے ہیں۔ قاسمی صاحب نے اپنے پورے دور میں مُلک بھر کے صاحبانِ علم و ادب کی ایک بھی ایسی تقریب نہیں سجائی، جس میں پی ٹی وی کی بہتری کے لئے کوئی مشاورت کی گئی ہو۔انہوں نے پی ٹی وی ڈرامے کے احیاء کے لئے رتی بھر کوشش نہیں کی،بلکہ پی ٹی وی ڈرامے کی پروڈکشن ہی بند کر دی۔ پی ٹی وی پرائیویٹ ڈرامہ پروڈکشن کرنے والوں سے جو معیاری ڈرامے خریدتا تھا، وہ بھی بند کر دیئے۔
اب جہاں تک اِس بات کا تعلق ہے کہ انہیں بیورو کریسی نے کام نہیں کرنے دیا تو یہ بھی زیبِ داستان کی ایک کوشش ہے۔ وہ شاید اپنے عہدے سے زیادہ اختیارات چاہتے ہوں۔
شاید اُنہیںیہ خیال آتا ہو کہ جیسے نواز شریف کے گرد سارا مُلک گھومتا ہے، پی ٹی وی کو بھی اُن کے گرد گھونا چاہئے، حالانکہ پی ٹی وی ایک قومی اور سرکاری ادارہ ہے، جس کے اندر چین آف کمانڈ کی ایک مکمل روایت موجود ہے۔
ظاہر ہے پی ٹی وی میں چیئرمین کو تو صرف ایک نمائشی عہدے کے طور پر رکھا گیا ہے۔اصل کام تو منیجنگ ڈائریکٹر کرتا ہے۔ سینیٹر پرویز رشید بھی پی ٹی وی کے چیئرمین رہے ہیں،مگر وہ انتظامی معاملات میں مداخلت نہیں کرتے تھے۔ قاسمی صاحب اتنے قناعت پسند نہیں،جس کی وجہ سے شاید مزاحمت کا سلسلہ شروع ہوا اور بات اِس حد تک بڑھ گئی کہ انہیں مستعفی ہونا پڑا۔سوشل میڈیا پر قاسمی صاحب کے مستعفی ہونے کی بابت کچھ اور باتیں بھی ہو رہی ہیں۔
یہ تک کہا جا رہا ہے کہ انہوں نے کشتی کو ڈوبتے دیکھ کر وقت سے پہلے چھلانگ لگا دی ہے، وہ اپنی ادبی ساکھ بچانا چاہتے ہیں،جو سرکاری ملازمت اور مراعات قبول کر کے انہوں نے بُری طرح تباہ کی۔اُنہیں معلوم ہے کہ یہ سیٹ اَپ کسی وقت بھی ختم ہو سکتا ہے،زیادہ سے زیادہ چل بھی گیا تو کچھ ماہ بعد ختم ہو جائے گا،چونکہ وہ میرٹ پر تو تعینات ہوئے نہیں،اِس لئے اِس سیٹ اَپ کے ساتھ ہی اُنہیں بھی گھر جانا پڑے گا، سو انہوں نے نواز شریف کی طرح تاخیر کرنے کی بجائے بُرا وقت آنے سے پہلے بھریا میلہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا،مگر کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ استعفا دیتے ہوئے وہ باتیں نہ لکھتے جو صرف سیاست دان لکھتے ہیں۔ وہ سیدھی طرح کہتے کہ اب پیرانہ سالی کے باعث وہ مزید کام نہیں کر سکتے اِس لئے مستعفی ہو رہے ہیں۔ اُن کے تقرر نامے میں اگر یہ جملہ لکھا گیا تھا کہ اُنہیں پی ٹی وی کی بحالی کے لئے تعینات کیا جا رہا ہے تو اُنہیں علم ہونا چاہئے کہ یہ صرف اُنہیں نواز شریف کی نوازشات کے تحت نوازنے کا ایک پہلو تھا۔
جہاں تک ایاز صادق کی مایوسی کا تعلق ہے تو یہ بھی سمجھ سے بالاتر ہے، انہیں خود یہ علم ہو گا کہ انہوں نے کبھی اپنے آپ کو ایک غیر جانبدار سپیکر ثابت نہیں کیا
۔وہ ایوان کو مسلم لیگ(ن) کا رکن اسمبلی سمجھ کر چلاتے رہے۔ انہوں نے کئی بار اسمبلی میں اپوزیشن کے ارکان کا گلا دبایا،انہیں بات نہیں کرنے دی۔انہوں نے اتنی جرأت کا مظاہرہ بھی نہیں کیا، جتنا رضار بانی چیئرمین سینیٹ کی حیثیت سے کرتے رہے۔ انہوں نے وزراء کے نہ آنے پر سخت ریماکس ہی نہیں دیئے، سخت ایکشن بھی لئے۔
وہ جس اسمبلی کے قبل از وقت چلے جانے کی بات کر رہے ہیں، اُسے ارکانِ اسمبلی اور وزراء نے جس طرح بے توقیر کیا اُس پر کچھ بھی نہیں کر سکے۔آج کل بھی اسمبلی ایک ویرانے کا منظر پیش کر رہی ہے۔
کئی دن ہو گئے کورم ہی پورا نہیں ہو رہا۔سب سے بڑا ’’سانحہ‘‘ یہ ہوا کہ اس اسمبلی نے سپریم کورٹ کی طرف سے ایک نااہل شخص کو دوبارہ پارٹی صدر بنانے کے لئے جس بل کی منظوری دی، اُس میں ختم نبوت کے حلف نامے میں بھی خاموشی سے ترمیم کر دی۔انہیں شاید یاد ہو گا کہ میر ظفر اللہ جمالی نے اسی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ میری دُعا ہے یہ اسمبلی، جس نے ناموس رسالتؐ کی توہین کی ہے، تباہ برباد ہو جائے۔
صورتِ حال اِس حد تک چلی گئی تھی تو ایاز صادق نے اُس وقت بھی یہی کہا تھا کہ بل میں کوئی ترمیم نہیں ہوئی،ختم نبوت کا حلف جوں کا توں موجود ہے، جس اسمبلی کو وزراء خاطر میں نہ لاتے ہوں، اسمبلی کے ارکان اہمیت نہ دیتے ہوں، حالانکہ ہر سال کروڑوں روپے کی مراعات بھی اسی کے نام پر لیتے ہیں، اُسے اگر وقت سے پہلے توڑ دیا جاتا ہے تو اس میں اچنبھے کی بات کیا ہے؟ ایاز صادق نے اس موضوع پر قومی اسمبلی میں ارکان اسمبلی کو اظہارِ خیال کے لئے کیوں نہیں بلایا، اُنہیں اسمبلی بچانے کے لئے کردار ادا کرنے کو کیوں نہیں کہا؟ جس اسمبلی کے ایجنڈے سے راتوں رات فاٹا کو ضم کرنے کی شق نکال دی گئی ہو اور لوگ پارلیمینٹ کے باہر دھرنا دینے پر آ گئے ہوں، وہ اسمبلی مضبوط کیسے ہو سکتی ہے؟ایاز صادق کے پاس افسوس کرنے اور مایوسی کا جواز پیش کرنے کی اور بہت سی وجوہات موجود ہیں، وہ ان پر غور کریں تو اُنہیں بخوبی علم ہو جائے گا کہ یہ لنکا کسی اور نے نہیں خود اسمبلی میں مراعات لینے والوں نے ڈھائی ہے۔
معاف کیجئے جس اسمبلی کے قائد ایوان کا ہی پتہ نہ ہوکہ اصلی کون ہے اور نقلی کون؟وہ کیسے تادیر خود کو قائم رکھ سکتی ہے، جس وزیراعظم کو اِسی ایوان نے اپنا قائد منتخب کیا، وہ خود یہ ماننے کو تیار نہیں کہ انہیں قومی اسمبلی نے منتخب کیا ہے، وہ تو اپنے انتخاب کو نواز شریف کی کرم فرمائی قرار دیتے ہیں اور یہ کہتے ہوئے بھی بالکل نہیں جھجھکتے کہ اُن کے وزیراعظم نواز شریف ہیں، اب ظاہر ہے ایسی باتیں بذاتِ خود اس تاثر کو جنم دیتی ہیں کہ سارا بندوبست عارضی ہے،اسے کون سنجیدگی سے لے سکتا ہے۔
شاہد خاقان عباسی کی مضبوط گرفت کیسے قائم ہو سکتی ہے، جب وہ خود کمزوری کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ مَیں پہلے بھی انہی کالموں میں کئی بار لکھ چکا ہوں کہ ایک مضبوط وزیراعظم اور ایک مضبوط حکومت خود مسلم لیگ(ن) کے مفاد میں ہے۔
مَیں نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا تھا کہ اگر حکومت اور اسمبلی عدم فعالیت کی طرف چلی جاتی ہے تو اُن کا برقرار رہنا مشکل ہو جائے گا۔اس کی ایک سادہ سی مثال یہ ہے کہ پنجاب اسمبلی بھی مضبوطی سے قائم ہے اور پنجاب حکومت بھی، اِس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہاں کوئی ابہام موجود نہیں۔
سب کو پتہ ہے حکومت کس کی ہے اور قائد ایوان کون ہے؟ وہاں اسمبلی میں حاضری بھی مناسب ہوتی ہے اور سپیکر کو بھی کسی مایوسی کا اظہار نہیں کرنا پڑتا۔۔۔ہاں میں اِس حد تک ایاز صادق کی آواز میں آواز ملانا ضروری سمجھتا ہوں، مُلک میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے یا ہونے جا رہا ہے، وہ پاکستان کے حق میں بہتر ہونا چاہئے، مُلک میں جمہوریت اور آئین کا نظام جاری رہنا چاہئے، اسمبلیاں وقت سے پہلے ٹوٹ بھی جاتی ہیں، یہ دُنیا بھر کی جمہوریت میں ہوتا ہے، مگر یہ جمہوریت کی قیمت پر نہیں ہونا چاہئے، اسمبلیاں اگر ٹوٹتی ہیں تو آئین میں دی گئی مدت اور طریق کار کے مطابق انتخابات ہونے چاہئیں۔
اگر حالات اِس حد تک پہنچ گئے ہیں کہ قومی اسمبلی کا سپیکر مایوسی کا اظہار کر رہا ہے تو ایک نئی اسمبلی کا قیام ناگزیر ہے، جو عوام سے نیا مینڈیٹ لے کر قائم ہو اور ایک ڈمی اسمبلی کی بجائے فعال اسمبلی بن کر عوام کے مسائل بھی حل کر سکے۔