فیض کی محبوب شخصیت اور مقبول شاعری

فیض کی محبوب شخصیت اور مقبول شاعری
 فیض کی محبوب شخصیت اور مقبول شاعری

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


فیض احمد فیض کے یوم پیدائش (13فروری 1911ء) کے موقع پر اپنے علمی و ادبی ذوق رکھنے والے قارئین کی نذر فیض کے زبان زدِ عام اشعار۔ لیکن اس سے پہلے یہ وضاحت بھی ہو جائے کہ عام طور سے فیض کی پیدائش کا مقام نارووال کا ایک گا ؤں کالاقادر تحریر کردیا جاتا ہے۔ جب کہ حقیقت میں فیض سیالکوٹ شہر میں پیدا ہوئے۔ سیالکوٹ میں ان کے والد بیرسٹر سلطان محمد خاں جن کا تعلق جٹ برادری سے تھا، وکالت کے پیشہ سے منسلک تھے۔ فیض کے والد سماجی سرگرمیوں اور عوامی فلاح و بہبود کے کاموں میں ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ انجمن اسلامیہ سیالکوٹ کے 6سال تک صدر رہے۔ انجمن اسلامیہ سیالکوٹ کے زیر انتظام کئی تعلیمی ادارے قائم کئے گئے۔ انجمن ہی کے ایک سکول سے فیض نے اپنی تعلیم کا آغاز کیا۔ بعد میں وہ اسکاچ مشن سکول اور مرے کالج سیالکوٹ میں علامہ محمد اقبالؒ کے قابلِ فخر استاد مولانا سید میر حسن کے زیر تربیت بھی رہے۔


فیض احمد فیض نے قرآن مجید کے تین سپارے حفظ کرنے کی سعادت بھی حاصل کی۔ لیکن آنکھوں کی ایک تکلیف میں شدت آنے کی وجہ سے یہ سلسلہ جاری نہ رہ سکا۔ بی بی سی ٹیلی ویژن پر احمد فراز اور افتخار عارف نے فیض کا ایک انٹرویو کیا تھا۔ اس بات چیت کے دوران فیض صاحب نے فرمایا تھا کہ ان کی زندگی کا ایک پچھتاوا یہ بھی ہے کہ وہ قرآن مجید کو مکمل طور پر حفظ نہ کرسکے۔ اپنا دوسرا پچھتاوا فیض نے یہ بیان کیا تھا کہ وہ ایک بڑے کرکٹر بننا چاہتے تھے۔ جو وہ نہ بن سکے۔


فیض احمد فیض نے مولوی محمد ابراہیم میر سے باقاعدہ طور قرآن اور حدیث کی تعلیم بھی حاصل کی۔ فیض صاحب نے اپنے بچپن کی یادیں تازہ کرتے ہوئے اپنے ایک انٹرویو میں اس سعادت کا بھی ذکر کیا تھا کہ جب انجمن اسلامیہ سیالکوٹ کے ایک اجلاس میں شرکت کے لئے علامہ اقبالؒ خاص طور پر سیالکوٹ آئے تو اس موقع پر فیض احمد فیض نے تلاوت قرآن پاک کی تھی۔


فیض احمد فیض ایک کامیاب صحافی بھی تھے۔ وہ کئی سال تک انگریزی اخبار پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر رہے۔ لیکن فیض کا اصل حوالہ شاعری ہے اور شاعر بھی وہ اس مقام کے تھے کہ اپنے عہد میں وہ سب سے بڑے شاعر تسلیم کئے گئے۔ فیض شاید وہ واحد شاعر ہیں جن کے سیاسی مسلک سے شدید اختلاف رکھنے والوں نے بھی ان کی شاعری سے والہانہ محبت کی۔ فیض ایک ترقی پسند شاعر تھے۔ کمیونزم کے نظریے سے فیض کی محبت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں تھی۔ اس حوالے سے ان پر بہت تنقید بھی کی گئی۔ یعنی سیاسی اور معاشی نظریات کے اعتبار سے فیض ایک متنازعہ شخصیت رہے۔ لیکن ان کا متنازعہ شخصیت ہونا بھی ان کی شاعری کی مقبولیت اور خود شاعر کی محبوبیت پر اثر انداز نہ ہوسکا۔ ایک شاعر کے طور پر اور اپنی ذاتی شرافت و شائستگی اور اعلیٰ اخلاقی اقدار پر یقین رکھنے کے باعث فیض احمد فیض کی شخصیت زندگی بھر محبتوں اور عقیدتوں کا محور رہی۔ اور آج بھی فیض کی شاعری کو چاہنے اور سراہنے والوں میں کمی نہیں آئی۔ حرفِ سادہ کو اعجاز کا رنگ عنایت کرنے میں فیض کے جذبۂ صادق اور سوزِ دروں کو دخل تھا۔ اس لئے فیض کے اشعار کا ہر لفظ تاثیر میں ڈوبا ہوا محسوس ہوتا تھا۔


فیض احمد فیض کی شاعری کی بے پناہ مقبولیت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے اپنے اشعار میں اول سے آخر تک انسانو ں کے دکھ بیان کئے ہیں۔ ان کی شاعری انسانیت اور انسانی اقدار کے فروغ کے لئے ہے۔ احترام انسانیت اور عظمت آدم ان کی شاعری کا منشور ہے۔ پھر فیض کو اپنے عہد میں رتبۂ بلند اس لئے بھی ملا اور آج بھی اپنے ہم عصروں میں وہ اگر سر بلند اور ممتاز نظر آتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ فیض نے اپنے اصولوں اور آدرشوں کے پرچم کو بلند رکھنے کی خاطر ہر طرح کے مسائل اور مصائب کا غیر معمولی جرأت اور استقامت کے ساتھ مقابلہ کیا ہے۔ فیض کئی مرتبہ جیل میں بھی گئے۔ وہاں وہ قید تنہائی کے عذاب سے بھی گزرے پھر فیض جلاوطنی کے کرب میں بھی مبتلا رکھے گئے لیکن فیض ہر امتحان میں سرخرو ثابت ہوئے اور اپنے اصولوں و نظریات سے کبھی وفاداری تبدیل نہیں کی۔ یہی سبب ہے کہ آج فیض احمد فیض ہم میں موجود نہیں لیکن ان کی شاعری کا تذکرہ اب پہلے سے بڑھ کر ہوتا ہے۔ بہت سارے شاعروں کی شاعری میں فیض کی آواز کی بازگشت آج بھی محسوس ہوتی ہے۔ بڑے شاعر کی ایک تعریف یہ بھی ہے کہ ان کے اصل دور کا آغاز ان کی وفات کے بعد ہوتا ہے۔ مجھے ذاتی طور پر کئی مرتبہ فیض سے ملاقات کاشرف حاصل ہوا۔ میں نے ان کا ایک تفصیلی انٹرویو بھی کیا۔ جب لاہور میں ان کا انتقال ہوا۔ تو اس انٹرویو کے کچھ حصے روزنامہ جسارت کراچی میں شائع ہوئے۔یہ انٹرویو میں نے پنجاب یونیورسٹی کے رسالے ’’ محور‘‘ کے لئے کیا تھا۔ ’’محور‘‘ کی مجلس ادارت کے لئے میں بھی منتخب کیا گیا تھا۔مگر بد قسمتی یہ ہوئی کہ جب جنرل ضیاء الحق کے دور میں باقی تعلیمی اداروں کی طرح پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین پر بھی پابندی عائد کردی گئی تو ہمارے دور کا ’’محور‘‘ شائع نہ ہو سکا۔ افسوس صد افسوس کہ اب میں فیض احمد فیض کا وہ تفصیلی انٹرویو گم کر بیٹھا ہوں۔ اس انٹرویو میں فیض کی ارشاد کی ہوئی یہ بات تو میں کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔ انہوں نے کہا ۔ ’’میں جب بھی اپنے رسولِ کریمٖؐ کا نام سنتا ہوں تو میرا دل بے اختیار زندہ باد کہہ اٹھتا ہے‘‘۔ دوسری بات بھی بہت اہم ہے فیض نے کہا۔ ’’ میر اور غالب سے بڑھ کر میں علامہ اقبالؒ کی شاعری سے متاثر ہوا ہوں‘‘۔ مجھے آج تک یاد ہے کہ فیض نے جتنی دفعہ بھی علامہ اقبالؒ کا نام لیا تو ’’ اپنے اقبال صاحب‘‘ کہا۔ اس سے مجھے ان کی علامہ اقبالؒ سے بے پناہ عقیدت کا احساس ہوا۔ فیض نے اپنی ایک نظم میں بھی علامہ اقبالؒ کی شاعری کے محاسن کو لازوال قرار دیا تھا۔ فیض کے نزدیک اقبال کی شاعری ایک ایسا چراغ تھی جس کے شعلے کو وحشتِ صرصر بھی بجھا نہیں سکتی۔ اقبال کی شاعری کو فنا نہیں۔

فیض احمد فیض کی شاعری بھی اپنے منفرد اسلوب اور لہجے کے باعث آج بھی ہمارے دلوں میں مقیم ہے۔ فیض کا تحت اللفظ شعر پڑھنے کا انداز بھی نہایت خوبصورت ہے۔ مجھے تو آج بھی یہ محسوس ہوتا ہے کہ فیص کی بساط یاراں جمی ہوئی ہے۔ میں بھی اس حلقے میں موجود ہوں اور فیض اپنے انتہائی خوبصورت اشعار سنارہے ہیں۔ کچھ ان سے سنے ہوئے ، کچھ ان کی کتابوں سے پڑھے ہوئے ارفع اور اعلیٰ اشعار اپنے قارئین کی خدمت میں۔ امید ہے یہ اشعار آپ کے دلوں کی گہرائیوں میں پہلے سے ہی گونج رہے ہوں گے:

ایک فرصتِ گناہ ملی وہ بھی چار دن
دیکھے ہیں ہم نے حوصلے پرور دگار کے
۔۔۔۔۔۔
زندگی کیا کسی مفلس کی قباہے، جس میں
ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں
۔۔۔۔۔۔
وہ سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے
گلوئے عشق کو دارورسن پہنچ نہ سکے
تو لوٹ آئے ترے سربلند، کیا کرتے
۔۔۔۔۔۔
محتسب کی خیر، اونچا ہے اسی کے فیض سے
رندکا، ساقی کا ،مے کا، خم کا، پیمانے کا نام
۔۔۔۔۔۔
دل میں اب یوں ترے بھولے ہوئے غم آتے ہیں
جیسے بچھڑے ہوئے، کعبے میں صنم آتے ہیں
۔۔۔۔۔۔
ہم نے جو طرز فغاں کی ہے قفس میں ایجاد
فیض گلشن میں وہی طرز بیاں ٹھہری ہے
۔۔۔۔۔۔
گلوں میں رنگ بھرے، بادِ نوبہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
۔۔۔۔۔۔
مقام، فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے
۔۔۔۔۔۔
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے
منصف ہو تو اب حشر اٹھاکیوں نہیں دیتے
۔۔۔۔۔۔
جورُکے تو کوہِ گراں تھے ہم جو چلے تو جاں سے گزرگئے
رہِ یار ہم نے قدم قدم تجھے یادگار بنادیا
۔۔۔۔۔۔
ہم سہل طلب کون سے فرہاد تھے لیکن
اب شہر میں تیرے کوئی ہم سابھی کہاں ہے
۔۔۔۔۔۔
اس تن کی طرف دیکھو جو قتل گہ دل ہے
کیا رکھا ہے مقتل میں، اے چشمِ تماشائی
۔۔۔۔۔۔
ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی ملاقاتوں کے بعد پھر بنیں گے آشنا کتنی مداراتوں کے بعد
۔۔۔۔۔۔
سِتم سکھلائے گا رسمِ وفا، ایسے نہیں ہوتا
صنم دکھلائیں گے راہِ خدا، ایسے نہیں ہوتا
۔۔۔۔۔۔
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
۔۔۔۔۔۔
جوہری بند کیے جاتے ہیں بازارِ سخن
ہم کسے بیچنے الماس و گہر جائیں گے

مزید :

کالم -