چیف جسٹس پاکستان اور صوبائی چیف جسٹس صاحبان کے نام

چیف جسٹس پاکستان اور صوبائی چیف جسٹس صاحبان کے نام
چیف جسٹس پاکستان اور صوبائی چیف جسٹس صاحبان کے نام

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاکستان کے حکومتی نظام میں بے پناہ خامیاں ہیں۔ موجودہ نظام حکومت سے عام آدمی کو بے پناہ شکا یا ت ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ پاکستان کا نظام انصاف یعنی پاکستان کا عدالتی نظام بھی عام آدمی کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکا ۔ چیف جسٹس پاکستان اور چاروں ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کو بدلتے پاکستان کے سیاسی منظر نامہ میں عدلیہ پر اٹھنے والی انگلیوں کو سنجیدگی سے لینا ہو گا۔ اگر دیکھا جائے تو اس وقت عمران خان کی ساری چارج شیٹ عدلیہ کے خلاف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں عدلیہ سے انصاف نہیں ملا۔ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے پہلے عدلیہ نے وارنٹ گرفتاری جاری کئے بعد ازاں ان کو ایک اور مقدمہ میں اشتہاری بھی قرار دیا جا چکا ہے لیکن وہ عدلیہ کے ان احکامات کو کھلم کھلا چیلنج کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ کسی میں ہمت ہے تو گرفتار کر کے دکھائے۔ عوامی تحریک کے رحیق عباسی بھی اپنے عدالتی احکامات کو چیلنج کر رہے ہیں۔ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک بھی احکامات کو ماننے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھا رہے۔ ایک مہذب معاشرے میں عدالتی احکامات کا ایک تقدس ہو تا ہے جو پاکستان میں اگر ختم نہیں تو کم ہو تا جا رہا ہے۔ کیا اس صورتحال کے صرف سیاستدان ذمہ دار ہیں؟۔ کہیں نہ کہیں اس کی ذمہ داری پاکستان کی عدلیہ کو بھی اٹھانی پڑے گی۔ انگریزی کا محاورہ ہے Justice delayed is Justice denied ۔ اس محاورے کی روح سے دیکھا جائے تو پاکستان کی عدالتوں میں دائر اکثر مقدمات میں انصاف نہیں دیا جا سکا۔ عدالتوں سے انصاف حاصل کرنے میں اس قدر تاخیر ہو جاتی ہے کہ انصاف جب ملتا ہے تو اس کی چاہ ہی ختم ہو چکی ہوتی ہے۔ ماضی کے تجربات یہ بھی بتاتے ہیں کہ چیف جسٹس صاحبان کے چند سو موٹو میڈیا کی خبر تو بنے ، بے شک چند افراد کو اس کی وجہ سے جلد انصاف تو ملا لیکن اس سے عدالتی نظام کا عمومی تاثر بہتر نہ ہو سکا۔ جب تک مقدمات نمٹانے کی رفتار تیز نہیں ہو گی عام آدمی کا عدالتی نظام پر مکمل اعتماد بحال نہیں ہو گا۔ یہ بات اپنی جگہ حقیقت ہے کہ عدلیہ کے بھی بے پناہ مسائل ہیں۔ عدلیہ کو انفرا سٹرکچر کی بے پناہ کمی کا سامنا ہے۔ ماتحت عدالتوں سے لیکر اعلیٰ عدلیہ تک ججز کی تعداد کم ہے۔ فضول مقدمات کا بے پناہ رش ہے۔ وکلاء اور سائلین کے تاخیری حربے بھی مقدمات کے فیصلوں میں التواء کا باعث ہیں۔ عدلیہ بے زبان ہے اپنے اوپر تنقید کا جواب نہیں دے سکتی۔ یہ کہا جاتا ہے کہ جج بولتے نہیں بلکہ ان کے فیصلہ بولتے ہیں اور دوسری طرف جج فیصلے ہی تو نہیں کر پا رہے۔ اس سب کے ساتھ عدلیہ کے اپنے اندر احتساب کی بھی کمی ہے۔ مقدمات کے التواء میں ماتحت عدلیہ کے جوڈیشل افسران اور اعلیٰ عدلیہ کے ججز کو بے پناہ اختیارات حاصل ہیں۔ عدلیہ کے اپنے اندر کوئی ایسا نظام موجود نہیں ہے جو کسی جج کا کسی مقدمے میں غیر ضروری تاخیر و التواء پر احتساب کر سکے۔ یہ درست ہے کہ پاکستان کے عدالتی نظام میں اگر کسی عدالت سے غلط فیصلہ ہو جائے تو اس کو ٹھیک کروانے کے لئے اعلیٰ عدلیہ کے دروازے موجود ہیں۔ اگر ٹرائل کورٹ انصاف کے تقاضے پورے نہ کرے تو ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ سے انصاف ملنے کی امید ہوتی ہے لیکن اگر کسی جج نے آپ کے مقدمہ کا بر وقت فیصلہ نہیں کیاتو اس پر اس کے خلاف کارروائی کے لئے کوئی فورم موجود نہیں ہے۔ یہ جج کا استحقاق سمجھ لیا گیا ہے کہ وہ جتنی مرضی تاریخیں دے۔ بغیر کارروائی کے مقدمہ میں نئی تاریخ ڈال دے۔ جج کونسی تاریخ دے یہ بھی اس کا استحقاق ہے۔ ماتحت عدلیہ میں زیر سماعت مقدمات میں جو فریق مقدمہ کو لمبا کر نا چاہ رہا ہو تا ہے اس کی پہلی کوشش ہو تی ہے کہ کوئی کارروائی نہ ہو اور دوسری کوشش ہوتی ہے کہ لمبی تاریخ مل جائے۔ یہ دونوں کام انصاف کا قتل ہیں اور یہ دونوں کام ماتحت عدلیہ میں سستے داموں ہو جاتے ہیں۔ تاریخ پر تاریخ انصاف کے طلبگار کو نا امیدکر دیتی ہے۔ محترم چیف جسٹس صاحبان کو پاکستان میں عدلیہ کی ساکھ کو بچانے اور عام آدمی کا ملک کے عدالتی نظام پر اعتماد بحال رکھنے کیلئے عدلیہ کے اندر احتساب کا ایسا طریقہ کار بنانا ہو گا جو تاریخ پر تاریخ کے نظام کو توڑ سکے۔ جو انصاف کے طلبگار کو یہ امید دے سکے کہ جس نے اس کو انصاف دینے میں تاخیر کی وہ بھی جوابدہ ہے۔ آجکل لاہور ہائی کورٹ میں پرانے مقدمات کو نمٹانے کیلئے ایک کریش پروگرام شروع کیا گیا ہے جس میں اگر دوسرا فریق جان بوجھ کر عدالت میں نہ آئے کہ مقدمہ التواء کا شکار ہو جائے گا تومحترم جج صاحبان فائل دیکھ کر مقدمہ کا فیصلہ کر دیتے ہیں اور تاریخ نہیں ڈالتے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ماتحت عدلیہ کو بھی یہ حوصلہ دیا جائے کہ وہ بھی اسی طرح تاریخ پر تاریخ ڈالنے کو گناہ سمجھے اور اگر ایک فریق کارروائی میں حصہ نہیں لیتا تو اس کے انتظار میں کارروائی کو روکنا انصاف کا تقاضہ نہیں بلکہ انصاف کا قتل ہے۔ یہ سوچ بدلنے کی ضرورت ہے۔ ابھی تو یہ ہے کہ اگر گواہ نہیں آیا تو ایک تاریخ اور دے دیں ۔ یہ انصاف کا تقاضہ ہے۔ مخالف فریق کے وکیل نے گواہ پر جرح نہیں کی ، چلیں ایک اور تاریخ ڈال دیں ۔ یہ انصاف کا تقاضہ نہیں انصاف کا قتل ہے۔ بر وقت جواب دعویٰ داخل نہیں ہوا، ایک اور موقع دے دیں۔ وکیل نے چار تاریخوں سے بحث نہیں کی ایک اور موقع دے دیں ۔ یہ سب انصاف کے تقاضے نہیں بلکہ انصاف کا قتل ہیں لیکن ماتحت عدلیہ کے جج صاحبان کا اس حوالے سے موقف بھی قابل غور ہے کہ اگر وہ کسی مقدمہ میں یہ دیکھ کر کہ ایک فریق جان بوجھ کرتاخیری حربے استعمال کر رہا ہے ، یکطرفہ کارروائی کر بھی دیں تو اعلیٰ عدلیہ انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کی منطق کے تحت اس یکطرفہ کارروائی کو ختم کر دیتی ہے۔ عدلیہ کو یہ طے کرنا چاہئے کہ کتنے مواقع کے بعد یکطرفہ کارروائی ہو نی چاہئے اس حوالے سے جج صاحبان کی صوابدید ختم ہو نی چاہئے۔ اگر اعلیٰ عدلیہ کے سربراہان نے ملک میں فوری انصاف کے لئے ہنگامی اقدامات نہ کئے تو خدا نخواستہ جو سیاستدان آج عدلیہ کو اپنے مذموم مقاصد کے تحت چیلنج کر رہے ہیں ان کو عدالتی نظام کے خلاف عوامی حمایت حاصل ہو جائے گی کیونکہ عام آدمی بھی عدالتی نظام سے تنگ ہے اور اس کو فوری ریلیف کی ضرورت ہے۔

مزید :

کالم -