چیئرمین نیب کا انتخاب:پھر وہی کشمکش
اِس بات میں تو وزن ہے کہ چیئرمین نیب کی تقرری کا اختیار وزیراعظم اور لیڈر آف اپوزیشن کو دے کر ایک شفاف احتساب کو کیسے یقینی بنایا جا سکتا ہے؟گویا یہ دونوں اگر کسی تیسرے آدمی کو خاص شرائط پر منتخب کر لیں تو وہ شخص جو چیئرمین نیب ہو گا، آزادانہ کام نہیں کر سکے گا۔ ہمارے جیسے مُلک میں تو وزیراعظم بھی کسی کیس میں ملوث ہوتا ہے اور قائد حزب اختلاف بھی، جیسا کہ گزشتہ برسوں میں نظر آتا رہا ہے، ایسے میں انہی کے ہاتھوں سے تراشا گیا چیئرمین نیب کا بت کیا کارنامہ سرانجام دے سکتا ہے؟
۔۔۔موجودہ چیئرمین نیب قمرالزمان چودھری اس حوالے سے خوش قسمت ہیں کہ اپنی مدت بھی پوری کر رہے ہیں اور اُن پر حکومت و اپوزیشن دونوں طرف سے انتقامی کارروائی کا الزام بھی لگتا رہا ہے، سابق وزیراعظم نواز شریف نے بھی ان کے خلاف پریس کانفرنس کی اور آصف علی زرداری و خورشید شاہ بھی اُنہیں انتقام کے طعنے دیتے رہے،مگر اس کے باوجود یہ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے غیر جانبدارانہ احتساب نہیں ہونے دیا اور اندر خانے شریف خاندان کو خاص طور پر رعایتیں دیتے رہے۔
مسئلہ کچھ یہ بھی ہے کہ باہر بیٹھ کر اندازہ نہیں ہوتا کہ اندر بیٹھ کر کام کرنے والے کتنی مشکل میں ہیں۔نیب ایک طرف یہ دعویٰ کرتا ہے کہ قمر الزمان چودھری کے دور میں نیب نے سب سے زیادہ لوٹی گئی دولت برآمد کی اور دوسری طرف سیاست دانوں سے لے کر سپریم کورٹ کے ججوں تک یہ کہتے ہیں کہ قمر الزمان چودھری نے نیب کے ادارے کو تباہ کر دیا،بلکہ ایک جج صاحب نے تو یہ تک کہہ دیا تھا کہ نیب آج دفن ہو گیا ہے۔کیا مسلم لیگ(ن) کے رہنماؤں اور خود میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کی طرف سے نیب کے خلاف پریس کانفرنسیں ایک ڈرامہ تھیں تاکہ یہ تاثر دیا جا سکے کہ نیب آزاد ہے اور خود نیب اُن کے خلاف کسی کارروائی سے احتراز کرتا رہے۔
پانامہ کیس کا اگر فیصلہ نہ آتا اور شریف فیملی سمیت اسحاق ڈار پر ریفرنس دائر کرنے کا حکم نہ دیا جاتا تو شاید اب بھی نیب اُن پر ہاتھ نہ ڈالتا،تاہم اِس دوران پوری قوم کو یہ اندازہ ہو گیا کہ چیئرمین نیب کتنا مضبوط عہدہ ہے،جسے وقت سے پہلے کوئی نہیں نکال سکتا اور نکالنے کا طریقہ اِس قدر مشکل ہے کہ اُسے اختیار ہی نہیں کیا جا سکتا۔ جس دن سپریم کورٹ میں چیئرمین نیب نے یہ کہا تھا کہ وہ حدیبیہ کیس دوبارہ نہیں کھول سکتے اور سپریم کورٹ نے نیب کی موت کا اعلان کر دیا تھا، اُس دن سب کا خیال تھا کہ چیئرمین نیب استعفیٰ دے دیں گے،مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا اور نہ ہی کوئی اُن سے زبردستی استعفیٰ لے سکتا تھا۔اب میرے جیسا عام آدمی تو یہی سوچتا ہے کہ جب آئین نے چیئرمین نیب کے عہدے کو اتنا زیادہ تحفظ دیا ہوا ہے وہ احتساب کے لئے کھل کر کام کیوں نہیں کرتا،کیوں یہ تاثر موجود ہے کہ چیئرمین جو کوئی بھی ہو حکومت کے تابع فرمان رہتا ہے، حالانکہ مالی خود مختاری سے لے کر ہر فیصلے تک چیئرمین نیب کو احتساب بیورو چلانے کے لئے کلی اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔اگر نیب کے چیئرمین کی آزاد حیثیت پر عوام کو یقین آ جائے تو شاید یہ جھگڑا بھی ختم ہوجائے کہ اُس کا انتخاب کیسے کیا جاتا ہے،مگر چونکہ یہ تاثر موجود ہے کہ حکومت اور اپوزیشن لیڈر مل کر جس شخص کو چیئرمین نیب بناتے ہیں وہ اُن کے اشاروں پر چلنے والا کوئی شخص ہوتا ہے،اِس لئے شفاف احتساب کے لئے اس طریقے کو تبدیل کیا جانا چاہئے۔ اب لگتا ہے اس ایشو پر ایک نئی بحث، یک نئی جنگ چھڑ جائے گی،جس کی ابتدا تو ہو ہی چکی ہے۔۔۔ ویسے تو اس میں بھی کوئی برائی نہیں کہ وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف مل کر کسی نام پر اتفاق رائے پیدا کریں،مگر مسئلہ یہ بھی رہا ہے کہ اپوزیشن بھی فرینڈلی ہو جاتی ہے۔مثلاً گزشتہ ساڑھے چار برسوں میں حکومت اور اپوزیشن لیڈر کے درمیان ہر مسئلے پر اتفاق رائے ہوا ہے،لیکن جو اصل اپوزیشن کا کردار ادا کر رہے تھے،اُن کی اسمبلی میں آواز بھی نہیں تھی۔
اتفاق کی بات ہے کہ جو لوگ چیئرمین نیب کو لگانے والے تھے،وہ نیب کو مطلوب بھی تھے۔آج چاہے خورشید شاہ جتنا بھی پچھتاوے کا اظہار کریں کہ انہوں نے قمر الزمان چودھری کی چیئرمین نیب کے لئے سفارش کیوں کی؟مگر حقیقت یہ ہے کہ اُن کے پاس انتخاب کے وقت بہترین شخص قمر الزمان چودھری ہی تھے۔اگر بطور اپوزیشن لیڈر وہ اپوزیشن کی جماعتوں سے صحیح معنوں میں مشاورت کر کے نام فائنل کرتے تو آج انہیں ندامت کا اظہار نہ کرنا پڑتا۔۔۔تحریک انصاف اور جماعت اسلامی موجودہ طریقۂ انتخاب سے بالکل مطمئن نہیں۔یہی وجہ ہے کہ جب وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کی چیئرمین نیب کے حوالے سے ملاقات کی خبر سامنے آئی تو ایک ہلچل مچ گئی۔سراج الحق نے تو مطالبہ داغ دیا ہے کہ چیئرمین نیب کا انتخاب سپریم کورٹ اور چاروں صوبوں کے چیف جسٹس صاحبان مل کر کریں۔یہ کوئی بری تجویز نہیں،لیکن شاید سیاست دان یہ اختیار عدلیہ کو دینے پر راضی نہ ہوں۔کہنے کو چیئرمین نیب ایک آئینی عہدہ ہے،اُسے اپنے انتخاب کے بعد آزادی سے کام کرنا چاہئے،لیکن جو عدلیہ کے ذریعے آتا ہے، اُس کا مزاج اور سوچ کچھ اور ہوتی ہے اور جو پارلیمینٹ یا سیاست دانوں کے ذریعے منتخب کیا جاتا ہے،اُس کا اندازِ فکر اور ہوتا ہے۔پاکستان میں دو ادارے ایسے ہیں جو اپنی آئینی حیثیت ہونے کے باوجود عوام کی نظروں میں اپنی خود مختاری اور غیر جانبداری ثابت نہیں کر سکے،آج بھی اُن کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا جاتا ہے، ان میں ایک نیب اور دوسرا الیکشن کمیشن ہے، حالانکہ ان دونوں اداروں کو آئینی تحفظ حاصل ہے۔ ججوں کی طرح ان کے سربراہوں اور ممبران کا بھی کوئی بال بیکا نہیں کرسکتا، مگر عمومی تاثر یہ ہے کہ ان کا جھکاؤ ہمیشہ حکومت کی طرف رہتا ہے یا پھر یہ وہی کرتے ہیں،جو اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے۔
حیرت ہے کہ ہم ان عہدوں کو آئینی تو قرار دے چکے ہیں، لیکن ان پر انتخاب کے لئے کوئی فول پروف اور آئینی طریقہ وضع نہیں کرسکے۔ یہی وجہ ہے کہ جب یہ عہدے خالی ہوتے ہیں تو ایک ہلچل سی مچ جاتی ہے، جوڑ توڑ کا ایک سلسلہ شروع ہوجاتاہے۔
اِس مرحلے سے گزرنے کے باوجود جن لوگوں کا انتخاب ہوتا ہے، پہلے دن سے اُن کی کریڈبیلٹی کو متنازع بنادیا جاتا ہے۔
پھر اس کے بعد اس عہدیدار کا سارا عرصہ شکوک و شبہات اور عدم اعتماد کی فضا میں گزر جاتا ہے۔ اب اس معاملے پر دیکھیں کتنی گرد اڑے گی اور چیئرمین نیب کے لئے کسی شخص کا انتخاب کتنے انتشار پیدا کرے گا۔ اگلے چار برسوں کے لئے چیئرمین نیب کا انتخاب کرنے کے لئے جتنی بھی مشاورت کر لی جائے، ہونا وہی ہے جو وزیراعظم اور اپوزیشن لڈر نے طے کرنا ہے۔ایسا بھی نہیں ہوتا کہ پارلیمنٹ یا عوام کے سامنے لائیں، جن کی وجہ سے انہیں اتنا بڑا منصب سونپا جا رہا ہے، اگر عوام اپنے وزیراعظم کا انتخاب خود کرتے ہیں اور ان کے سامنے اُن کی شخصیت کھلی کتاب ہوتی ہے، تو پھر ایک ایسے منصب پر جو عوام کے منتخب کردہ نمائندوں پر بھی نظر رکھنے کا مجاز ہے، کسی ایسے شخص کا انتخاب کیسے ہو سکتا ہے، جس کے بارے میں عوام کی معلومات صفر ہوں۔ مُلک میں احتساب کا جو نقارہ بج چکا ہے اور آنے والے دنوں میں جس طرح احتساب ایک بنیادی عنصر کی حیثیت سے ہمارے معاشرتی وسیاسی نظام میں موجود ہو گا، اسے دیکھتے ہوئے بجا طور پر یہ تو قع کی جا رہی ہے کہ نیب کا چیئرمین کسی ایسے شخص کو بنایا جائے، جس کا کوئی ذاتی ایجنڈا یا مفاد نہ ہو، جس کی شخصیت ہر قسم کے الزامات سے پاک ہو، وہ احتساب کے شعبے کی نزاکتوں کو سمجھتا ہو اور سب سے بڑی بات یہ کہ وہ بڑے فیصلے کرنے کی جرأت رکھتا ہو۔۔۔ کیا یہ توقع حزبِ اقتدار اور حزب اختلاف کے قائدین پوری کرسکتے ہیں؟