کراچی کی سیاست کے بدلتے تیور

کراچی کی سیاست کے بدلتے تیور
 کراچی کی سیاست کے بدلتے تیور

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

آصف علی زرداری کی سرگرمیوں کو دیکھ کر مجھے ایک پنجابی فلم کا یہ گانا یاد آ جاتا ہے:
نی سسیئے بے خبرے تیرا لٹیا شہر بھنبھور
سابق صدر آصف علیزرداری دوسرے صوبوں کی یا ترا پر نکلے ہوئے ہیں اور خود ان کے صوبے، یعنی سندھ میں ہلچل مچی ہوئی ہے۔ پاک سر زمین پارٹی کے مارچ کو روکنے کے لئے جس ریاستی تشدد کو بروئے کار لایا گیا، اسے تو خودآصف علی زرداری ہمیشہ نشانہ بناتے رہے ہیں۔ وہ مسلم لیگ (ن) پر تنقید ہی یہ کرتے ہیں کہ وہ پولیس کے ذریعے عوام کی آواز کو دباتی ہے، لاٹھی اور گولی کی طاقت سے حکومت کرنا چاہتی ہے۔جس روز وہ خیبرپختونخوامیں جمہوریت کے اوصاف بیان کر رہے تھے اور نوازشریف کو مغلیہ طرز حکومت کے طعنے دے رہے تھے، اسی روز کراچی میں پی ایس پی کے مارچ کو روکنے کے لئے پوری ریاستی طاقت استعمال کی گئی۔ ریڈ زون سے بہت دور آنسو گیس اور واٹر کینن کے استعمال سے عورتوں، بچوں اور ریلی میں شامل افراد کو نڈھال کر دیا گیا۔ یہ سب کچھ توآمریت میں ہوتا ہے، جمہوریت میں تو اس کی ہرگز گنجائش موجود نہیں۔ چاہئے تو یہ تھا کہ حکومت سندھ اس مارچ کا سنجیدہ نوٹس لیتی اور پیش کردہ مطالبات پرمذاکرات کر کے ان کا حل پیش کرتی، مگر اس کے بجائے تشدد کا راستہ اختیار کیا گیا۔ مصطفے کمال سمیت تمام رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا اور شرکاء کو منتشر کرنے کے لئے بے دریغ شیلنگ کی گئی۔ اب اسے آصف علی زرداری کیا نام دیں گے؟۔۔۔ وہ تو ہمیشہ سیاسی جدوجہد کی بات کرتے ہیں، اب سیاسی جدوجہد کو طاقت کے زور پر دبانے کا راستہ کون اختیار کر رہے ہیں؟


کراچی میں شہری مسائل کے حوالے سے یہ کسی جماعت کا پہلا بڑا مزاحمتی شو تھا۔ مصطفےٰ کمال گرفتاری تک یہ کہتے رہے کہ وہ صرف پانی مانگنے وزیر اعلیٰ ہاؤس جانا چاہتے تھے، مگر ریڈ زون سے پہلے ہی پولیس ان کے حامیوں پر ٹوٹ پڑی۔ سچی بات تو یہ ہے کہ کراچی نے سیاسی جدوجہد کے یہ واقعات بہت عرصے بعد دیکھے ہیں، وگرنہ تو یہاں گھیراؤ جلاؤ ہوتا تھا، دکانیں بند کرائی جاتی تھیں، گولیاں چلتی تھیں، سڑکوں پر ٹائر جلا کرانہیں بند کر دیا جاتا تھا، تاہم پی ایس پی نے ایسا کچھ نہیں کیا، وہ پرامن احتجاج کے لئے باہر نکلے تھے اور پرامن انداز سے اپنی منزل کی طرف جا رہے تھے۔ انہیں جس انداز سے روکا گیا، اس سے پیپلزپارٹی کا نرم چہرہ خراب ہوا ہے۔ ایسا تو مسلم لیگ (ن) بھی بہت سوچ بچار کے بعد کرتی ہے۔ دھرنے کے دنوں میں کیسے کیسے نازک موڑ نہیں آئے، لیکن حکومت حتی الامکان تشدد کا راستہ اختیار کرنے سے گریز کرتی رہی۔ کراچی جب سے خوف کی فضا سے باہر نکلا ہے، سیاسی لوگوں کا مرکز بنا ہوا ہے۔ہر سیاسی جماعت وہاں اپنا جھنڈا گاڑنا چاہتی ہے۔خود پیپلزپارٹی بھی گاہے بگاہے وہاں اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کرتی رہتی ہے ۔تحریک انصاف، مسلم لیگ (ن) اور جماعت اسلامی کی بھی کراچی کے عوام سے یکجہتی کے لئے سرگرمیاں جاری ہیں۔ اس سے پہلے کبھی ریاستی طاقت کا استعمال نہیں کیا گیا، لیکن پی ایس پی کو خصوصی طور پر نشانہ بنایا گیا ہے۔جو لوگ اس کے پس پردہ کوئی دوسری کہانی تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، یہ ان کی اپنی سوچ تو ہو سکتی ہے، لیکن بادی النظر میں ایسا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ مثلاً بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مصطفےٰ کمال کو کراچی میں لانچ کرنے کے لئے یہ سارا کھیل کھیلا گیا ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان اور لندن اپنی گرفت کھو رہی ہیں، ان کے اندر اب احتجاج کی سکت نہیں رہی،جبکہ کراچی کے عوام کی خواہش ہے کہ ان کے جو بڑھتے ہوئے مسائل ہیں، ان کے لئے کوئی ایسی آواز بلند ہو جو کاخِ اُمرا کے درو دیوار ہلا دے۔ اس مقصد کے لئے پی ایس پی کو آگے لانے کا فیصلہ کیا گیا اور جان بوجھ کر ایک منصوبہ بندی کے تحت اس کے خلاف پولیس کو استعمال کیا گیا اور مصطفےٰ کمال سمیت تمام بڑے رہنماؤں کو گرفتار کر کے اس ڈرامے کی تکمیل کی گئی۔


فسانہ طرازی کے لئے قیاس درست ثابت ہو سکتا ہے، لیکن اس سوال کا جواب کون دے گا کہ پیپلزپارٹی اس کے لئے استعمال کیوں ہوگئی؟پی ایس پی کو مضبوط کرنے کے لئے وہ خود پر جمہوریت دشمنی کا الزام کیوں لگوائے گی؟ پیپلزپارٹی نے جو کچھ کیا ہے، خوف کی وجہ سے کیا ہے۔ کراچی میں مسائل اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ حکومت انہیں حل کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ بری حکومت کی سب سے بڑی مثال کراچی میں قائم ہو چکی ہے۔ جہاں پینے کا صاف پانی ناپید ہو، سڑکیں گندگی سے ائی پڑی ہوں، ہسپتالوں کی حالت ناگفتہ بہ ہو اور کرپشن نے صوبے کے امتحانی نظام سے لے کر پولیس اور پٹوار خانے کے نظام تک سب کا بیڑہ غرق کر دیا ہو۔ وہاں احتجاج کرنا فرض بن جاتا ہے۔۔۔ لیکن ایم کیو ایم پاکستان، جو اس شہر کے مسائل بڑھانے کی پوری طرح ذمہ دار ہے، مختلف قسم کے خوف و ہراس کی زد میں ہے۔


اسے اب وہ کارکن نہیں مل رہے جو پرامن رہ کر شہر کے حالات بدلنے کی کوشش کریں، کیونکہ ان کی سیاست کا مرکزی نکتہ تشدد اور طاقت رہی ہے۔فاروق ستار بہت کوشش کر رہے ہیں کہ ایم کیو ایم کے پرانے امیج کو ختم کر دیں، لیکن یہ کوئی آسان بات نہیں، کیونکہ برسوں کی شناخت چند ہفتوں میں ختم نہیں ہو سکتی۔ حیرت ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان اور جماعت اسلامی بھی وہی کر رہی ہیں، جو پی ایس پی نے کیا ہے، مگر ان پر ریاستی تشدد کا راستہ نہیں اپنایا گیا۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ مصطفےٰ کمال مطالبات میں لچک دکھانے کو تیار نہیں۔ جماعت اسلامی پچھلے دنوں کئی روز تک کے الیکٹرک کے خلاف پریس کلب کے باہر دھرنا دینے کے بعد وعدۂ فردا پر میدان چھوڑ کر واپس چلی گئی۔ پی ایس پی جب ملین مارچ لے کر وزیر اعلیٰ ہاؤس کی طرف بڑھ رہی تھی،تو درمیان میں مذاکرات ہوئے، دس مطالبات کو ماننے کے بعد سندھ حکومت نے مطالبات پر مشاورت کرنے کے لئے کچھ وقت مانگا اور یہ تصور کر لیا گیا تھا کہ مشاورت کا یہ عرصہ طویل ہو جائے گا اور پی ایس پی اپنا احتجاج چھوڑ کر واپس چلی جائے گی، لیکن مصطفےٰ کمال اپنے مطالبات پر ڈٹے رہے، تاوقتیکہ وہ پولیس کی زد میں نہیں آگئے۔

کراچی میں سیاسی قوتوں کو منظم ہونا چاہئے اور حکومت کی طرف سے بھی پرامن احتجاج کی راہیں مسدود نہیں کرنی چاہئیں،تاکہ یہاں سیاست پھلے پھولے اور اس شہر پر ربع صدی سے خوف اور دہشت کے جو سائے جمہوریت کے نام پر مسلط رہے ہیں، ان کا خاتمہ ہو سکے۔ سندھ حکومت اور پیپلزپارٹی کو یہ مان لینا چاہئے کہ وہ سندھ کے عوام کو گڈ گورننس نہیں دے سکے۔ کراچی جسے ترقی کی منازل طے کرنا چاہئے تھیں، آج بری طرح ترقی معکوس کا شکار ہے۔ شکر کا مقام یہ ہے کہ اب صرف مہاجروں کی زندگی خراب ہونے کا موقف نہیں اپنایا جاتا،بلکہ نئے کراچی کی سیاست میں کراچی کے عوام ایک بڑے سٹیک ہولڈر کی شکل اختیار کر گئے ہیں یہ خوش آئند تبدیلی اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ کراچی اب بند گلی کی سیاست سے نکل کر آزاد سیاست کے دائرے میں داخل ہو چکا ہے۔ ایسی مثبت سیاسی سرگرمیوں کی اجازت ہونی چاہئے اور کوئی مثبت سیاسی سرگرمی ایسی نہیں ہوتی کہ اس میں عوام کے مسائل کا ذکر ہی نہ کیا جائے۔

پیپلزپارٹی کو اب خوش فہمی کے خول سے باہر نکل آنا چاہئے۔سندھ کارڈ کھیلنے کا زمانہ بھی اب شاید چلا گیا ہے۔ لوگ اب اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں، انہیں چکنے چپڑے نعروں یا ’’زندہ ہے بھٹو زندہ ہے‘‘ کے جھانسے میں لاکر بے وقوف نہیں بنایا جا سکتا۔ پی ایس پی کے لئے کراچی کا یہ حالیہ پولیس تشدد ایک ایسا امرت دھارا ہے، جو اس کی سیاست کو نئے امکانات سے ہمکنار کر سکتا ہے، اس واقعہ کے بعد مصطفےٰ کمال کے بارے میں یہ تاثر پیدا ہوا ہے کہ وہ کراچی کے عوام کے لئے لڑ سکتا ہے اور دوسروں کی طرح میدان چھوڑ کر بھاگنے والا نہیں۔

مزید :

کالم -