ٹیکنو کریٹ حکومت اور تاریخ کا کوڑے دان
جب سے سوشل میڈیا کا استعمال عام ہوا ہے ، افواہ سازوں کی چاندی ہو گئی ہے جو من گھڑت فضولیات لوگوں میں پھیلاتے رہتے ہیں۔
سوشل میڈیا میں ایک اصطلاح’’ وائرل‘‘ کا استعمال بھی عام ہے، وائرل سوشل میڈیا کی اس پوسٹ کو کہتے ہیں جو دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں یا لاکھوں لوگ ایک دوسرے کو فارورڈ کرتے رہیں۔ ابلاغیات کا بیڑا غرق پہلے فیس بک نے کیا، پھر ٹویٹر آیا اور اب واٹس ایپ پر ہر وقت افواہیں اور فضولیات فارورڈ ہوتی رہتی ہیں۔ ٹیکنالوجی جس رفتار سے تبدیل ہوتی ہے آئندہ سالوں میں فیس بک، ٹویٹر اور واٹس ایپ کی جگہ کوئی نئی چیز عام ہو گی۔
اصل ابلاغیات پرنٹ میڈیا ہے اور ہمیشہ رہے گا یعنی درست خبروں کا حصول اخبارات اور جرائد کے ذریعہ ہی ہو گا چاہے وہ ان کے پرنٹ ایڈیشن ہوں یا آن لائن سہولت ہو، لیکن بہر حال چسکے کے طور پر الیکٹرانک اور سوشل میڈیا بھی غیر سنجیدہ لوگوں کی توجہ کا مرکز رہے گا جن کی حیثیت کوڑے کرکٹ کے ڈھیر سے زیادہ نہیں۔۔پچھلے پانچ چھ ماہ سے سوشل میڈیا پر آئے دن ٹیکنو کریٹ حکومت کی افواہ پھیلا دی جاتی ہے، مزے کی بات ہے کہ لوگ نہ صرف کوڑے کرکٹ کے ڈھیر کو سنجیدگی سے لینے لگتے ہیں بلکہ اسے آگے بھی پھیلاتے ہیں اور محفلوں میں بیٹھے بہت وثوق سے پیشن گوئیاں بھی کرتے ہیں کہ انہیں یہ خبر بہت ہی با اعتماد ذریعہ سے پہنچی ہے لیکن تھوڑا سا کریدنے پر پتہ چل جاتا ہے کہ وہ با اعتماد ذریعہ واٹس ایپ یا فیس بک پر وائرل ہوئی کوئی پوسٹ ہے جو سینکڑوں ہزاروں گروپوں میں آوارہ پھر رہی ہے ۔
ہماری قوم کی افواہوں کو سنجیدگی سے لینے کی کمزوری کو بھارت نے بہت سنجیدگی سے لیا ہے اور وہاں بیٹھے لوگوں نے سوشل میڈیا کو پاکستان میں انتشار پھیلانے کا ایک اہم ہتھیار بنا لیا ہے۔ یہ نام نہاد ٹیکنوکریٹ حکومت بھی ایسی افواہوں میں سے ایک ہے جس نے کئی ماہ سے ڈھلمل یقین پاکستانیوں کو اپنا شکار بنا رکھا ہے۔ گذرے برسوں میں بھی بنگلہ دیش ماڈل کی بازگشت سنائی دیتی رہی ہے، ان برسوں میں بھی میں اپنے کالموں میں لکھا کرتا تھا کہ بنگلہ دیش ماڈل بنگلہ دیش میں بری طرح ناکام ہوا تھا تو پاکستان میں کیسے اس سے کسی خیر کی توقع رکھی جا سکتی ہے۔
اول تو بنگلہ دیش ماڈل پاکستان میں آئے گا ہی نہیں لیکن اگر احمقوں کے کسی ٹولہ نے اس حماقت کی کوشش کی بھی تو یہ نہ صرف بری طرح ناکام ہو گا بلکہ پاکستان کی سالمیت کو شدید طریقہ سے منتشر کر دے گا۔ آئین اور پارلیمان کی بالا دستی کے علاوہ ملک کو آگے لے جانے کا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے کیونکہ باقی کے تمام راستے تاریخ کے کوڑے دان کی طرف جاتے ہیں۔
بنگلہ دیش میں کرپشن ختم کرنے کے نام پر جنوری 2007 میں دو سال کے لئے ٹیکنو کریٹس کی حکومت قائم کی گئی تھی۔ بنگلہ دیشی فوج کے احمق جرنیلوں کا خیال تھا کہ وہ عوام میں مقبول لیڈر شپ کو کرپٹ کہہ کرکے ان سے جان چھڑا لیں گے۔
اس وقت بنگلہ دیش کی دو مقبول سیاسی پارٹیاں عوامی لیگ اور نیشنل پارٹی تھیں اور ان کی قیادت شیخ حسینہ اور بیگم خالدہ ضیاء کر رہی تھیں۔ فوجی جرنیلوں نے اپنے پٹھووں کے ذریعہ کرپشن کی کہانیاں عام کرنا شروع کیں تاکہ عوام سیاسی قائدین سے متنفر ہو جائیں اور وہ احتساب کے نام پر سیاست دانوں کوبدنام کریں گے اور دو سال کے بعد جب الیکشن کرائیں گے تو عوام ان سیاست دانوں کو مسترد کرکے نئی قیادت لے آئیں گے۔
اس وقت بنگلہ دیش کے آرمی چیف معین الدین احمد تھے جنہوں نے "minus two" کا گھناؤنا کھیل کھیلا اور اس کے لئے سپریم کورٹ کا کندھا استعمال کیا۔ بنگلہ دیشی جرنیلوں اور سپریم کورٹ نے ورلڈ بینک کے ایک سابق عہدیدار فخرالدین احمد کو امریکہ سے امپورٹ کیااور اسے اسی طرح وزیر اعظم بنوا دیا جیسے کبھی پاکستان میں امریکہ سے معین قریشی کو امپورٹ کیا گیا تھا۔
فخرالدین احمد پاکستانی سول سروس کے سابق بیوروکریٹ تھے جو 1971 میں بنگلہ دیش بن جانے کے بعد بنگلہ دیش سول سروس میں شامل ہو گئے تھے لیکن چند سال بعد ہی استعفی دے کر امریکہ میں ورلڈ بینک کے ملازم ہو گئے تھے جہاں انہوں نے 22 سال خدمات انجام دیں اور نائب صدر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ چار سال بنگلہ دیش سٹیٹ بینک کے سربراہ رہنے کے بعد امریکہ میں مستقل آباد ہو گئے۔
جب بنگلہ دیش ماڈل برپا ہوا تو جرنیلوں نے فخرالدین احمد کو امریکہ سے بلا کر وزیر اعظم کی کرسی پر بٹھا دیااور یوں عوام کے پاس جائے بغیر ان کی فلائٹ نے واشنگٹن سے سیدھا ڈھاکہ میں ایوانِ وزیر اعظم میں لینڈ کیا۔فوجی ہیڈ کوارٹر سے ہی انہیں کابینہ کے اراکین کی فہرست پکڑا دی گئی اور یوں دو سال بنگلہ دیش میں ٹیکنو کریٹس کی حکومت قائم ہوگئی۔ اس وقت پاکستان میں بھی امریکہ سے نازل کئے گئے شوکت عزیز وزیر اعظم تھے جو ایک فوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کے سایہ تلے کام کر رہے تھے۔
ٹیکنوکریٹس کی اس حکومت نے دو سال بنگلہ دیش میں خوب ادھم مچایا ، کام کاج کیا کرنا تھا ، بس اپنا دو سال کا وقت سیاست دانوں کو کرپٹ کہنے میں گذار دیا۔غیر آئینی ٹیکنوکریٹ وزیر اعظم فخرالدین احمد نے آرمی چیف معین الدین احمد کو مدت ملازمت میں توسیع بھی دی۔ دو سال بعد جب جنوری 2009 میں الیکشن کرائے گئے تو جرنیلوں اور سپریم کورٹ کی اصل حقیقت عوام نے ادھیڑ کر رکھ دی اور فوجی انکیوبیٹر میں بنائے گئے سیاست دانوں کو گندے انڈوں کی طرح اٹھا کر گلی میں پھینک دیا اور دونوں عوامی سیاست دانوں شیخ حسینہ اور بیگم خالدہ ضیاء کو ہی ووٹ دئیے۔ بنگلہ دیش ماڈل چاروں شانے چت ہو گیا اور یہ بات ثابت ہو گئی کہ عوام اپنے منتخب کردہ سیاست دانوں کوہی پسندکرتے ہیں اور فوجی انکیو بیٹروں کے گندے انڈے اٹھا کر باہر پھینک دیتے ہیں۔
بنگلہ دیش کے بعد رومانیہ نے بھی حال ہی میں ٹیکنو کریٹ حکومت کا ناکام تجربہ کیا ۔ نومبر 2015 میں ایک سیاسی بحران کے بعد یورپین یونین میں رومانیہ سے تعلق رکھنے والے زرعی کمشنر ڈاسیان سیالوس کو دارالحکومت بخارسٹ امپورٹ کیا گیا جنہوں نے 21 رکنی ’’کرپشن فری‘‘ ٹیکنوکریٹ حکومت بنائی لیکن اس حکومت نے ایک سال بعد ہی ہاتھ کھڑے کر دئیے اور الیکشن کرا کر بھاگنے میں ہی عافیت جانی۔ جنوری 2017 میں ایک بار پھر عوام کے منتخب نمایندوں نے حکومت سنبھالی اور ٹیکنو کریٹ تجربہ کا وقت سے پہلے ہی اسقاط ہو گیا ۔ اس وقت رومانیہ کی منتخب حکومت کو عوام کی مکمل سپورٹ حاصل ہے۔
پاکستان میں جو لوگ ٹیکنو کریٹ حکومت کا پراپیگنڈا کرنے میں مصروف رہتے ہیں انہیں ہمیشہ ذلت اٹھانی پڑتی ہے۔ 2014 میں عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری نے جب اسلام آباد میں عوام کی منتخب حکومت کے خلاف دھرنا دیا ہوا تھا تو ان دنوں بھی آئے دن دو یا تین سال کے لئے ٹیکنو کریٹس کی حکومت کا پراپیگنڈا کیا جاتا تھا۔ دھرنا ختم ہو گیا لیکن ٹیکنو کریٹ حکومت نے آنا تھا اور نہ آئی۔ اب بھی کئی ماہ سے سوشل میڈیا پر ٹیکنو کریٹ حکومت کے خیالی گھوڑے دوڑائے جا رہے ہیں جن میں پچھلے آرمی چیف کی سربراہی میں تین سال کے لئے ٹیکنو کریٹ حکومت کی نوید مسرت سنائی جاتی ہے جو آکر ملک کو کرپشن سے پاک کردے گی اور کرپٹ سیاست دانوں کو ہمیشہ کے لئے نا اہل اور جیل میں بند کر دے گی۔ مجھے جولائی اگست سے فیس بک اور واٹس ایپ پر اس طرح کی پوسٹیں آئے دن آتی رہتی ہیں جنہیں میں لطیفہ سمجھ کر تھوڑی دیر مسکرا تا ہوں اور پھرپڑھے بغیر ڈیلیٹ کر دیتا ہوں۔
میں اکثر کہتا ہوں کہ وہ وقت گذر گیا جب خلیل خان فاختہ اڑایا کرتے تھے، اب ملک میں نہ تو کبھی فوجی ڈکٹیٹر آئے گا اور نہ ہی کسی سکرپٹ کے تحت باہر سے بندہ امپورٹ کرکے ٹیکنو کریٹ یا کوئی اور غیر آئینی حکومت بنائی جائے گی۔ غیر آئینی حکومت غداری کے زمرے میں آتی ہے اس لئے مارشل لاء لگے یا ٹیکنو کریٹ حکومت بنے، دونوں صورتوں میں آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت یہ ملک سے غداری ہو گی کیونکہ اس کی آئین میں گنجائش ہی موجود نہیں ہے۔ بنگلہ دیشی ٹیکنوکریٹ حکومت کے دونوں کردار امریکی شہری ہیں۔ وزیراعظم فخرالدین احمد تو خیر نازل ہی امریکہ سے ہوئے تھے، آرمی چیف معین الدین احمد بھی ملازمت ختم ہونے کے بعد گرین کارڈ لے کر امریکہ چلے گئے اور بعد ازاں وہاں کی شہریت حاصل کرلی۔ عوام کے منتخب اپنے ملک میں ہی رہے چاہے حکومت میں ہوں یا جیل میں اور یہی بنیادی فرق ہے ۔ پاکستان کا خوش حال مستقبل جمہوریت اور عوام کی حکمرانی میں ہے۔ موجودہ حکومت جب اپنی آئینی مدت پوری کر لے گی تو نئے انتخابات کے نتیجہ میں عوام اگلی جمہوری حکومت منتخب کریں گے۔ ٹیکنو کریٹ حکومت تو خیر ہے ہی ایک بے سروپا بات ، لیکن اصل بات یہ ہے کہ ایک منتخب وزیر اعظم کو ہٹایا جانا ایک ایسا فیصلہ ہے جسے تاریخ اٹھا کر کوڑے دان میں پھینک دے گی۔