بات کم کیجئے،لب اظہار پہ تالے رکھئے!

بات کم کیجئے،لب اظہار پہ تالے رکھئے!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

جنرل راحیل شریف کے دور میں ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ نے گڈ گورنینس اور کرپشن کے خاتمے کا آپس میں تعلق جوڑا تھا تو جنرل قمر جاوید باجوہ کے ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور معیشت اور سیکیورٹی کا آپس میں تعلق جوڑتے نظر آتے ہیں ۔ تب بھی حکومت کی سبکی ہوئی تھی اور آج بھی حکومت مخمصے سے دوچار ہے ۔ خاص طور پر جب ڈی جی آئی ایس پی آر کا اصرار ہے کہ وہ ’سرکاری ملازم ‘ ہوتے ہوئے وزیر داخلہ کی تنقید کے باوجود اپنے الفاظ پر قائم ہیں ۔فوج کے تعلقات عامہ کے محکمے میں اتنے سنیئر اور بڑے رینک کے حامل افسران کی تعیناتی معاملات کو آسان کرنے کی بجائے مبہم کر رہی ہے۔


ڈی جی آئی ایس پی آر معیشت پر ایک بیان کے ذریعے نادانستہ ا پوزیشن کے اس بیانئے کا حصہ بھی بن گئے ہیں،جس کا لب لباب یہ ہے کہ تجاری خسارہ پاکستان کو دیوالیہ پن کے اتنا قریب لے آیا ہے کہ آئی ایم ایف کے سامنے کشکول پھیلانے کی نوبت آنے والی ہے اور اس معاشی گراوٹ کا سبب وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار ہیں جن کو فوراً سے پہلے مستعفی ہو جانا چاہئے۔ اپوزیشن کی جانب سے اس پراپیگنڈے کا مقصد ملکی سیاسی صورت حال کو جلد از جلد نئے انتخابات کی طرف لے جانے کی راہ ہموار کرنا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف چور چور کا شور اور گاڈ فادر کا اصرار اب ڈار ڈار کی تکرار میں بدل گیا ہے، لیکن سابق وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید اور سابق وزیراعظم نواز شریف کی طرح اسحاق ڈار بھی ڈرنے والے نہیں !۔۔۔ایک وہ ہی کیا وزیراعظم شاہد خاقان عباسی ، وزیر خارجہ خواجہ آصف اور وزیر داخلہ احسن اقبال کو سنیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ ڈرپوکوں کی نہیں،بلکہ ایسے نڈر لوگوں کی حکومت ہے جو بات کہنے اور اس پر قائم رہنے کا فن جانتے ہیں ۔ایسی کشیدہ سیاسی صورتِ حال جہاں اپوزیشن حکومت کو کونے میں دھکیلنے میں جتی ہوئی ہے ،پاک فوج کے ترجمان کو اپنے کارڈ سینے کے ساتھ لگا کر رکھنے چاہئے تاکہ کوئی ان کی غیر جانبداری پر سوال نہ اُٹھا سکے!


سچ پوچھئے تو ہمیں میجر جنرل آصف غفور پر ترس آتا ہے،شروع دن سے ایسا ہو رہا ہے کہ اِدھر وہ منہ سے کچھ نکالتے ہیں اُدھر حکومت پنجے جھاڑ کر ان کے پیچھے پڑجاتی ہے ۔ ڈان لیکس کے معاملے پر بھی ایسا ہی ہوا تھا اور انہوں نے نہ صرف متنازعہ ٹوئٹ واپس لیا تھا،بلکہ آرمی چیف جنرل باجوہ کو اپنے بیٹے کو سامنے بٹھا کر تابعدار میڈیا کو بتانا پڑا تھا کہ انہوں نے ایک غیر مقبول، مگر معقول فیصلہ کیا ہے ۔ اب دوبارہ سے ملکی معیشت پر میجر جنرل آصف غفور نے بات کیا کی کہ ایک نئی طرح کے وزیر داخلہ احسن اقبال کا پارہ چڑھ گیا ہے، کیونکہ ورلڈ بینک نے انہیں فوجی ترجمان کے بیان کا طعنہ دیا تھا ۔ البتہ اس مرتبہ ڈی جی آئی ایس پی آر اپنے پاؤں پر ضرور کھڑے ہیں اور آرمی چیف بھی خاموش ہیں، لیکن اس تاثر کو کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کی آواز کو حکومت نے اپنے خلاف آواز کے طور پر سناہے ، خودکے سوا کوئی دور نہیں کر سکتا۔ اس سے قبل جب لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ نے گڈ گورنینس اور کرپشن کو جوڑا تھا تو حکومت نے پریس ریلیز کے ذریعے اس تاثر کی تردید کی تھی، لیکن عاصم باجوہ کو اپنا بیان واپس لینے یا وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں پڑی تھی ۔ البتہ میجر جنرل آصف غفور کو ٹوئٹ واپس لینا پڑا تھا اور اب بیان کی وضاحت کرنا پڑی ہے ۔کیایہ کمزوری کو ظاہر کرتاہے یا طاقت کو !
مُلک کو اِس کھینچا تانی کا فائدہ ہو رہا ہے نہ نقصان ،البتہ جن حلقوں کو نواز شریف کی خاموشی کھا رہی ہے ،ان کو خطرہ ہے کہ نواز شریف سب کو کھاجائیں گے ۔ خاص طور پر زرداری اور عمران مانگے تانگے کے پاس پر میچ دیکھنے اور اگلی نشستوں پر براجمان ہونے کو بے تاب ہیں۔


اس میں شک نہیں کہ میڈیا کا ایک حصہ مُلک میں مصنوعی بحران پیدا کر رہا ہے ،شور مچا رہا ہے کہ دیکھو دیکھو آگ لگ گئی ، حالانکہ جسے آگ بنا کر دکھایا جا رہا ہے وہ پھلجھڑی ہے ۔ بات کا بتنگڑ اسی کو کہتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ آصف زرداری اور نواز شریف کو متنازع بنانے والا میڈیا خود متنازع ہوگیا ہے !۔۔۔خبر دینے والا جب خود خبر بن جائے تو اس صورتِ حال کا سب سے پہلا شکار وہ سچ ہوتا ہے جسے جاننے کے لئے عوام میڈیا سے رجوع کرتے ہیں ۔ میڈیا تاریخ کو شارٹ ہینڈ میں تحریر کرنے کا فریضہ سرانجام دیتا ہے، لیکن اگر میڈیا اپنی مرضی کی تاریخ بنانے پر تل جائے تو قوم کا مستقبل مخدوش ہو جاتا ہے ۔

مزید :

کالم -