الحمرا کے جِن اور جادوگر

الحمرا کے جِن اور جادوگر
الحمرا کے جِن اور جادوگر
کیپشن: 1

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

طاہرا لقادری اور عمران خان کے لگائے ہوئے تھیٹر نے مجھے بور کیا تو مَیں نے الحمرا آرٹس کونسل کا رخ کیا،جہاں ہر وقت کچھ نہ کچھ ہوتا رہتا ہے۔ صبح کے وقت چلے جائیں تو تینوں ہالوں میں کسی سکول، کالج ، یونیورسٹی یا کسی سیاسی یا غیر سیاسی تنظیم کا کوئی پروگرام ہورہا ہوتا ہے۔ شام کے وقت الحمرا کا احاطہ گٹار بجاتے اور خوش گپیاں کرتے نوجوانوں سے بھرا ہوتا ہے۔ رات کو ہال نمبر ایک اور دو میں مزاحیہ اداکار، روتے بسورتے چہروں کو ہنسانے کی کامیاب کوشش کرتے ہیں۔ ادےبوں و شاعروں کے لئے شام کو ادبی بیٹھک کھل جاتی ہے۔ خالد احمد کے انتقال کے کچھ عرصے بعد تک یہاں خاموشی چھائی رہی،لوگوں نے قہقہے لگانا چھوڑ دیئے تھے ،لیکن اب ان کے سب سے قریبی دوست نجیب یہاں منڈلی سجا کر بیٹھے رہتے ہیں۔ خود زیر لب مسکراتے ہیں، لیکن اپنے ساتھیوں کو قہقہے لگانے سے منع نہیں کرتے۔ کیفے ٹیریا پر کئی سینئر اداکار اور ہدایت کار چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے آنے والے دنوں کی منصوبہ بندی کرتے نظر آتے ہیں۔ جن میں مسعود اختر، نثار قادری اور منیر راج نمایاں ہیں۔
اتوار کو آپ الحمرا چلے جائیں تو ہال نمبر تین میں بلا جھجک داخل ہوجائیے، جہاں حسیب پاشا اور مطلوب الحسن عرف منا لاہوری المشہور زکوٹا جن ، ڈراما ”عینک والا جن“ پیش کررہے ہوتے ہیں۔ پی ٹی وی کے سابق پروڈیوسر حفیظ طاہر کے کہنے پر ڈرامے کا نیا نام ”جن اور جادوگر“ رکھ دیا گیا ہے۔ یہ ڈراما ہر اتوار کو دوپہر دو بجے مفت دکھایا جاتا ہے۔ حسیب پاشا چونکہ ایک پڑھے لکھے آدمی ہیں، اس لئے انہوں نے اس ڈرامے میں سارے مصالحے ایک خاص توازن کے ساتھ ڈال رکھے ہیں ،یوں یہ ایک ایسی چاٹ بن گیا ہے جو ہر عمر کے لوگوں کو اچھی لگتی ہے۔ بچے یہ ڈراما دیکھیں تو ان میں حب الوطنی، بڑوں کے احترام، اساتذہ سے محبت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ تفریح الگ ہے ، جس کا اس ڈرامے میں خوب تڑکا لگایا گیا ہے۔ بچوں کے والدین اس ڈرامے کو دیکھ کر یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کی درست تربیت کررہے ہیں یا نہیں؟ پاشا صاحب کا یہ ڈراما جہاں اہل لاہور کے لئے مفت تفریح کا ذریعہ ہے، وہاں یہ بچوں کے لئے ایک پرفارمنگ اکیڈمی کا درجہ بھی رکھتا ہے، کیونکہ حسیب پاشا اس میں ہر بار دو چار نئے بچوں کو ضرور متعارف کراتے ہیں، جو اپنے فن کے جوہر دکھاتے اور میلہ لوٹ لیتے ہیں۔ اس ڈرامے میں خود ان کا بیٹا جمال پاشا بھی کام کرتا ہے۔ میری پیش گوئی ہے کہ یہ بچہ پرفارمنگ آرٹ کے فن میں اپنے اباجی سے بھی زیادہ نام کمائے گا۔ پوت کے پاﺅں، پالنے ہی میں نظر آجاتے ہیں۔
الحمرا آرٹس کونسل کی سابق انتظامیہ نے ہال نمبر 3 کی تزئین و آرائش کے نام پر اس مقبول خاص و عام ڈرامے کو الحمرا بدر کردیا تھا، اس سے قبل یہ ڈراما ایک سال تک وہاں پیش کیا جاتا رہا، جہاں مور بھی ناچے تو اسے کوئی نہیں دیکھتا۔ الحمرا آرٹس کونسل کے نئے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کیپٹن (ریٹائرڈ) عطاء محمد خان نے چارج سنبھالتے ہی لاہوری فیملیز اور ان کے بچوں پر یہ احسان کیا کہ اس ڈرامے کو دوبارہ الحمرا میں واپس لے آئے۔ کیپٹن صاحب شاعر ہیں۔ کئی ضلعوں میں ڈپٹی کمشنر اور ڈی سی او رہ چکے ہیں۔ شعر ایسا کہتے ہیں جس کی چاروں چولیں مضبوط ہوتی ہیں۔ ہر طرح کے مشاعرے کے لئے اپنی زنبیل میں کلام تیار رکھتے ہیں۔ چونکہ فوجی ہیں، اس لئے ہر طرح کے حالات کا سامنا کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ کیپٹن (ر) عطاء محمد خان کے آنے سے الحمرا پر عطاﺅں کا قبضہ ہو گیا، پہلے بلاﺅں کا تھا۔ کیپٹن صاحب نے الحمرا میں آتے ہی بہت سی تبدیلیاں کی ہیں۔ پہلی تو یہ کہ انہوں نے برسوں سے بچوں کو مفت ڈراما دکھانے والے حسیب پاشا کی ٹیم کا معاوضہ بڑھا دیا ہے اور انہیں بہت سی سہولتیں نہ صرف دینے کا وعدہ کیا ہے، بلکہ کچھ سہولتوں کی فراہمی شروع بھی ہوگئی ہے۔
انہوں نے دوسرا کام یہ کیا ہے کہ الحمرا آرٹس کونسل میں دکھائے جانے والے ڈراموں کے فری پاسز کی فروخت کو روکنے کے لئے ٹھوس قدم اٹھایا ہے۔ الحمرا کے بعض ملازمین پاس اپنے نام جاری کروا کے عام تماشائیوں کو دو چار سو روپوں میں فروخت کردیتے تھے ،جس کا حکومت کو بھی نقصان ہورہا تھا اور خود الحمرا کو بھی.... ڈرامے کے پروڈیوسر بے چارے مصلحتاً خاموش رہتے تھے۔ کیپٹن عطا ءمحمد خان چونکہ شاعر ہیں اور الحمرا میں بطور شاعر برسوں سے آرہے تھے، اس لئے انہوں نے ادبی بیٹھک کی دگر گوں صورت حال پر نظر ڈالی تو اس کی بہتری کے لئے کئی عملی قدم اٹھائے۔باتھ روم اس لائق ہوگئے ہیں کہ اب کوئی شریف آدمی وہاں چند لمحے سستانے کے لئے بھی بیٹھ سکتا ہے۔ اگر عطاء محمد خان ادبی بیٹھک کو دوبارہ وہی منظر لوٹا دیں جو اسے اصغر حسین گیلانی نے عطا کیا تھا تو اس سے ان کی نیکنامی میں اضافہ بھی ہوگا اور ان کی ادبی برادری ہمیشہ ان کی ممنون احسان رہے گی۔
اگر کیپٹن صاحب ادیبوں اور شاعروں سے ڈراموں کے سکرپٹ لکھوانا شروع کردیں تو الحمرا میں پیش کئے جانے والے ڈرامے دوسرے تھیٹروں کے لئے مثال بن جائیں گے، کیونکہ ان دنوں الحمرا میں رات دس بجے کے بعد جو کمرشل ڈرامے پیش کئے جارہے ہیں، وہ اس قابل نہیں کہ کوئی شریف آدمی بھولے سے اپنی فیملی کے ساتھ بیٹھ کر اسے دیکھ سکے.... اور اگر کوئی شریف آدمی بھولے سے اپنی فیملی کے ساتھ ڈراما دیکھنے آجائے تو دوسرے تماشائی اس کی شرافت پر آنکھوں ہی آنکھوں میں سوال اٹھاتے نظر آتے ہیں۔ سکرپٹ سکروٹنی کمیٹیوں میں بھی ادیبوں کو شامل کیا جاسکتا ہے۔کیپٹن عطاء محمد خان نے بہت تیزی سے الحمرا کے معاملات اور مسائل کو سمجھا ہے اور انہیں حل کرنے کے لئے سنجیدہ ہوگئے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ حسیب پاشا نے اپنے ڈرامے کا نام ”جن جادو گر“ ٹھیک ہی رکھا ہے۔ جن کیپٹن عطا ءمحمد خان ہیں اور جادوگر حسیب پاشا ہیں۔
آخر میں کیپٹن عطا ءمحمد خان کی ایک نظم کے چند اشعار، جو انہوں نے الحمرا کے اس مشاعرے میں سنائی جو یوم آزادی کے سلسلے میں منعقد ہوا اور جس کی نظامت خود چیئرمین الحمرا آرٹس کونسل عطاءالحق قاسمی نے کی تھی:
نشاط و نُور کا درپن ہے جام آزادی
بچا کے رکھی ہے یہ جاں بنامِ آزادی
غلام ذہنوں کو اس بات کی خبر ہی نہیں
کہ زندہ قوموں میں کیا ہے مقامِ آزادی
میں اِک سپاہی، اسیری مجھے قبول نہیں
قلم بھی مَیں نے اُٹھایا بنامِ آزادی
مرِے وطن! مرِے اجداد بھی شہید ہوئے!
مرِے لہو سے ہے رنگین جام آزادی
دیے سَروں کے جلیں تب طلوع ہوتی ہے
اسیر قوموں کی قسمت میں شام آزادی
یہ وقت ان کا نشاں تک بھی رہنے دیتا نہیں
جو لوگ کرتے نہیں احترام آزادی
مرِے تمام سخن ہیں عطا وطن کے لئے
وطن پرست ہوں،مَیں ہوِںِ غلام آزادی

مزید :

کالم -