مجھے کیوں نکالا، مجھے کیوں نکالا؟
نواز شریف نے سپریم کورٹ سے نااہل ہونے کے بعد اپنے رفقائے کار سے طویل مشاورت کی اور فیصلہ یہ ہوا کہ اسلام آباد سے لاہور کا سفر جی ٹی روڈ کے ذریعے کیا جائے گا۔ یہ سفر چار روز میں مکمل ہوا۔ نوازشریف مختلف شہروں میں رات بھر قیام کرتے اورپھر دن کے آغاز پر مسلم لیگ (ن) کا قافلہ اپنے قافلہ، سالار کی قیادت میں لاہور کی جانب رواں دواں ہوجاتا۔ مختلف شہروں میں بڑے بڑے جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے جب یہ کارواں لاہور پہنچا تو داتادربار کے قریب نوازشریف نے اپنی ریلی کے آخری جلسے میں تقریر کی۔ اسلام آباد سے لاہور تک نوازشریف کی تقاریر کا مضمون واحد تھا۔ ہر تقریر کا لب لباب اور خلاصہ یہ تھا کہ سپریم کورٹ نے نوازشریف کو کیوں نکالا؟ نوازشریف اپنی تقریر میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو عوام کے مینڈیٹ کی توہین قرار دیتے رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عوام نے ان کو منتخب کرکے اسلام آباد بھیجا تھا اور پانچ بندوں نے ان کو وزارت عظمیٰ کے منصب سے فارغ کر دیا۔ نوازشریف نے یہ بھی کہا کہ 70 سال سے پاکستان میں یہ تماشا ہو رہا ہے کہ عوام کے منتخب وزیراعظم کو ذلیل اور رسوا کر کے نکال دیا جاتا ہے۔ دنیا کے کسی اور ملک میں عوام کے ووٹوں کی اس طرح تذلیل نہیں کی گئی۔ نوازشریف نے فوجی ڈکٹیٹروں پر بھی سخت تنقید کی جو عوام کے ووٹوں کی پرچیاں پھاڑ دیتے اور ملک کو منتخب وزرائے اعظم سے محروم کر دیا جاتا رہا۔ نوازشریف کی اس بات میں سچائی ہے کہ پاکستان میں سویلین حکومتوں کو بڑی بیدردی سے قتل کیا جاتا رہا، لیکن اس سے بھی بڑی حقیقت یہ ہے کہ عوام کی منتخب حکومتوں کو جب بھی ذلیل و رسوا کر کے ختم کیا جاتا رہا توایسے سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں کی بھی کمی نہیں، جنہوں نے سویلین حکومتوں کے خاتمے پر فوجی آمروں کو خوش آمدید کہا اور عوام میں مٹھایاں تقسیم کیں۔
جس جماعت کے سربراہ نوازشریف ہیں، اس کی تاریخ ہی یہ ہے کہ جب بھی کسی فوجی ڈکٹیٹر نے منتخب وزیراعظم کو چلتا کیا تو یہ جماعت ہمیشہ دو حصوں میں تقسیم ہوگئی اور جماعت کے آدھے سے زیادہ لیڈر فوجی ڈکٹیٹر کی غلامی میں چلے گئے۔ جنرل ضیاء الحق نے جب کرپشن کے جھوٹے الزامات عائد کر کے محمدخان جونیجو کو وزارت عظمیٰ کے عہدے سے فارغ کیا اور صوبائی و قومی اسمبلیوں کو بھی توڑ دیا تو نوازشریف نے اپنی ہی جماعت کے صدر اور وزیراعظم کی حمایت کرنے کی بجائے، فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے ساتھ کھڑے ہونے میں ایک لمحے کی بھی دیر نہیں کی۔ دو مرتبہ بے نظیر بھٹو کو حکومت سے نکالا گیا اور5 سال کے لئے منتخب کی گئی اسمبلی کو آدھی مدت بھی پوری نہ کرنے دی گئی۔ جب بھی بے نظیر بھٹو کی منتخب حکومت ختم ہوئی نوازشریف اور ان کے سیاسی رفقا کی خوشی دیکھنے کے لائق ہوتی تھی۔ یوسف رٖضا گیلانی کو بھی جب سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے نتیجے میں وزیراعظم کا عہدہ چھوڑنا پڑا تو اس فیصلے پر بھی نوازشریف کوئی کم خوش نہیں تھے۔ نوازشریف اب خود سپریم کورٹ ہی کے حکم سے نااہل ہوئے ہیں تو اب انہیں ملک کے ستر(70) سال کی پوری تاریخ یاد آگئی ہے۔
مجھے اس بات پر اعتراض نہیں ہے کہ نوازشریف اپنی نااہلی کے خلاف احتجاج کیوں کر رہے ہیں، لیکن تاریخ کو درست رکھنے کے لئے نوازشریف کو اپنا کردار بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ تاریخ سے سبق سیکھنے کے لئے اپنی غلطیوں کا اعتراف بھی ضروری ہے۔ جب کبھی ماضی میں عوام کے ووٹوں کی توہین کی گئی، بالخصوص 1998ء سے 2017ء تک جب بھی عوام کے ووٹوں سے منتخب اسمبلی کو توڑا گیا اور وزرائے اعظم کو غیر جمہوری طریقوں سے نکالا گیا۔ تمام سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں کو اپنے اپنے کردار کا جائزہ لینا ہوگا کہ ان مواقع پر وہ اقتدار کی چھتری تلے چلے گئے۔ اگر سیاست دان بے اصولیوں کا مظاہرہ نہ کرتے اور ان کی ہوسِ اقتدار ان کو اپنے سر فوجی آمروں کی دہلیز پر جھکا دینے پر مجبور نہ کرتی تو پاکستان کی سیاسی تاریخ پر مختلف ہوتی۔ سیاست دان اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرکے ہی فوجی آمروں کا راستہ روکنے میں کامیاب ہوسکتے تھے، لیکن ہمارے ہاں کے سیاست دانوں کا چلن ہی عجیب ہے۔ ایک منتخب حکومت ختم کی جاتی ہے تو اقتدار سے محروم سیاست دان بڑی تعداد میں ایسے ہیں جو اس موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے خود فوجی آمروں سے رابطہ کرتے، بلکہ درخواست کرتے ہیں کہ ہماری خدمات حاضر ہیں، ہمیں شرفِ قبولیت بخشا جائے۔
نوازشریف کو تو اللہ تعالیٰ کا موجودہ صورت حال میں لاکھ بار شکر گزار ہونا چاہیے کہ ان کو کسی ’’جنرل پرویز مشرف‘‘ نے نہیں نکالا۔ اگر وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو تحمل اور حوصلے سے برداشت کر کے سوچیں تو ظاہری طور پر ان کے خلاف کیا گیا یہ ’’برا‘‘ فیصلہ ان کے حق میں بہت ہی اچھا ثابت ہوسکتا ہے۔ اگر میری نحیف سی آواز نوازشریف تک پہنچ جائے تو نوازشریف یہ تکرار چھوڑدیں کہ سپریم کورٹ نے ان کے خلاف کوئی سازش کی ہے۔ یہ کہنا بھی درست نہں کہ نوازشریف کی نااہلی کا فیصلہ پہلے ہوچکا تھا، سپریم کورٹ کے محترم جج صاحبان نے جواز بعد میں ڈھونڈا ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے سے اختلاف کا حق ضرور استعمال کریں، لیکن غلط اطلاعات پر ایسا روّیہ اختیار نہ کیا جائے جو اداروں کے درمیان مخالفت کی خلیج کو اور وسیع کر دے۔ سپریم کورٹ نے جو بھی فیصلہ کیا ہے اس میں سازش کا دور دور تک کوئی شائبہ نہیں ہے۔ حال ہی میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے شریف خاندان کے افراد اور اسحاق ڈار کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کی درخواستیں ناقابل سماعت قرار دے کر خارج کر دی ہیں۔
اگر سپریم کورٹ خدانخواستہ کسی سازش اور منصوبے کا حصہ ہوتی تو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج کا فیصلہ بھی مختلف ہوسکتا تھا۔ پھر سپریم کورٹ نے نوازشریف کے خلاف سازش کرنی کیوں تھی؟ اگر بات مزید کُھل کر کی جائے تو سپریم کورٹ اکیلے کوئی سازش کر بھی نہیں سکتی، لیکن نوازشریف بلاوجہ سپریم کورٹ یا دوسرے کسی قومی ادارے کے خلاف بدگمانی کا شکار ہوئے ہیں۔ سپریم کورٹ سے نوازشریف کے خلاف کسی نے بھی اپنی پسند کا فیصلہ نہیں کروایا۔ اگر کوئی سازش ہوتو جس طرح نوازشریف کے دل میں یہ بات ہے کہ سپریم کورٹ اور جی ایچ کیو نے مل کر نوازشریف کو حکومت سے نکال باہر کیا ہے تو پھر شاہد خاقان عباسی قومی اسمبلی میں بھاری اکثریت کے ساتھ منتخب نہ ہوسکتے۔ مسلم لیگ(ن) سے تعلق رکھنے والے بہت سارے ارکان قومی اسمبلی وفاداریاں تبدیل کر چکے ہوتے۔ نوازشریف تو کسی سازش کے بغیر بھی اس حد تک کمزور ہو چکے ہیں کہ دانیال عزیز جیسا ایک عام ممبر قومی اسمبلی بھی ضد کرکے بیٹھ گیا تھا کہ اسے وزیر مملکت نہیں، وفاقی وزیر کا رتبہ چاہیے۔ اگر جی ایچ کیو کہیں سے تار ہلا دیتا تو مسلم لیگ(ن) کے اندر ہی اتنی کٹھ پتلیاں پیدا ہوجاتیں کہ نوازشریف کے لئے گنتی کرنا مشکل ہوجاتا،پھر نوازشریف شاید یہ گردان بھی بھول جاتے کہ مجھے کیوں نکالا گیا؟ مجھے کیوں نکالا گیا؟
نوازشریف کا اپنی نااہلی کے خلاف غم و غصہ جتنی جلدی کم ہوجائے، ان کے لئے بہتر ہوگا۔ اگر نوازشریف آئین اور قانون کی بالادستی کے دل سے حق میں ہیں تو وہ سپریم کورٹ کے اپنے خلاف فیصلے کا احترام کریں اور یہ احترام نظربھی آنا چاہیے۔ وہ اُس آئین اور قانون ہی کو بدل دینے کا بار بار نعرہ لگا رہے ہیں جس آئین کے مطابق ان کے خلاف سپریم کورٹ نے فیصلہ کیا ہے تو پھر ملک میں آئین اور قانون کی بالادستی قائم نہیں ہوسکتی۔ نوازشریف کو شاید خود بھی معلوم نہیں کہ وہ سپریم کورٹ کے خلاف کیا کچھ کہتے چلے جارہے ہیں۔ جب یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کے الزام میں سپریم کورٹ نے نااہل قرار دیا تو میاں نوازشریف سپریم کورٹ کے فیصلے کی تحسین کرتے ہوئے یوسف رضا گیلانی کو فوری طور پر کرسی چھوڑنے کا مشورہ دے رہے تھے، لیکن اپنے خلاف فیصلہ آنے کے بعد نوازشریف کا غصہ ٹھنڈا ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا اور اب وہ ایسے آئین اور قانون ہی کو بدل دینے کا اعلان باربار کر رہے ہیں جو سپریم کورٹ کو یہ اختیار دیتا ہے کہ کسی شخص کو ایماندار اور امین نہ ہونے کی وجہ سے نااہل قرار دیا جاسکتا ہے۔
آئین میں یہ بھی لکھا ہے کہ ملک کی سالمیت کے خلاف کام کرنے والا پارلیمنٹ کارکن منتخب نہیں ہوسکتا۔ اسلام کے احکامات سے انحراف کرنے کی شہرت رکھنے والا کوئی آدمی بھی ممبر پارلیمنٹ نہیں رہ سکتا۔ عدلیہ کی آزادی اور دیانت داری کو نقصان پہنچانے والا اور پاکستان کی مسلّح افواج یا عدلیہ کو بدنام کرنے والا شخص بھی اگر سزایاب ہوچکا ہو تو وہ پارلیمنٹ کارکن نہیں بن سکتا اور اگر وہ ممبر پارلیمنٹ ہوتو اپنی نشست سے محروم ہوجائے گا۔ قومی اسمبلی اور سینٹ کی رکنیت کے لئے اہلیت کی جتنی شرائط بھی پاکستان کے آئین میں تحریر ہیں، اس کا فیصلہ تو عدالت ہی نے کرنا ہے کہ کسی بھی ترمیم کے ذریعے عدالت کے عدل وانصاف کے اختیار کو تو ختم نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی آئین میں تحریر کی گئی پارلیمنٹ کی رکنیت کی نااہلیت کی شرائط کو اس لئے تبدیل کیا جاسکتا ہے کہ اس کی زد میں نوازشریف یا کوئی دوسرا معزز و محترم سیاست دان آسکتا ہے۔ اس طرح تو پھر ہر بڑے سے بڑا بدعنوان خائن اور ڈٹ کر حرام کا مال بنانے والا کوئی بھی شخص پارلیمنٹ کا رکن منتخب ہونے کا اہل قرار پایا جائے گا۔ نوازشریف آئین و قانون میں جو تبدیلی لانے کے داعی ہیں، آخر وہ اس تبدیلی کی حدود بھی تو بتائیں۔ کیا عوام کے ووٹوں کی عزت اسی صورت میں بحال ہوتی ہے کہ وہ اگر عدالت سے سزایافتہ مجرموں کو بھی منتخب کرنا چاہیں تو آئین میں بھی اسی کے مطابق ترمیم کر دی جائے۔
نوازشریف کا یہ کہنا بھی درست نہیں کہ سپریم کورٹ نے انہیں نااہل قرار دے کر 20 کروڑ عوام کی توہین کی ہے۔ نوازشریف کا یہ طرزعمل بھی ہرگز صحیح نہیں کہ وہ ایک جلسۂ عام یا مختلف جلسوں میں عوام سے یہ پوچھیں کہ کیا ان کو سپریم کورٹ کا فیصلہ منظور ہے؟ یا وہ اسے مسترد کرتے ہیں؟ اگر یہی سلسلہ چل نکلا تو تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے جلسوں میں بھی عوام سے یہ پوچھا جاسکتا ہے کہ کیا وہ نوازشریف کی نااہلی کے فیصلہ کی حمایت کرتے ہیں یا مخالفت؟ ظاہر ہے کہ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے جلسوں میں نوازشریف کے خلاف ہی رائے دی جائے گی، لیکن عدالتوں کے فیصلوں پر عوام سے اس طرح کا استفسار موزوں طریقہ کار نہیں ہے جس طرح عوام سے ممبران اسمبلی کو منتخب کرنے کا حق نہیں چھینا جاسکتا، اسی طرح عدلیہ کو قانونی کارروائی کا جو اختیار ہے اُسے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ عدلیہ کو بدنام کرنے کا عمل بھی درست نہیں، بلکہ ایسا ہر فعل توہین عدالت میں شمار ہوگا جو عدلیہ کے کسی جج کی تضحیک یا اس کے خلاف نفرت پھیلانے کا باعث ہو۔ افسوسناک بات تو یہ ہے کہ جس فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے نوازشریف کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا، اُس کے ساتھ تو دس سال تک کا نوازشریف نے یہ معاہدہ کر لیا تھا کہ وہ اس عرصے کے دوران نہ تو پاکستان آئیں گے اور نہ ہی ان کے خاندان کا کوئی فرد ان دس برسوں میں پاکستان کی سیاست میں کسی طرح سے بھی کوئی حصہ لے گا۔ کیا نوازشریف نے یہ معاہدہ کر کے بیس کروڑ عوام کے مینڈیٹ کی توہین نہیں کی تھی۔
ایک فوجی ڈکٹیٹر جس نے طاقت کے زور پر آئین کو معطل یا منسوخ کر دیا ہو، اگر عوام کا منتخب وزیراعظم دس سال کی مدت تک ملک ہی چھوڑ جانے کا اُس کے ساتھ معاہدہ کر لیتا ہے تو گویا وہ سنگین غداری کے ایک مجرم کے ساتھ معاہدہ کر رہا ہے جس کے خلاف آئین کے آرٹیکل چھ کا اطلاق ہوتا ہے۔ نوازشریف نے یہ معاہدہ کیا اور پھر قوم سے چھپانے کے لئے باربار جھوٹ بولا، حتیٰ کہ وہ معاہدہ پھر پوری قوم نے اپنی آنکھوں سے دیکھ بھی لیا۔ اب نوازشریف یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ملک کی تقدیر بدلنے کے لئے میدان میں نکلے ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ملک و قوم کی تقدیر ایک فوجی آمر کے سپرد کر کے انہوں نے دس سال کے لئے ملک چھوڑ کر باہر چلے جانے کا معاہدہ کیسے کر لیا تھا؟ کیا ایسا کر کے انہوں نے عوام کے ووٹوں کی عزت کی تھی یا توہین کی تھی؟ سپریم کورٹ سے نوازشریف بار باریہ سوال کر رہے ہیں کہ مجھے کیوں نکالا گیا؟۔۔۔ لیکن جنرل پرویز مشرف، جس نے پاکستان کے آئین کو اپنے بوٹوں تلے روند کر حکومت پر قبضہ کر لیا تھا، اُس سے نوازشریف نے ایک مرتبہ بھی یہ سوال نہیں کیا کہ مجھے جیل سے نکال کر سعودی عرب کیوں بھیجا جارہا ہے اور وہ بھی دس سال تک پاکستان واپس نہ آنے کے لئے۔ اس وقت تو صدرِ پاکستان محمد رفیق تارڑ کو نوازشریف نے اپنی سزا کے ختم کرنے کی درخواست بھی خود دی تھی، کیونکہ سزا کی معافی، معطلی یا ملتوی کئے جانے کی درخواست کی منظوری کے بعد ہی نوازشریف پاکستان سے باہر جا سکتے تھے۔
نوازشریف سے ہماری درخواست ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے خلاف اپنے غم و غصے کو ٹھنڈا کریں۔ نااہل ہونے کے بعد اگر انہیں ملک میں انقلاب لانے اور نیا پاکستان بنانے کا خیال آہی گیا ہے تواب نوازشریف انقلاب اور تبدیلی پاکستان کے لئے حقیقت میں کچھ کر گزریں۔ جناب نوازشریف اگر بُرا نہ مانیں تو عرض کروں کہ آپ کا تعلق اس طبقے سے ہے جس کے پاس سیم و زر کے فلک بوس پہاڑ ہیں، دوسری طرف ملک بھر میں غربت وافلاس کے عمیق غار ہر طرف نظر آرہے ہیں۔ یہ یاد رکھیں کہ آپ اور آپ کا خاندان اگر دولت کے فلک بوس پہاڑوں کا مالک بھی رہنا چاہتا ہے تو پھر آپ کا انقلاب لانے کا دعویٰ سچا نہیں ہے۔ جو طبقہ ملک کے کروڑوں عوام کی غربت و بدحالی کا اصل ذمہ دار ہے، وہ انقلاب کیسے لا سکتا ہے؟ جب تک آپ ملک سے ظالمانہ سرمایہ کاری اور جاگیرداری کے نظام کی جڑیں کاٹنے کے لئے تیار نہیں ہوں گے، اس وقت تک انقلاب کا نعرہ محض ایک فریب ہے۔ اگر دولت کا اپنی ذات اور اپنے خاندان کے لئے انبار پر انبار کھڑے کئے چلے جانے اور اپنے کارخانوں کی تعداد بڑھاتے چلے جانے کا نام انقلاب رکھا جاسکتا ہے تو ایسے انقلاب کی امید شریف خاندان کے ہر فرد سے کی جاسکتی ہے، جن کی صرف رہائش گاہوں کی قیمت اربوں روپے ہو۔ معلوم نہیں وہ ملک میں کس طرح کا انقلاب لائیں گے۔
سچی بات یہ ہے کہ نوازشریف کا سب سے بڑا مسئلہ ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ ہے؟۔۔۔ انقلاب اور نیا پاکستان نوازشریف کی منزل نہیں،کیونکہ اس منزل کی طرف جو راستہ جاتا ہے اس کا پہلا قدم یہ ہے کہ نوازشریف اس طبقے سے اپنا رشتہ توڑ دیں جو ملک میں بدحالی، غربت اور استحصال کے اصل ذمہ دار ہیں۔ 20 کروڑ عوام کو ملک کا اصل مالک کہنا آسان ہے، لیکن عوام کی حقیقی حکمرانی کا نظام آجائے، یہ ہمارے حکمرانوں کو کبھی منظور نہیں۔ چور بازاری، ناجائز منافع خوری، ٹیکس چوری اور کرپشن، یہ خود غرض اور اخلاقی و ذہنی پستی کے شکار لوگوں کے کام ہیں۔ کیا نوازشریف بتاسکتے ہیں کہ ان کے ہر دور میں ایسے مکروہ ترین جرائم میں ملوث افراد کی سرپرستی کی گئی یا قومی خزانہ لوٹنے والوں کو نشان عبرت بنانے کے لئے کچھ کیا گیا؟ پاکستان کے مادی اور معاشی وسائل کو ملک کے غریب طبقات میں انصاف کے ساتھ تقسیم کرنے کی کیا ملک کے تین مرتبہ منتخب ہونے والے وزیراعظم نوازشریف نے کبھی ایک دفعہ بھی کوشش کی ۔ کیا کبھی اس بارے میں سنجیدگی سے سوچا بھی گیا؟۔۔۔عوام کا استحصال کرنا جاگیردارانہ نظام کا ’’نصب العین‘‘ ہے۔ کیا کبھی نوازشریف کے خیال میں بھی یہ بات آئی کہ پاکستان کو جاگیرداروں کے ظلم و استحصال سے نجات دلانا بھی قیام پاکستان کا ایک مقصد تھا، کیونکہ اسلام کی تعلیمات عوام کے استحصال کی اجازت نہیں دیتیں۔
کیا کبھی نوازشریف کے تصور میں یہ بات بھی آئی کہ ملک میں ایک ایسا معاشی نظام لایا جائے جو اسلام کے انسانی مساوات اور سماجی انصاف کے سچّے تصورات پر مبنی ہو۔ نوازشریف کو اپنی تیس سال کی سیاسی زندگی اور حکمرانی کے ادوار میں شاید ایک لمحے کے لئے بھی خیال نہیں آیا ہوگا کہ اس نظام سے بغاوت کر دی جائے جو ملک میں غریب طبقات کو غریب تر اور امیر طبقوں کو امیر تر بنانے کا باعث ہے۔ تاجر برادری کو اپنی دولت و ثروت کو مزید ترقی دینے سے فرصت ہی کہاں کہ وہ غریب اور بدحال طبقوں کے لئے کچھ سوچے۔ کیا نوازشریف اپنی وزارت عظمیٰ کے کسی بھی دور میں یہ ثابت کر سکے ہیں کہ ان کی حکومت عوام کی حقیقی خادم اور دوست ہے اور واقعی عوام کے ووٹوں کے تقدس کا احساس ان کے دل میں موجود ہے۔ اپنی نااہلی اور وزارتِ عظمیٰ سے محرومی کے بعد عوام کے ووٹوں کے تقدس کا خیال آیا بھی تو اس کا کیا فائدہ؟ ویسے بھی جس شخص کے معیار زندگی اور ملک کے ایک عام آدمی کے معیار زندگی کے درمیان ہزاروں کلومیٹر کا فاصلہ ہو اور یہ فاصلہ کم ہونے کی بجائے بڑھتا ہی جا رہا ہو، اُس آدمی سے غریب طبقات کے حق میں انقلاب لانے کی اُمید کیسے کی جاسکتی ہے؟ پاکستان کے 20کروڑ عوام کے ووٹوں کا تقدس بھی اسی صورت میں بحال ہو سکتا ہے، جب عوام اپنے حقوق کی حفاظت کے لئے خود اٹھ کھڑے ہوں گے۔ نوازشریف ہوں یا آصف علی زرداری، حتیٰ کہ عمران خان بھی اب جن لوگوں کے گھیرے میں آچکے ہیں۔ ان میں سے کسی کا ایجنڈا بھی خلق خدا کی حقیقی حکمرانی نہیں