برطانیہ کا سیاسی بحران

برطانیہ کا سیاسی بحران
برطانیہ کا سیاسی بحران

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ایک زمانہ تھا جب برطانوی انتخابات براہ راست برصغیر پر بھی اثر انداز ہوتے تھے۔1947ء سے پہلے برصغیرکے لئے برطانوی انتخابات کی اہمیت اس لئے زیادہ تھی کہ برطانیہ کے انتخابات میں حصہ لینے والی جماعتیں اپنے پروگرام اور منشور میں واضح طور پر بتاتیں کہ وہ’’برطانوی تاج کے ہیرے‘‘ (ہندوستان )کے بارے میں کیا پالیسی اختیار کریں گی؟ یہی وجہ ہے کہ برصغیر میں اس وقت کی فعال سیاسی جماعتیں بھی ان برطانوی انتخابات کا بغور مشاہدہ کرتیں کہ برطانیہ میں کس جماعت کو اقتدار ملنے کی صورت میں برصغیر کو کیا فائدہ اور کیا نقصان ہوگا؟۔۔۔ 1945ء کے برطانوی انتخابات ہندوستان کے لئے بہت زیادہ اہمیت کے حامل تھے، کیونکہ ان انتخابات میں لیبر پارٹی نے اپنے دم پر اکثریت حاصل کی تو ہندوستان میں کانگرس سمیت کئی حلقوں کی جانب سے خوشی کا اظہار کیا گیا۔ لیبر پارٹی نے اپنے پروگرام میں واضح کیا تھا کہ وہ برصغیر میں آزادی کی تحریکوں کی شدید مقبولیت کے باعث برصغیرکے مستقبل کا فیصلہ برصغیرکے عوام کو کرنے کا بھرپور موقع دے گی۔ یقیناً آج ایسی صورت حال نہیں کہ برطانوی انتخابات برصغیر کو یوں براہ راست اثر انداز کرتے ہوں۔ آج برصغیر کے تینوں ممالک بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش آزاد ممالک کی حیثیت سے اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہیں، مگر اس کے باوجود اب اگر برطانوی انتخابات کا برصغیر پر کوئی اثر نہیں ہوتا، تو یہ حقیقت اپنی جگہ پر قائم ہے کہ آج بھی برطانیہ میں دس لاکھ سے زائد پاکستانی بستے ہیں، پاکستانیوں کی اتنی بڑی تعداد کے باعث اسی برطانیہ کی سیاسی جماعتیں کئی علاقوں سے پاکستانی امید واروں کو ٹکٹ دینے پر مجبور ہوتی ہیں۔ ان انتخابات میں بھی 650 رکنی ایوان میں 12 افراد ایسے منتخب ہوئے ہیں، جن کا پاکستان سے بالواسطہ اور بلاواسطہ کا تعلق ہے۔


اس ساری صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے، اگر حال ہی میں ہونے والے برطانوی انتخابات کا جائزہ لیں، تو معلوم ہوگا کہ برطانوی انتخابات کے بعد تھریسامے نے ڈیموکریٹک یونینسٹ پارٹی (ڈی یو پی) کے ساتھ اپنی حکومت تو بنالی ہے، مگر برطانوی انتخابات کے نتائج سے ثابت ہورہاہے کہ برطانیہ مسلسل ایک بحران کی جانب بڑھ رہاہے۔ کنزرویٹو پارٹی یا ٹوری پارٹی کے اندرونی تضادات کے باعث سابق ٹوری وزیر اعظم کیمرون نے یورپی یونین میں رہنے یا نہ رہنے پر ریفرنڈم کروا کر ایک طرح کا سیاسی جوا کھیلا،کیونکہ اکثر سرویز یہ ثابت کر رہے تھے کہ برطانیہ کی بھاری اکثریت یورپی یونین میں رہنے کے لئے ووٹ ڈالے گی، یو ں کیمرون (جو یورپی یو نین کے ساتھ رہنے کے حامی تھے) اپنی پارٹی میں مضبوط ہوکر یورپین یونین سے باہر نکلنے کے حامی ٹوری سیاستدانوں پر حاوی ہوجائیں گے، مگر کیمرون یہ سیاسی جوا ہار گئے اور انہیں مستعفی ہونا پڑا۔ اسی طرح وزیر اعظم تھریسامے نے بھی کنزرویٹو پارٹی میں تضادات کے باعث قبل ازوقت انتخابات کروانے کا سیاسی جوا کھیلا۔برطانوی میڈیا اور سرویزیہ ثابت کررہے تھے کہ کنزرویٹو پارٹی (ٹوری) بھاری اکثریت سے کامیاب ہوگی، اکثر سرویز کے مطابق تھریسامے کی کنزرویٹو پارٹی کو لبیر پارٹی کے مقابلے میں 20فیصد زائد ووٹ ملنے کا امکان تھا، اس لئے تھریسامے نے اسی امید پر قبل ازوقت انتخابات کروانے کا فیصلہ کیا کہ وہ بھاری اکثریت سے کامیاب ہوکر ایک بڑے مینڈیٹ کے ساتھ یورپی یونین سے باہر نکلنے کے حوالے سے تقاضے پورے کر نے کے قابل ہوں گی۔ تھریسامے وزیر اعظم بننے میں کامیاب تو ہوگئیں، مگر ان کی13 نشستیں پہلے کے مقابلے میں کم ہوچکی ہیں، ان کو 650رکنی ایوان’’ہاوس آف کامنز‘‘ میں 318 نشستیں حاصل ہوئی ہیں اور اب اپنی حکومت قائم رکھنے کے لئے تھریسامے کو ’’ڈی یو پی‘‘کی بیساکھی کی ضرورت پڑے گی۔


اقتدار کی ہوس یقیناًایک ایسا انسانی مسئلہ ہے، جس کا رنگ، نسل، مذہب اور جغرافیہ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، یہی وجہ ہے کہ دنیا کے دوسرے ملکوں کی طرح برطانیہ میں بھی سیاستدان محض اقتدارکے حصول کے لئے اصولوں کی قربانی دینے کے لئے تیار رہتے ہیں،اس کی ایک مثال تھریسامے کا ’’ڈی یوپی‘‘ سے اتحا د ہے۔ ڈی یو پی سراسر ایک فرقہ وارانہ جماعت ہے، جو 1970ء کی دہائی میں شمالی آئرلینڈ میں کیتھولک فرقے کے پیروکاروں کے خلاف وجود میں آئی تھی۔ اس جماعت کا مقصد ہی یہ ہے کہ پروٹسٹنٹ فرقے کے پیرو کاروں کو کیتھولکس کے خلاف بھڑکا کر سیاست کی جائے، مگر اب سیکولر اور لبرل سیاست کی علمبردار کنزرویٹو پارٹی نے دس ارکان کی حمایت حاصل کرنے کے لئے اسی جماعت سے اتحاد کرلیا۔ ان انتخابات میں برطانوی لیبر پارٹی نے 262 نشستیں حاصل کیں، یوں 2015ء کے انتخابات کے مقابلے میں لیبر پارٹی نے 30نشستیں زائد حاصل کی ہیں۔ لیبر پارٹی کے لیڈر جیرمی کوربن کی پوزیشن اب اپنی پا رٹی میں بہت مضبوط ہوچکی ہے۔ لیبر پارٹی کے لیڈر جیرمی کوربن واضح طور پر اشتراکی نظریے سے وابستگی رکھتے ہیں۔ تعلیم اور صحت سمیت کئی شعبوں میں ریاست کے کردار کے حامی ہیں۔ جیرمی کوربن کے انہی نظریات کے باعث جیرمی کوربن کی لیبر پارٹی کے اندر بھی بڑی مخالفت تھی، خاص طور پر لیبر پارٹی میں موجود ٹونی بلیر کے حامی ارکان کوربن کے سخت مخالف رہے ہیں۔ برطانوی وزیر اعظم تھریسامے کا خیال تھا کہ جیرمی کو ربن کے باعث لیبر پارٹی اتنی کمزور ہوچکی ہے کہ ٹوری کو کسی اپوزیشن کا سامنا ہی نہیں کرنا پڑے گا، مگر تھریسامے کا یہ خیال سراسر غلط ثابت ہوا، کیونکہ جیرمی کوربن نے اپنی قیادت میں لیبر پارٹی کو پہلے کے مقابلے میں زیادہ مقبول کر دیا۔ خاص طور پر بر طانیہ کی نوجوان نسل نے جیرمی کوربن کے تحت لیبر پارٹی پر اپنے مکملاعتمادکا اظہار کیا۔ برطانوی میڈیا کے جائزوں کے مطابق 18سے 25 سال تک کی عمر کی نوجوان نسل کے68فی صد ووٹروں نے جیرمی کوربن کے پروگرام سے متاثر ہوکر لیبر پارٹی کو ووٹ دیا۔انتخابات سے پہلے تھریسامے کے غرور کا یہ حال تھا کہ بی بی سی نے جب ایک ایسے پروگرام کا انعقاد کیا، جس میں اہم برطانوی جماعتوں کے لیڈروں کو مکالمے کے لئے بلایا گیا تو تھریسامے نے ایسے پروگرام میں آنے سے انکار کر دیا،جس میں اس کے مقابلے میں ’’چھوٹے‘‘ لیڈروں کو بلایا گیا تھا۔


حقیقت میں تھریسامے کا ایسے پروگرام میں شریک نہ ہونا سیاسی اعتبار سے بہت بڑی غلطی تھی۔ اس پروگرام میں جیرمی کوربن سمیت دوسری پارٹیوں کے لیڈروں نے یہ دعویٰ کیا کہ چونکہ تھریسامے میں یہ صلاحیت ہی نہیں کہ وہ دوسرے نظریات رکھنے والوں سے مکالمہ کرپائیں، اس لئے تھریسامے اس پروگرام میں شریک نہیں ہوئیں۔ اپوزیشن لیڈروں کے اس دعوے کا ووٹروں پر اثر پڑا ہو گا، اس لئے کنزرویٹو پارٹی کو مطلوبہ اکثریت حاصل نہیں ہوپائی۔خود کنزرویٹو پارٹی کے بہت سے سینئر راہنماوں نے بھی اس بنا پر تھریسامے کی مخالفت کی کہ وہ انتخابی مہم پارٹی کے پروگرام پر نہیں،بلکہ اپنی شخصیت کو بنیاد بناکر چلا رہی ہیں ۔ تھریسامے کی اس بناپر بھی مخالفت کی گئی کہ وہ انتخابی مہم کے دوران اپنے پرائیویٹ جہاز اور ہیلی کا پٹر کا استعمال کرتی رہیں۔ دوسری طرف لیبر پارٹی کے راہنما جیرمی کوربن عام افراد کے ساتھ بسوں اور ٹرینوں میں سفر کرکے اپنی انتخابی مہم چلاتے رہے، یہی وجہ ہے کہ جیرمی کوربن کے جلسوں میں عوام بڑی تعداد میں شریک ہوتے اور تھریسامے کے جلسوں میں صرف کنزرویٹو پارٹی کے کارکن ہی شریک ہو تے۔۔۔جیسا کہ آرٹیکل کے آغاز میں بیان کیا گیا ہے کہ بے شک تھریسامے وزیر اعظم بننے میں کامیاب تو ہوگئی ہیں، مگر ان انتخابات سے برطانیہ کا سیاسی، معاشی اور سماجی بحران بھی آشکار ہوا ہے۔ برطانیہ میں حکومت قائم کرنے کے لئے ایک فرقہ وارانہ جماعت کا سہارا لیا گیا۔ ان انتخابات نے ثابت کیا کہ برطانیہ کے شمال اور جنوب میں سیاسی تفریق بڑھ چکی ہے۔

جیسے جنوبی برطانیہ میں کنزرویٹو پارٹی اور لندن اور شمال کا علاقہ ایک طرح سے لیبر پارٹی کا مضبوط سیاسی قلعہ بن چکا ہے۔ نوجوان اور پرانی عمر کے افراد کے مابین بھی سیاسی تفریق واضح طور پر ابھر کر سامنے آئی ہے، جیسے60سال سے بڑی عمر کے ووٹروں کا رجحان کنزرویٹو پارٹی، جبکہ نوجوانوں کی اکثریت لیبر پارٹی کے حامی کے طور پر سامنے آئی۔ سب سے بڑھ کر ان انتخابات میں ایک ایسا بکھرا ہوا اورپینگ مینڈیٹ سامنا آیا ہے جو مستقبل قریب میں برطانیہ کے اندر کسی بڑے سیاسی بحران کو جنم دینے کا سبب بن سکتا ہے۔

مزید :

کالم -