وہ ایک خط جو ہمیں ایٹمی طاقت بناگیا

وہ ایک خط جو ہمیں ایٹمی طاقت بناگیا
 وہ ایک خط جو ہمیں ایٹمی طاقت بناگیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

یہ حقیقت تو تقریباً سب کو ہی معلوم ہے کہ آج پاکستان اگر ایک ایٹمی طاقت ہے تو وطن عزیز کے لئے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھنے والے ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ امریکہ نے پاکستان میں ایٹمی پروگرام کا آغاز کرنے پر پاکستان کو سنگین نتائج بھگتنے کی دھمکیاں دی تھیں، لیکن ذوالفقار علی بھٹو نے بھی یہ تاریخی اعلان کیا تھا کہ ہم گھاس کھا لیں گے،پاکستان کو ایٹمی طاقت بنا کر رہیں گے۔۔۔شاید بہت کم لوگوں کو یہ علم ہوگا کہ پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے میں میاں عبدالوحید کا کردار بھی بہت اہم رہا ہے۔ میاں عبدالوحید جنرل ضیاء الحق مرحوم کے فرسٹ کزن ہیں۔ وہ قومی اسمبلی کے رکن بننے سے پہلے اٹلی اور جرمنی میں پاکستان کے سفیر رہ چکے ہیں۔ میاں عبدالوحید جب وزارت خارجہ اسلام آباد میں ڈائریکٹر مغربی یورپ کے عہدے پر فائز تھے۔ ستمبر 1974ء میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ہالینڈ سے جو خط پاکستانی سفیر کے ذریعے ذوالفقار علی بھٹو کے نام بھیجا تھا، اسلام آباد میں وہ خط میاں عبدالوحید ہی کو موصول ہوا تھا۔ میاں عبدالوحید نے اس خط کے حوالے سے ایک سمری تحریر کی اور خط وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی خدمت میں بھیج دیا گیا۔ یہ خط ہی وہ نقطہۂ آغاز تھا، جس کے نتیجے میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو پاکستان کا ایٹم بم بنانے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ اگرچہ پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن کے چیئرمین منیر احمد خان اپنے ادارے کے ذریعے بھی پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کے لئے کوششوں میں مصروف رہے،لیکن وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت کا آغاز ہو چکا تھا۔ جب وہ بھی اس نتیجے پر پہنچے کہ منیر احمد خان کبھی پاکستان کے لئے ایٹمی بم نہیں بنا سکیں گے تو انہوں نے بھی اپنی تمام امیدیں ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے وابستہ کرلیں۔ اس وقت چار آدمیوں کے علم میں یہ بات تھی کہ پاکستان اب جلد ہی ایٹمی طاقت بننے جارہا ہے۔ جنرل ضیاء الحق ، جنرل ضامن نقوی اور خود ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے بعد چوتھے آدمی میاں عبدالوحید تھے،جن کو حقیقی صورت حال کا علم تھا کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام کن مراحل کو عبور کر چکا ہے۔


10دسمبر1984ء کو ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ایک خط لکھ کر باضابطہ طور پر جنرل ضیاء الحق کو مطلع کردیا کہ ہم ایٹم بم بنانے میں کامیاب ہو چکے ہیں اور حکومت اگر فیصلہ کرے تو صرف دس دن کے اندر ایٹمی دھماکے کرکے پوری دنیا کو پاکستان کے ایٹمی طاقت بن جانے کی اطلاع دی جاسکتی ہے۔۔۔ اب آتے ہیں بطور سفارت کار میاں عبدالوحید کے اس کردار کی طرف جو انہوں نے مغربی جرمنی میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے لئے مطلوبہ سامان کی خریداری کے لئے سرانجام دیا۔ مغربی جرمنی سے یورینیم کی افزودگی کے لئے جو UF6 اور کولیکشن سسٹم حاصل کیا گیا، اس میں ایک اور پاکستانی سفارت کار اکرام الحق کا کردار بھی بہت اہم رہا۔ یہ پلانٹ امریکی بحری جہاز کے ذریعے پہلے دبئی، پھر پاکستان بھیجا گیا تاکہ اس کی ترسیل کو خفیہ رکھا جاسکے۔ ایٹمی پروگرام سے متعلق بہت سارا سامان پی آئی اے اور کبھی پاکستان ائیر فورس کے طیارے سی۔ 130کے ذریعے بھی پاکستان بھیجا گیا۔ پاکستان میں بجلی کی کمی کا سامنا رہتا ہے۔ لوڈشیڈنگ کے باعث سنٹری فیوجز کو نقصان پہنچ سکتا تھا۔ اس مسئلے کے حل کے لئے برطانیہ سے بڑے حجم کے یو پی ایس(انور ٹرز) تقریباً 30کی تعداد میں خریدے گئے۔ کہوٹہ پلانٹ کے لئے فرانس سے بھی کچھ سامان خریدا گیا، لیکن اسے بھی خفیہ رکھنے کے لئے سامان پہلے سڑک کے ذریعے سوئٹرز لینڈ بھیجا گیا، وہاں سے یہ سامان ہوائی جہاز کے ذریعے پاکستان پہنچا۔

پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو آگے بڑھانے کے لئے جنرل ضیاء الحق کے دور میں بڑی سنجیدگی اور محنت سے کام کیا گیا۔ میاں عبدالوحید چونکہ جنرل ضیاء الحق کے فرسٹ کزن ہونے کے علاوہ انتہائی تجربہ کار اور جرمنی میں بڑا اثرورسوخ رکھنے والے سفیر تھے، اس لئے ان کی سفارت کے دور میں پاکستان کے ایٹمی اور میزائل پروگرام کے لئے سامان کی بہت زیادہ خریداری کی گئی۔میاں عبدالوحید نے کالم نگار کو ایک ملاقات میں بتایا کہ یہ تمام ترکہانیاں من گھڑت اور بے بنیاد ہیں کہ کچھ لوگ یہ پروپیگنڈا کرتے رہے ہیں کہ پاکستان نے کچھ مشہورسمگلروں کو پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے لئے مطلوبہ سامان حاصل کرنے کے لئے استعمال کیا تھا۔ میاں عبدالوحید کہتے ہیں کہ سونا یا منشیات وغیرہ کی اسمگلنگ میں ملوث افراد کی ایٹمی سامان بنانے والے اداروں تک رسائی ممکن ہی نہیں تھی۔ میاں عبدالوحید نے کہا کہ وہ بیرون ملک ان تمام اداروں کا نام آن دی ریکارڈ بتاسکتے ہیں، جہاں سے مجھ سمیت ہمارے دیگر سفارت کاروں نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے لئے سامان خریدا،کیونکہ پاکستان کے ایٹمی طاقت بن جانے کے بعد اب کوئی بات خفیہ رکھنے کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ میاں عبدالوحید نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے ایٹمی پروگرام کا آغاز کیا تھا اور اس کو پایۂ تکمیل پہنچادینے میں جنرل ضیاء الحق نے تاریخی کردار ادا کیا تھا، لیکن ایٹمی دھماکوں کے جرأت مندانہ فیصلے کا کریڈٹ میاں نواز شریف کو جاتا ہے اور سب سے بڑھ کر بات یہ ہے کہ پاکستان کے ایٹمی بم کا اگر کوئی واحد شخص معمار ہے تو وہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی شخصیت ہے۔


میاں عبدالوحید نے انتہائی جذباتی ہوتے ہوئے کہا کہ وہ جنرل پرویز مشرف کو پاکستان کا بدترین حکمران سمجھتے ہیں، کیونکہ پرویز مشرف نے بلاوجہ اور بلاجواز پاکستان کے عظیم ہیرو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی تذلیل کرنے کی کوشش کی ،جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر اے کیو خان کی وفاداری ، حب الوطنی، عظمت اور کریڈ بیلٹیکو چیلنج ہی نہیں کیا جاسکتا۔ میاں عبدالوحید کہتے ہیں کہ ایک عدالت میں دستور پاکستان کو منسوخ یا معطل کرنے کے جرم میں سنگین غداری کا مقدمہ جنرل پرویز مشرف کے خلاف زیر سماعت ہے اور وہ بیماری کا بہانہ بنا کر پاکستان سے بھاگ گئے ہیں،لیکن میرے نزدیک جنرل پرویز مشرف کا ملک سے غداری سے بھی بڑا جرم یہ ہے کہ انہوں نے ایک ایسے شخص کو امریکہ کے دباؤ میں آکر بدنام کرنے کی جسارت کی، جس نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنا کر ہمارے ملک کے دفاع کو ناقابل تسخیر بناڈالا۔ میاں عبدالوحید نے کہا کہ ہم کیا ہماری آئندہ نسلیں بھی ڈاکٹر اے کیو خان کے اس احسان کو فراموش نہیں کرسکتیں جو انہوں نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بناکر ہم پر کیا ہے۔ میاں عبدالوحید نے مزید کہا کہ ایک سفارت کار کے طور پر پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو آگے بڑھانے کے لئے ہم نے جو بھی کردار ادا کیا اور پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کے لئے ہم نے کسی قانون کی خلاف ورزی کئے بغیر جہاں جہاں سے جو سامان بھی خریدا،اس سارے عمل میں ہمیں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی راہنمائی حاصل رہی۔

مزید :

کالم -