اپنے ہی منہ پر تھپڑ مارنے کا شوق

اپنے ہی منہ پر تھپڑ مارنے کا شوق
 اپنے ہی منہ پر تھپڑ مارنے کا شوق

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

آپ نے سیاسی اور دفاعی اداروں کے درمیان خلیج بڑھاتی ہوئی ایک تجزیہ نما خبر دی او ر اسے آزادی صحافت کا نام دیا گیا اور اب آپ نے سی پیک کے حوالے سے بہت سارے سوالات اٹھا دئیے ہیں تو کیا آپ اس مرتبہ بھی اسی دلیل کا استعمال کریں گے جب آپ ملک میں تعمیر وترقی اور خوشحالی کے ضامن بننے والے چین پاکستان اکنامک کوریڈور کے عین افتتاح کے موقعے پر ملک میں امن و امان کے مسئلے کو اٹھا رہے ہوں گے، جب کہہ رہے ہوں گے کہ پاکستان ایک برس کے دوران دو ارب ڈالر سے زیادہ سرمایہ کاری برداشت ہی نہیں کر سکتا، جب متعلقہ وزارتوں کا موقف لئے بغیر سیف سٹی پراجیکٹس پر تشویش کا اظہار کر رہے ہوں گے، سی پیک کے منصوبوں کے فریم ورک پر دستخطوں میں پیپلزپارٹی کے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور پی ٹی آئی کے وزیراعلیٰ پختونخوا پرویز خٹک کی موجودگی کو نظر انداز کرتے ہوئے کہہ رہے ہوں کہ صوبوں کو اعتماد میں نہیں لیا گیا،آپ پاکستان کے زرعی اور صنعتی شعبے میں سرمایہ کاری پر بھی اعتراض کریں تو مجھے پوچھنا ہے کہ اگر آپ پاکستان میں صحافت کرتے ہوئے یہ زہر اگلیں گے تو امریکہ، اسرائیل اور خاص طور پر انڈیا والے کیا کریں گے،وہ انڈیا جو اس وقت تین براعظموں کوملانے والے عظیم الشان منصوبے ون بیلٹ ون روڈ میں تنہا ہو کے رہ گیا ہے؟


میں جانتا ہوں کہ ایک صحافی کے اندرچھپنے اور ڈسکس ہونے کی طلب اسے بے چین کئے رکھتی ہے لہذا عقل اور منطق جاتی ہے تو جائے تیل لینے ۔بہت برس پہلے کی بات ہے کہ آل پارٹیز حریت کانفرنس کے کچھ رہنماوں نے شاہراہ قائداعظم پر ایوان وزیراعلیٰ میں شہباز شریف سے ملاقات کی، اس وقت بھارت مقبوضہ کشمیر میں اپنی کٹھ پتلی انتطامیہ کے ذریعے انتخابات کا ڈرامہ رچا رہا تھا، ہمارے ایک صحافی دوست نے اے پی ایچ سی کے وفد کے رہنما سے سوال کیا، آپ اگر کشمیر میں عوامی حمایت رکھتے ہیں تو آپ انتخابات سے راہ فرار کیوں اختیا ر کر رہے ہیں، میں سوال کے لئے چنے گئے موضوع اور الفاظ کے استعما ل پر حیران رہ گیا مگر ہمارا وہ صحافی دوست اپنے موقف پر قائم تھا، اسے یہ بھی اندازہ نہیں تھاکہ ایک پاکستانی صحافی کا پاکستان کے دل میں حریت کانفرنس سے کیا گیا سوال کس طرح استعمال ہو سکتا ہے۔میری نظر میں میڈیا میں کسی بھی خبر یا تجزئیے کو رپورٹ کر دینے کی اہلیت ہی کافی نہیں ہوتی، ہاں، اگر آپ اسے رپورٹر لیول کی دانش تک محدود کریں تو گنجائش نکالی جا سکتی ہے مگر جب معاملہ ایڈیٹر لیول پر جاتا ہے تووہاں خبر اور تجزئیے کی صحت کے ساتھ ساتھ اس کے اثرات کا بھی جائزہ لیا جاتا ہے۔ مجھے کہنے میں عار نہیں کہ اگر ہندوستان ٹائمز سی پیک کے بارے کوئی تجزیاتی رپورٹ شائع کرتا یا کسی ورکنگ رپورٹ سے پیراگرافوں کا چناو کرتا تو وہ سوفی صد یہی ہوتے۔ آپ اس تحریر کوحب الوطنی کے روایتی بیانئیے میں گندھا ہوا ایک موقف سمجھ سکتے ہیں مگر بعض اوقات روایات کی پاسداری اس لئے بھی ضروری ہو جاتی ہے کہ وہ ہماری اجتماعی دانش سے تشکیل پاتی ہیں اور انہیں کسی انفرادی مہم جوئی کے ذریعے نہیں ڈھانے کی مزاحمت کی جانی چاہئے۔


انگریزی اخبار میں شائع ہونے والے مسودے کے مطابق چین سی پیک کے راستے میں�آنے والے اہم راستوں اور شہروں کی نگرانی کرے گا،خنجراب سے اسلام آباد اور سکھر سے کراچی تک فائبر آپٹک لنک بچھایا جائے گا، ان کے علاوہ سیف سٹی پراجیکٹس ہوں گے اور کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹرز بھی بنائے جائیں گے مگر ان کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹرز کی نگرانی کون کرے گااور کنٹرول کیسے کیا جائے گا اس کی تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔ مجھے سوال اٹھانے والے کے آئی کیو لیول پر حیرانی ہے۔ وہ یہ سوال کرتے ہوئے دو اہم باتیں بھول جاتا ہے کہ پہلی یہ کہ پاکستان کے اندر پاکستان کے عوا م کے ووٹوں سے منتخب کی ہوئی ایک آئینی اور قانونی حکومت موجود ہے جو پاکستان کے مفادات کا تحفظ کرنے کی اہلیت ثابت کر چکی ہے اور اگر کچھ سیاسی حلقوں کو سیاسی حکومت سے تحفظات ہیں تو یہاں ایک فوج بھی موجود ہے جو براہ راست سی پیک کے تمام منصوبوں کی نگرانی کر رہی ہے اور اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی منتخب حکومت اور ریاستی فوج دونوں مل کر بھی قومی مفادات کے تحفظ کے قابل نہیں ہیں اور آپ ان کے مقابلے میں چند نامعلوم ذرائع سے حاصل کئے گئے پیراگرافس کی بنیاد پر اپنے دفتر میں بیٹھے بیٹھے سی پیک کی تفصیلات طے کرنے والوں سے زیادہ باخبر، اہل اور محب وطن بن چکے ہیں تو اس پر آپ کو سلیوٹ ہی کیا جا سکتا ہے اور مجھے عرض کر نے دیجئے کہ آپ جس کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کی بات کر رہے ہیں، اگر میں غلط نہیں ہوں تو، اس کا حصول اتنا آسان ہے کہ آپ گوگل کو چندسو یا ہزار ڈالر دے کر دنیا کے بہت سارے ممالک کی لائیو نگرانی کر سکتے ہیں۔ یہ کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم مقامی سطح پر اپنے انتظام کو بہتر کرنے کے لئے استعمال ہوتے ہیں جس طرح لاہور میں سیف سٹی پراجیکٹ لگایا گیا ہے۔


خبرکی بدنیتی اس سے بھی واضح ہو جاتی ہے کہ ابھی شہر بسا نہیں اور یہاں لٹیروں کی باتیں پہلے کی جانے لگی ہیں، مقصد صرف یہ ہے کہ سی پیک سے لوگوں کو بدظن کیا جائے، ایک طرف محترم آصف علی زرداری خیبرپختونخواہ میں جا کے سی پیک کے حوالے سے پنجاب کے خلاف پروپیگنڈہ کر رہے ہیں تو دوسری طرف ایسی باتیں بھی کی جار ہی ہیں کہ اگر چین کان کنی کرے گا تو کیا چین کے پاس کان کنی کی صلاحیتیں موجود ہیں اور یہ کہ کیا چین لیبر کے مفادا ت کا خیال رکھے گا۔میں اتنا جانتا ہوں کہ پاکستان میں وہ وقت آنے والا ہے کہ آپ کو سول اور پھر بعد میں مکینیکل انجینئر ڈھونڈنے سے نہیں ملیں گے، پہلے تو لیبر اس وقت شارٹ ہوتی تھی جب فصلوں کی کٹائی کا موسم ہوتا تھا مگر آنے والے دنوں میں لیبر مستقل شارٹ ہو گی، ہنر مند تو ایک طرف رہے غیر ہنر مندوں کی دیہاڑیاں بہت بڑھ جائیں گی۔ سی پیک کے تحت صرف کراچی سے پشاور تک مین لائن کی اپ گریڈیشن سمیت محض ریلویزکے لئے آٹھ ارب ڈالر سے زائد کے منصوبے ہیں،پشاور اور کوئٹہ کے ماس ٹرانزٹ منصوبے کراچی سرکلر ریلوے سے الگ ہیں۔


ہمارے اس عقل مند اور محب وطن دوست صحافی نے اپنی رپورٹ میں بیان کر دہ ماسٹر پلان میں چین کی طرف سے سیاسی اور سیکورٹی خدشات کا بھی تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے یعنی جن خطرات کو سامنے رکھتے ہوئے چین سرمایہ کاری کر رہا ہے، پوری دنیا کے سامنے ون بیلٹ ون روڈ کانفرنس میں وعدے کر رہاہے، وہ ایک مسئلہ ہیں، بھائی، یہ مسئلہ تو چین کے لئے ہونا چاہئے اور اس پر پاکستان کی بجائے چین کے اخبارات بلکہ مجھے کہنے دیجئے کہ انڈیا، امریکہ اور اسرائیل کے اخبارات کو پروپیگنڈا کرنا چاہئے۔ ہم نے اس امن کے حصول کے لئے اربوں روپے ہی خرچ نہیں کئے بلکہ دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کو نیست و نابود کرتے ہوئے اپنے جوانوں، اپنے بھائیوں اور بیٹوں کی جانیں بھی قربان کی ہیں۔یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان کی معیشت سالانہ دو ارب ڈالر سے زیادہ بیرونی سرمایہ کاری برداشت نہیں کر سکتی اور مجھے تو اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے بھی عجیب محسوس ہو رہا ہے کہ یہ اعتراض اپنے ملک ہی کے ایک اخبار میں شائع ہوا ہے جسے آزادی صحافت کی شدید ترین بد ہضمی ہو چکی ہے۔


یہ درست امر ہے کہ جب کوئی بھی بینک ، ادارہ یا ملک کہیں سرمایہ کاری بارے سوچتا ہے تو وہاں کے حالات کی پوری رپورٹ تیار کرتا ہے۔مثبت اور منفی تمام پہلووں کا علیحدہ علیحدہ جائز ہ لیا جاتا ہے۔ باخبر ذرائع کے مطابق یہ چائینہ ڈویلپمنٹ بنک کی ایک رپورٹ ہے جس میں اس نے تمام خطرات کا احاطہ کیا ہے لیکن اس رپورٹ کے باوجود اگرچین کابنک اور چین کی حکومت پاکستان میں بھاری سرمایہ کاری کا فیصلہ کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس رپورٹ کو مسترد کرتی ہوئی اس سے کہیں زیادہ موثر اور مدلل کوئی دوسری رپورٹ بھی ہے جو پاکستان میں سرمایہ کاری کو محفوظ اور فائدہ مند قرار دیتی ہے مگر ہم اسے ہائی لائیٹ نہیں کر رہے۔ یہ درست کہ اہل سیاست اور اہل صحافت الگ الگ ہیں مگر جب پاکستان کی ترقی کی بات ہوتی ہے تو ہم سب کو ایک ہی ہونا چاہئے۔ کسی سیانے نے کہا کہ کسی محفل میں اپنے آپ کو برا مت کہو اور یہ کام اپنے دشمنوں اور حاسدوں کو کرنے دو۔ہم کون لوگ ہیں جنہیں اپنے ہی منہ پر تھپڑ مارنے کا شوق ہے؟

مزید :

کالم -