کیپٹن حسنین کی شہادت پر۔۔۔۔۔۔

کیپٹن حسنین کی شہادت پر۔۔۔۔۔۔
 کیپٹن حسنین کی شہادت پر۔۔۔۔۔۔

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

5سال قبل جس اغوا شدہ خاندان کو پاک آرمی نے ایک دلیرانہ ایکشن میں بازیاب کرکے واپس کینیڈا/ امریکہ بھجوا دیا تھا اگلے روز اس کی تمام تفصیلات خود ڈی جی آئی ایس پی آر نے ایک خصوصی کانفرنس میں بتا دی تھیں۔ اس آپریشن میں اگرچہ امریکہ کی طرف سے حساس تکنیکی آلات کی مدد سے ملنے والی انٹیلی جنس کی بنیاد پر کارروائی کی گئی تھی جس کا اعتراف خود صدر ٹرمپ نے دوبار خود ٹیلی ویژن پر آکر کیا مگر پھر بھی بعض حلقے اس کو حقانی گروپ کے ساتھ کسی ڈیل کا نتیجہ قرار دینے لگے تو اس تاثر کو زائل کرنے کے لئے جنرل آصف غفور کو وہ تفصیلات بتانی پڑیں جو امریکی انٹیلی جنس کے موصول ہونے کے بعد پاکستان کی طرف سے بروئے کار لائی گئی تھیں۔ جنرل صاحب نے بتایا کہ جب دہشت گردوں کی گاڑی کے ٹائر پنکچر کرکے اس کو روکا گیا تو اس میں تین چار اغواء کار نکل کر بھاگ گئے تھے اور نزدیک ہی واقع کسی آبادی میں جا کر ’’گم‘‘ ہو گئے تھے۔۔۔


اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ آبادیاں پاکستانی سرزمین کے اندر ہوتے ہوئے بھی دہشت گردوں کی سہولت کار تھیں۔ اس لئے لازم تھا کہ جب تک ان آبادیوں / علاقوں میں بسنے والے پاکستانی سہولت کاروں کو پکڑا نہیں جائے گا تب تک قتل و غارت گری کا یہ سلسلہ نہیں رکے گا۔۔۔


اس کے بعد 15اکتوبر کو جو سانحہ پیش آیا اور جس میں پاکستان آرمی کے چار اہلکار (ایک آفیسر اور تین سولجرز) شہید اور تین زخمی ہو گئے اس کی تفصیلات میڈیا پر آ چکی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان کو افغان سرحد پر کس طرح کے مشکل چیلنجوں کا سامنا ہے۔ ان چیلنجوں سے عہدہ برآ ہونے کے لئے پاکستان کی مسلح افواج کو آئے روز جو قربانیاں دینی پڑ رہی ہیں وہ قارئین کے سامنے ہیں۔

ایک طرف تو ہمارے بیرونی محاذ پر زندگی اور موت کا یہ کھیل دیکھنے میں آ رہا ہے اور دوسری طرف اندرونی محاذ پر پاکستان آرمی پر بعض حلقوں کی طرف سے سازشوں کے جو الزامات لگائے جا رہے ہیں ان کی وجہ سے ملکی استحکام ڈانواں ڈول ہوا جا رہا ہے۔ یہ جو آئے روز پاک آرمی کے افسروں اور جوانوں کی شہادتیں ہو رہی ہیں کیا خیال ہے آپ کا کہ ان کا کوئی اثر نہیں ہو رہا؟۔۔۔ لیکن جن ماؤں کے لال شہید ہو رہے ہیں اور ہماری جن نوجوان بہو بیٹیوں کے سہاگ اجڑ رہے ہیں ان کی تفصیلات کسی پرائم ٹائم میں منظر عام پر نہیں لائی جاتیں۔ صرف اتنا کہہ کر بات ختم کر دی جاتی ہے کہ فلاں جگہ فلاں روز فلاں تعداد میں آرمی آفیسرز یا سولجرز شہید ہو گئے۔ اس کے بعد ایک اور بندھی ٹکی ایس او پی (طریقہ ء کار) کے مطابق حکومت کے کرتا دھرتاؤں کی تصویریں ٹی وی سکرینوں پر دکھا کر یہ کہا جاتا ہے کہ ان حضرات کو ان شہادتوں پر بہت دکھ ہوا ہے اور انہوں نے شہیدوں کے لواحقین سے ہمدردی کا اظہار بھی کیا ہے اور مرنے والوں کے دکھ میں ’’برابر‘‘ کے شریک بھی ہیں وغیرہ وغیرہ۔۔۔ ذرا سوچئے کہ ایک طرف یہ دو تین فقرے کہہ کر بات ختم کر دی جاتی ہے

تو دوسری طرف کئی گھنٹوں کے ٹاک شوز جن موضوعات پر منعقد کئے جاتے ہیں ان کی دبیز دھند میں یہ فقرے کتنی دیر تک دیکھے اور سنے جا سکتے ہیں؟ پاکستان آرمی کے سامنے یہ ایک ایسا چیلنج ہے جو میرے خیال میں اس عسکری تنظیم کی بنیادوں تک پہنچ رہا ہے۔ دشمن کا ایجنڈا یہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح اس تنظیم کے مورال کو کمزور کیا جائے کہ جب تک یہ نہیں ہوتا تب تک اس کے ایجنڈے کے بنیادی مقاصد پورے نہیں ہوتے۔

ایسے میں ہمارے میڈیا کا فرض ہے کہ وہ ان عظیم مجاہدوں کی عظیم شہادتوں کو زبان دے اور ان کی تفصیلات پر بھی ٹاک شوز منعقد کرے، ہر ایکشن / آپریشن کی تفصیل آن ائر کرے، شہداء کے اہلِ خانہ سے تفصیلی انٹرویو کرے اور اس طرح سول ملٹری تعلقات کی یکجائی اور اتحاد کی بحث کو آگے بڑھائے۔

آپ دیکھ رہے ہیں کہ چند روز پہلے امریکی صدر ٹرمپ نے افغانستان کی جس نئی پالیسی کے خدوخال واضح کئے تھے ان میں پاکستان کے خلاف کیاکیا زہر نہیں اگلا تھا۔ لیکن جونہی ایک امریکی خاتون، اس کے کینیڈین شوہر اور تین بچوں کو پاکستان آرمی نے پانچ برس قبل اغوا کرنے والے اغوا کاروں کے چنگل سے رہائی دلائی تو ٹرمپ نے کیسا پینترا بدلا اور فوراً پاکستان کی اس کوشش کو کس طرح سراہا۔۔۔ یہی زندہ قوموں کی نشانی ہوتی ہے۔۔۔ دوسری طرف ہم ہیں کہ بازیابی کے اس آپریشن کے تسلسل میں جو دوسرا آپریشن کرتے ہیں کہ جس میں آرمی کے سات اہل کار شہید یا زخمی ہو جاتے ہیں تو ہم دوچار رسمی تعزیتی جملے کہہ کر چپ ہو جاتے ہیں اور ساتھ ہی میڈیا پر دوسری لایعنی سیاسی بحثوں کا فلڈ گیٹ کھول دیتے ہیں۔

کیا ہمارا یہ رویہ اور اس کے اثرات مستقبل قریب میں کسی دور رس قومی سطح کے معاملے پر ابھر کر سامنے نہیں آئیں گے؟۔۔۔ کیا جنرل آصف غفور نے جو یہ کہا تھا کہ بعض اوقات خاموشی، اظہار کا دوسرا نام ہوتی ہے تو اس کا پورا پورا ادراک کسی نے کیا؟۔۔۔ میں اس مسئلے پر زیادہ بات نہیں کرنا چاہتا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کے اسی نثری جملے کو ایک صدی پہلے اقبال نے بھی اس شعر میں ادا کر دیا تھا:


نہیں منت کشِ تابِ شنیدن داستاں میری
خموشی گفتگو ہے، بے زبانی ہے زباں میری
15اکتوبر (2017ء) کو اتوار کا دن تھا۔۔۔ صبح ساڑھے سات بجے پارا چنار میں فرنٹیئر کور کے 113ونگ ہیڈکوارٹر میں یہ خبر موصول ہوئی کہ ایک IED (خانہ ساز بارودی سرنگ) کے دھماکے میں دو سولجر شہید ہو گئے ہیں۔ اس وقت کیپٹن حسنین (92 سگنل بٹالین) وڈیو لنک پر اسلام آباد میں اپنی اہلیہ اور ڈیڑھ سالہ بیٹے سے ہمکلام تھا۔ اطلاع ملتے ہی حسنین نے اہلیہ کو بتایا کہ وہ ’’کسی جگہ‘‘ ہنگامی ڈیوٹی پر جا رہا ہے اور شام تک واپس آ جائے گا۔ اسے کیا معلوم تھا کہ وہ آخری بار اپنے ننھے بچے کا ہنستا مسکراتا چہرہ دیکھ رہا ہے اور اپنی اہلیہ کے پریشان چہرے پر پریشان تر نگاہوں کی جھلک بھی اسے دوبارہ دیکھنی نصیب نہیں ہوگی۔۔۔۔ حسنین نے فوراً وردی پہنی، ذاتی ہتھیار اٹھایا اور QRF (کوئک ری ایکشن فورس) کی گاڑی میں بیٹھ کر جائے حادثہ کی طرف روانہ ہو گیا۔
اس کو معلوم تھاکہ جس ایریا میں وہ جا رہا ہے اس میں قبل ازیں دو دھماکے ہو چکے ہیں جن میں شہادتیں بھی ہو چکی ہیں۔ علاوہ ازیں مزید IEDs کی موجودگی کا 100فیصد امکان بھی وہاں موجود ہے۔ تاہم جب وہ جائے حادثہ پر پہنچا تو دیکھا کہ اس کے بعض جوان شہید ہوچکے ہیں اور بعض زخمی ہیں۔

اس نے فوراً اپنے JCO کو کہا کہ وہ اپنے زخمی جوانوں کو ریسکیو کرنے جا رہا ہے، پیچھے کا خیال رکھنا۔۔۔ صوبیدار صاحب نے اپنے آفیسر کو روکا اور کہا: ’’سر! آگے نہ جائیں۔

اس علاقے میں اور بھی IEDs ہو سکتی ہیں۔‘‘۔۔۔ حسنین نے جواب دیا: ’’میں اپنے جوانوں کو اس حالت میں نہیں دیکھ سکتا‘‘۔۔۔ یہ کہہ کر وہ بھاگ کر گیا اور اپنے دو زخمیوں کو اٹھا لایا۔ اس کے بعد تیسرے زخمی ساتھی کو اٹھانے جا رہا تھا کہ تیسری IED کی زد میں آیا اور شہید ہو گیا!
سرِ خاکی شہیدے برگ ہا ئے لالہ می پاشم
کہ خونش بانہالِ ملتِ ما سازگار آمد
میں نے بار بار اس سوال پر غور کیا ہے کہ وہ کیا جذبہ تھا جو اسے ایک انتہائی خطرناک وادی سے اپنے زخمی ساتھیوں کو اٹھانے اور واپس لانے پر مجبور کر رہا تھا؟۔۔۔ کیا اسے معلوم نہ تھا کہ علاقے میں جگہ جگہ بارودی سرنگیں لگی ہوئی ہیں؟۔۔۔ کیا اسے اپنی جان عزیز نہ تھی؟۔۔۔ کیا چند لمحے پہلے اسے اپنے معصوم بیٹے کا ہنستا مسکراتا چہرہ اور اپنی نصف بہترکی آنکھوں میں تیرتی پریشانی یاد نہیں آ رہی تھی؟۔۔۔


قارئین کرام! یہی وہ سوال و جواب ہیں جو پاکستان کی مسلح افواج کا اثاثہ ہیں۔۔۔ اپنی جیتی جاگتی جان کو اپنے ساتھیوں کے لئے خطرے میں ڈالنا آسان کام نہیں ہوتا۔ یہی وہ مشکل معمہ ہے جس کے حل میں پاکستان کی بقاء شامل ہے۔۔۔ کیپٹن حسنین اور اس کے تین سولجرز (سعید باز، قادر اور جما گل) شہید ہو کر قوم کی حیات بن چکے ہیں۔۔۔ آیئے قوم کو اس عظیم قربانی کی یاد دلائیں جو وہ کچھ دنوں بعد بھول جائے گی اور ان ’’لایعنی مباحث‘‘ کی گردان کرتی رہے گی جن کو طاقِ فراموشی پر رکھنا قوم کے لئے زیادہ بہتر ہوگا!

مزید :

کالم -