تصویریں
کیا آپ نے میاں شہباز شریف کی دو تصویریں ملاحظہ کیں جو سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر جاری کی گئی ہیں۔پہلی تصویر 2011 کی ہے جس میں میاں شہباز شریف پائینچے چڑھائے پانیوں میں اُترے نظر آتے ہیں۔ دوسری تصویر 2014کی ہے جس میں میاں شہباز شریف ٹھیک اُسی طرح پائینچے چڑھائے پانیوں میں اُترے کھڑے ہیں۔ دونوں تصویروں پر اگر سال کی نشاندہی نہ ہو تو یہ فیصلہ نہیںہوسکے گا کہ یہ کن ماہ وسال کی روداد ہے یہ ایک ہی واقعہ ہے یا الگ الگ واقعات کی تصویر کشی ہے۔دونوں تصویروں کے بعد پھر عوامی تبصرے ہیں جو ناقابلِ بیان ہیں۔مگر امرِ واقعہ یہی ہے۔ اِن دونوں سیلابوں کے درمیان نہ جانے کیا کیا کچھ بہہ گیا مگر شہباز شریف کی حکومت کھڑی رہی۔یوں لگتا ہے کہ جیسے یہ کسی الف لیلوی شہزادے کی داستانِ الم ہو، جسے پیچھے مڑ کر دیکھنے کے جُرم میں پتھر کا بنا دیا گیا تھا۔پاکستان میں بھی ہر منظرہر عمل ، ہر کردار، ہر روّیہ، ہر معاملہ اپنی یکسانیت کے ساتھ پتھرا سا گیا ہے ۔
فطرت کے ایک ہی جیسے عمل کے جواب میں ہمار اردعمل بھی یکساں ہے۔ جو سراسر غیر فطری ہے۔امدادی رقوم کی تقسیم ،متاثرین میں سے کچھ کو گلے لگائے ہمدردی کی آئینہ دارتصویریں، ہیلی کاپٹر سے فضائی جائزے اور پائینچے چڑھائے پانیوں میں اُتر کر تصویرآرائی ،یکساں اور ایک پتھرایا ہوا ہی تو طرزِعمل ہے۔ مگر یہ بھی دراصل حکمرانوں کے حقیقی ردعمل کی نہایت گمراہ کن عکاسی ہے۔حکمرانوں کا حقیقی ردعمل دراصل گمراہ کن سردمہری اور پریشان کن تشہیری مہم جوئی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ سیلاب اور اس پر حکمرانوں کا ردعمل گویا ایک سے جڑا دوسرا روّیہ ہے۔ فطرت کے ساتھ حکمرانوں کی عادت کا مُجادِلہ ہے۔ فطرت اپنی تعزیر اور حکمران اپنی تزویر بدلنے کو تیار نہیں۔جیسے دونوں میں سب کچھ جُوںکا تُوں رکھنے کا مقابلہ ہو۔ قدرت نے بحرانوں اور آفتوں کو انسانی تدبیروں کے ساتھ جنگ آزما رکھا ہے۔فطرت یہاں سے مستقبل کی آہنگ تراشتی اور امکانات کی فصل اُگاتی ہے۔تہذیبیں یہیں مٹتی اور جنم بھی لیتی ہیں۔ ہر سیلاب پہلے انسانی ارادوں کی دہلیز پہ دستک دیتا ہے۔ وہ نہ تو اچانک آتا ہے اور نہ ہی اس کا نقصان ناقابلِ تلافی ہوتا ہے۔قدر ت نے کائنات کی ترکیبِ بناو¿ٹ میں بگاڑ کو بناو¿ اور تخریب کو تعمیر سے جوڑے رکھا ہے۔افسوس تو یہ ہے کہ ہم قدرتی آفتوں کی آواز سننے کے بجائے قدرتی آفتوں کو اپنی سیاست کی آواز بنا دیتے ہیں۔ اسے ہی اپنی زندگی کاسامان بنا لیتے ہیں۔ سیاست دانوں (حزب اقتدار و اختلاف دونوں ہی ) کا یہ روّیہ گورکن کی سی نفسیات رکھتا ہے۔
گورکن کے بال بچے بھوک سے بے تاب ہیں
کوئی مر جائے تو یہ جی جائیں پروردگار
فطرت کے باب میںمگر یہ روّیہ ہرگز ہرگز روا نہیں رکھا جاسکتا۔ فطرت کوئی عمران خان اور طاہر القادری جیسی حزبِ اختلاف تو نہیں۔جن کی مخالفت سے دُکانِ سیاست مزید چمک اُٹھے اور گرتے ہوئے پھر سے تھم جائیں۔امریکی قانون دان اور آزاد فکری کے سنہری دور سے تعلق رکھنے والے سیاست دان رابرٹ جی اینگرسل کے ہی الفاظ میں فطرت کی کسی حد تک تفہیم کی جاسکتی ہے کہ
In nature there are neither rewards no “
” punishments; there are consequences.
(فطرت میں جزا و سزا نہیں ،محض نتائج ہوتے ہیں)
چناچہ یہی نتائج ہم بھگت رہے ہیں۔قدرتی آفتوں کے لئے قدرت نے ہی ایک خودکار دفاعی بندوبست بنا رکھا ہے۔ ماحولیات کے نسبتاً نئے علم کے باوجود یہ راز انسانوں کوزمین پر زندگی کرتے ہوئے ابتدا سے ہی معلوم تھا ،جیسے اُنہیں قدرتی بندوبست کا قدرتی طور پر ہی علم ودیعت کردیا گیا ہوکہ خبردار موسموں کو اُن کے فطری تال میل میں رہنے دوکہ اُن سے جھانولی بازی اچھی نہیں۔ دیکھو !جنگلات حیات کی حفاظت پر فطرت کی طرف سے مامور ہیں۔ اس قدرتی حفاظتی باڑھ سے مار کٹائی مناسب نہیں۔ سمجھو! پہاڑ زمین پر یوں ہی نہیں گاڑے گئے۔یہ زمین کی حرکتوں کا ایک فطری توازن بنتے ہیں گویا کہ ہلتی جلتی زمین پر میخیں پیوست کی گئی ہو تاکہ اُس کے ہلنے جلنے کی گنجائش کی بھی حدبندی ہو جائے۔ بوجھو! سمندر کیوں خاموش اور کیوں مشتعل ہو جاتا ہے؟ اِسے طیش دلانے سے باز رہو۔ اور اس کے غصے کو بے کنار نہ ہونے دو۔
ہاں!برف پگھلتا رہے گا، پہاڑی چشمے پھوٹتے رہیں گے، پانی بپھرتا رہے گا۔تم اُس کے تیور پہچانو اور کائنات کی صورت گری میں فطرت کے مقاصد کو سمجھو۔ اتنی بڑی کائنات میں فطرت صرف تمہاری ہی نہیں بے شمار انواعِ حیات کی کفالت و حفاظت کرتی ہے۔فطرت اپنی رازداں آپ ہے تم صرف اُس کی آواز سنو اور سمجھو! اتنی بڑی کائنات میں پہاڑ، جنگل، صحرا، سمندر ، موسم، سمتوں کا فسوں، ثقلی کشش،فضائے بسیط اور خلائے محیط ایک دوسرے سے بے نیاز اور ایک دوسرے کے برخلاف پیدا نہیں کئے گئے۔ اِن میں ایک توازن و تناسب ہے۔ ایک تال میل ہے۔ سب ایک نظام ہستی سے جڑے بندھے ہیں۔ کسی ایک سے بھی چھیڑ خانی تمہیں فطرت کا باغی بنا دے گی۔ ابتدائی عہد کا انسان فطرت کی آواز کو زیادہ سنتا اور سمجھتا تھا ۔ چنانچہ اُس نے اس پورے کارخانہ¿ قدرت کو جوںکا توں رکھنے کے لئے انواع و اقسام کی کہانیاں تخلیق کیں یہاں تک کہ اس آباد کا ئنات کو پھلتا پھولتا دیکھنے کے لئے بت کدہ¿ اوہام کی ویرانیوں کو بھی گلے لگایا۔ مگر ہم نے کیا کیا؟
جنگ آزما ذہنوں نے ہمیں فطرت سے بھی رزم آرا کردیا۔ اُس کے تمام تقاضوں کو فراموش کردیا گیا۔ جنگل کے جنگل نگل لئے گئے۔پہاڑ کھود دئے گئے۔ جنگلی حیات میوزیم کی قیدی بنا دی گئی۔ زمین کاپورا توازن ہی بگڑ گیا۔ پہلے ماحول کا حُسن خراب ہوا اب ماحول کی زندگی کو ہی خطرہ ہے۔ یہ سیلاب نہیں ہمارے اعمال کا حساب کتاب ہے۔ فطرت کے ساتھ کھیل کھلواڑ کا بہی کھاتا ہے۔ مگر اس کے ساتھ ایک پیغام بھی ہے۔ زندگی کو فطرت کے سانچے میں رہنے دو۔ اور فطرت کو اپنی اصل پر قائم رہنے دو کہ زندگی فطرت میں ہے اور فطرت زندگی ہے۔ اگر حکمراں دھیان دیںتو سیلاب سے بچاو¿ کی پہلی تدبیرکے طور پر فطرت کی آواز پر لبیکّ کہیں۔ اور مظاہرِ فطرت کی حفاظت کا ہنگامی منصوبہ ترتیب دیں۔ جنگلات کی کٹائی کو حد بند کریں۔ درختوں کو زندگی کی حفاظت کرنے والی قوت قرار دیں۔ اور اِسے کاٹنے والوں کو قانون کی تپش پہنچائیں۔ اگر فطرت کا مقابلہ فطری تدابیر سے کیا جائے تو یہ عمل زندگی کے لئے خطرہ نہیںخود زندگی کے لئے حیات بخش پیغام بن جاتا ہے۔ آخر ترقی یافتہ ممالک نے بھی تو سیلاب کا مقابلہ کیا ہے اور اِسی سے اپنی زندگی کا سامان بھی تو کیا ہے۔ اس کی تفصیلات پھر کبھی۔
ابھی تو صرف اتنا ہی کہ سیلاب میں گھِرے پاکستانیوں کی تسلّی سیلاب کے پانیوں میں اُتر کر حکمرانوں کی تصویر آرائی سے نہیں ہوگی۔ دو سیلابوں میں ایک ہی طرح کے تصویری ردِعمل سے ایک ہی طرح کامنفی تاثر اُبھرے گا۔تصویر کے نیچے کا ایک تبصرہ اس کا مناسب اظہار بھی کرتا ہے کہ ”معاملہ یہ نہیں کہ شہباز شریف کہاں کھڑا ہے، مسئلہ یہ ہے کہ پانی یہاں کیوں کھڑا ہے؟“ جی ! شریف برادران فرمائیے ! پانی یہاں کیوں کھڑا ہے؟
شریف برادران کے پاس وقت بہت ہی کم ہے اب اُنہیں ایک سے دوسری تصویر کو مختلف کرنا پڑے گا۔ عوام اُن کی پانی پر ایک ہی جیسی تصویروں کو ہمیشہ ایک ہی جیسے خاموش ردِعمل سے گوارا نہیں کریں گے۔ جن کی زندگی کچھ یوں بن گئی ہے کہ
نہ کوئی خواب ہمارے ہیں نہ تعبیریں ہیں
ہم تو پانی پہ بنائی ہوئی تصویریں ہیں