عرب فوج کا قیام: عربوں کے خلاف؟
شرم الشیخ میں عرب لیگ کا 26واں اجلاس منعقد ہوا، جس میں22عرب ریاستوں نے ایک دھماکہ خیز بیان جاری کیا۔ ’’خطے میں امن و سلامتی اور استحکام قائم کرنے اور برقرار رکھنے کے لئے متحدہ عرب فوج قائم کی جائے گی‘‘۔۔۔مصر کے صدر جنرل عبدالفتح سیسی نے اسے ایک انقلابی قدم اور تاریخی عمل قرار دیا کہ اس متحدہ عرب فوج کے قیام سے خطے میں انتہا پسندی کے خاتمے اور عربوں کی قومی سلامتی کو یقینی بنایا جائے گا۔ عرب لیگ کے جنرل سیکرٹری نبیل العربی نے کہا اس سے عرب دُنیا کو درپیش سلامتی کے مسائل سے بطریق احسن نمٹا جا سکے گا‘‘۔ امریکہ نے بھی اسے عرب ممالک کے لئے ایک اچھا فیصلہ قرار دیا ( کیا بات ہے) ۔۔۔سعودی عرب کا تبصرہ تھا کہ اس سے عرب لیگ میں نئی روح پھونک دی گئی ہے، اب عرب لیگ ایک مضبوط قوت کی حیثیت اختیار کرے گی، لیکن تجزیہ نگاروں اور دانشوروں کا خیال ہے کہ اس سے مشرقِ وسطیٰ پر منفی اثرات مرتب ہوں گے اور عرب دُنیا واضح طور پر سُنی عرب اور شیعہ عرب میں تقسیم ہو جائے گی یا کر دی جائے گی۔
سعودی عرب کی فضائیہ نے یمن پر حملے جاری رکھے ہوئے ہیں،جبکہ مغربی ممالک ایران کے ساتھ ایٹمی مسئلے کو حل کرنے کے آخری مراحل میں ہیں،اب یہ معاہدہ طے بھی پا گیا ہے۔ ایران کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی اور عراق و شام میں اسلامی خلافت کا قیام یا اعلان عرب لیگ کے ان اقدامات کی وجہ بنا ہے، لیکن یہ ’’متحدہ فوج‘‘ خطے میں امن ، سلامتی اور استحکام کی ضمانت شاید نہ بن سکے۔ویسے بھی اعلان کی حد تک تو واضح ہے،لیکن اس فیصلے کے اغراض و مقاصد مبہم اور غیر واضح ہیں۔اس فیصلے میں شامل عرب ریاستوں کے فوجی سربراہان کو کہاگیا ہے کہ وہ ایک تفصیلی منصوبہ، جو قابل عمل بھی ہو، بنا کر تین مہینوں کے اندر عرب لیگ کی ’’ڈیفنس کونسل‘‘ کے سامنے پیش کریں، اس وقت تک صرف اخباری بیانات کے ذریعے ہی اس فیصلے کے بارے میں وضاحتیں کی جائیں گی۔
اطلاعات کے مطابق یہ ’’متحدہ عرب فوج‘‘ 40ہزار تربیت یافتہ جدید ترین اسلحہ سے لیس افراد پر مشتمل ہو گی، جنہیں نیوی اور فضائی کور بھی حاصل ہو گا، ان سب کے لئے مالی امداد سعودی عرب مہیا کرے گا۔ عرب امارات، کویت بھی اس میں شامل ہوں گے، مصر افرادی قوت مہیا کرے گا، اس کا ہیڈ کوارٹر ریاض یا قاہرہ میں ہو گا۔ یہ سب وقت کے ساتھ واضح ہوتا جائے گا۔ مقاصد سے اتفاق ہو یا اختلاف،’’عرب لیگ‘‘ کا صرف نام رہ گیا تھا، کردار ہر معاملے میں ختم ہو گیا تھا۔ ایک خالی کمرے کے باہر صرف ایک تختی لگی ہوئی تھی، ضرورت تو محسوس کی جا رہی تھی کہ اسے ایک موثر طاقت بنایا جائے اور مضبوط فیصلے کئے جائیں۔ خیال تھا کہ شام کا بحران عربوں کو جگانے کا سبب بن جائے گا، جیسے روانڈا کے بحران نے2004ء میں افریقن یونین کو جنم دیا تھا، جس کا مقصد عدم مداخلت، ہر رکن مُلک کی خود مختاری کا احترام اور اختلافات کو پُرامن طور پر گفت و شنید کے ذریعے حل کرنا تھا 15ارکان پر مشتمل امن و سلامتی کونسل بنا دی گئی تھی۔
ایران کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی اور آئی ایس آئی ایس کے قیام کے بعد بھی عرب لیگ سوئی رہی، لیکن جب اس کے شعلے یمن میں بھڑکے اور سعودی عرب کی سرحدوں پر خطرات منڈلانے لگے، خلیج کی ریاستوں کی سلامتی متاثر ہوتی نظر آئی، تو ’’عرب لیگ‘‘ بھی جاگ گئی، لیکن یہ ’’متحدہ فوج‘‘ کتنی موثر ہو گی، ماضی کو سامنے رکھتے ہوئے ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ فیصلہ ’’شیعہ عرب‘‘ کے خلاف ایک قدم دکھائی دیتا ہے اور یہ ’’متحد‘‘ کرنے کی بجائے ’’تقسیم‘‘ کرنے والی فوج کا کردار ادا کرے گی۔عرب لیگ کا قیام 1950ء میں عمل میں آیا تھا، جب اسرائیل کے خلاف ایک متحدہ حکمت عملی کی ضرورت محسوس کی گئی تھی۔ اس میں مصر، عراق، اردن، سعودی عرب، شام اور یمن بھی شامل تھے، لیکن عملی طور پر اس پر کوئی فیصلہ کن اقدام دکھائی نہیں دیا، صرف نشستند، گفتند، برخاستند ہی حکمت عملی تھی۔ یہی کردار اب تک رہا ہے، لیکن آج صورت حال بہت مختلف ہے۔ شام کو پہلے ہی عرب لیگ سے نکالا جا چکا ہے، لیکن لبنان اور عراق بھی اختلاف کرنے والوں میں شامل ہیں، کیونکہ ان دونوں ممالک میں شیعہ مضبوط سیاسی جماعتیں ہیں، جبکہ آبادی کا بڑا حصہ شیعہ مسلک سے وابستہ ہے۔ عراق کے وزیر خارجہ نے تو اسے عرب بمقابلہ عرب جنگ کی تیاری اور مسلمانوں کی تاریخ کا ایک سیاہ باب،جبکہ لبنان نے یمن میں سعودی عرب کی مداخلت کو ’’جارحانہ قدم‘‘ قرار دیا۔
ضرورت تھی کہ اس مسئلے پر ایک متفقہ فیصلہ سامنے آتا، لیکن یہ فیصلہ ایک سُنی فیصلہ دکھائی دیا، جو افسوسناک ہے اور اختلاف رکھنے والوں کو یہ کہنے کا موقعہ ملا کہ یہ ایک’’متحدہ عرب‘‘ فوج نہیں ہو گی، بلکہ سُنی ریاستوں کا ایک عسکری ونگ ہو گا۔ عالم اسلام اس وقت جن خطرات سے دوچار ہے، اس میں ضرورت تھی مل بیٹھنے کی اور مذاکرات کے ذریعے جو بھی اختلافات تھے، انہیں حل کرنے کی، لیکن بعض ریاستیں تو اتنی بوکھلاہٹ کا شکار ہیں کہ پاکستان کو بھی دھمکی دے ڈالی، جو سفارتی آداب کے خلاف ہے، لیکن چودھری نثار نے اس کا بروقت، موثر اور مضبوط جواب دیا۔ اگر ’’متحدہ عرب فوج‘‘ ایک موثر حقیقت بھی بن جائے تو کچھ سوالات اختلافات کی بنیاد بھی ہیں، لیکن حال ہی میں ہونے والی کچھ تبدیلیاں بھی معنی خیز اور دلچسپ ہیں۔
مصر، قطر اور سعودی عرب میں ایک دم پیار محبت کا پیدا ہو جانا، کیونکہ کئی برسوں سے قطر کی اخوان المسلمون کی مدد کرنے کی وجہ سے ان کے درمیان کشیدگی رہی ہے۔ قطر نے جنوری2014ء میں دوحہ سے اپنا سفیر بھی واپس بُلا لیا تھا، جو پچھلے ہفتے واپس آیا ہے۔ یمن میں بھرپور فوجی مداخلت، فضائی حملے تو جاری ہو گئے، لیکن عراق اور شام میں جو تحریکیں کل خطرہ بن جائیں گی ان کے بارے میں لائحہ عمل واضح نہیں ہے۔ یہ بھی وقت کے ساتھ ساتھ واضح ہوتا جائے گا۔ کہنے کی حد تک تو ’’متحدہ‘‘ بن گئی، لیکن اگرہم دُنیا پر ایک نظر ڈالیں تو یورپین یونین میں شامل ممالک، جنہوں نے سرحدیں نشان کی حد تک رہنے دی ہیں کہ یہاں سے فلاں ملک شروع ہوتا ہے، کامن مارکیٹ بنا لی ہے، امن کرنسی یورو بنا لی ہے، لیکن بعض ایشوز پر ان میں بھی اختلافات موجود ہیں، جن کا اظہار بھی برملا ہوتا ہے تو ’’متحدہ عرب فوج‘‘ کتنی متحد ہو گی، ماضی میں مختلف ایشوز پر سخت اختلاف رہا، جو اب تک قائم ہے۔ افواج کی کارکردگی، اسرائیل کے خلاف حکمت عملی وغیرہ کی موجودگی میں اس کا ایک موثر حقیقت بن جانا نظر نہیں آتا، بلکہ یوں لگتا ہے کہ صرف شیعہ خطرے کے پیش نظر جو یمن میں سعودی عرب کے لئے خطرہ بن سکتا ہے،کے خلاف افراتفری میں ایک فیصلہ کیا گیا اور یمن میں عمل درآمد بھی شروع ہو گیا۔ آگے کیا ہو گا اس کا جواب شرم الشیخ میں جمع ہونے والے سربراہان کے پاس بھی نہیں ہو گا۔
اسی طرح کی آواز1950ء میں چرچل نے بھی اٹھائی تھی کہ ایک ’’یورپین فوج‘‘ ہونی چاہئے، جس کی کمان ایک ہو، یعنی ’’متحدہ یورپین فوج‘‘۔۔۔ اس کے قریب دو ماہ بعد فرانس کے وزیراعظم نے بھی اس کی تائید کی، حال ہی میں یورپین کمیشن کے صدر نے بھی یہ تجویز دہرائی ہے، لیکن کیسے؟ کب تک؟ اگر یورپ میں یہ سوال اٹھتے ہیں تو عربوں کے بارے میں بھی شکوک و شبہات کا اظہار تو ہو گا، لیکن ابھی تک ایسی کوئی تجویز پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ پائی۔ یورپین یونین بھی انسانی حقوق اور Peace Keeping گروپ بنانے کی حد تک ہی پہنچ پائے ہیں،یورپین فوج بن نہیں سکتی،کیونکہ ہر ملک کی خارجہ پالیسی اس کے مفادات کے تابع الگ الگ ہے، عربوں کے لئے تو بہت ہی بڑا چیلنج ثابت ہو گا۔ (یمن کے علاوہ) اس سارے پس منظر میں شرم الشیخ میں ہونے والا اجتماع اُمت مسلمہ یا عرب دُنیا کی کیا مثبت خدمت کر سکتا ہے۔ وقت بتائے گا، لیکن بہتر ہوتا کہ عرب لیگ کی بجائے ’’او آئی سی‘‘کی میٹنگ ہوتی، اُسے موثر بنایا جاتا،مسلم سربراہان کا اجلاس ہوتا اور تمام مسلمانوں کو رنگ و نسل سے ہٹ کر فقہی اختلاف کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے ایک لڑی میں پرونے کی کوشش کی جاتی۔ ایران پر اختلاف ہے تو پوری اسلامی دُنیا کا تہران پر اخلاقی، سفارتی دباؤ زیادہ موثر ثابت ہوتا، لیکن اب بھی وقت،پاکستان اور ترکی اس معاملے میں سب سے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں اور انہیں کرنا بھی چاہئے۔ پارلیمنٹ کو بھی حق اور سچ کی مدد کا فیصلہ کرنا چاہئے تھا۔ اپنے قومی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے جرأت مندانہ فیصلہ کرنا چاہئے تھا۔ وزیراعظم پاکستان اور ترک وزیراعظم طیب اردوان ’’شٹل ڈپلومیسی‘‘ شروع کریں ، اس سے پیشتر یہ کہ صورت حال ہمیں بھی متاثر کرے۔