استعفوں کی سیاست۔۔۔ سراج الحق کا منظر نامہ

استعفوں کی سیاست۔۔۔ سراج الحق کا منظر نامہ
استعفوں کی سیاست۔۔۔ سراج الحق کا منظر نامہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 اس وقت ملک میں استعفیٰ سیاست کا بہت شور ہے۔ جب کسی چیز کا بہت شو رہو تو سب اسی زبان میں بات کرنے لگتے ہیں۔ کرکٹ کا شور ہوا تو سب سیاستدان کرکٹ کی زبان میں بات کرنے لگے۔ کسی فلم کا شور مچ جائے اور اس کا کوئی ڈائیلاگ ہٹ ہو جائے تو سب اسی کے تناطر میں بات کرنے لگتے ہیں۔ لیکن اس وقت استعفوں کا بہت شور ہے۔ یہ استعفیٰ اتنا بڑا ایشو نہیں تھے۔ جب تک تحریک انصاف پارلیمنٹ میں واپس نہیں آئی تھی لیکن اس کی واپسی کے بعد یہ ایشو بن گئے ہیں۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق بھی با کمال شخصیت ہیں ۔ وہ اس وقت دو محازوں پر بیک وقت لڑ رہے ہیں۔ ایک طرف وہ تحریک انصاف کو کراچی کے ضمنی انتخاب میں ٹف ٹائم دے رہے ہیں دوسری طرف وہ ایم کیو ء ایم کو بھی ٹف ٹائم دے رہے ہیں۔ سراج الحق نے کراچی کے ضمنی انتخاب میں اوپر نیچے دو جلسے کر کے ماحول کو نہ صرف گرما دیا ہے بلکہ اس تاثر کو بھی ختم کیا ہے کہ مقابلہ صرف تحریک انصاف اور ایم کیو ایم میں ہے۔ اب سب کہہ رہے ہیں کہ جماعت اسلامی بھی اس حلقہ میں ایک قوت رکھتی ہے۔ سراج الحق نے اپنے پہلے جلسہ میں ایم کیو ایم کے قائدا لطاف حسین کو پیغام دیا تھا کہ جی تھری کا دور ختم ہو گیا ہے اور اب تھری جی کا دور آگیا ہے۔ لیکن اب انہوں نے کہا ہے کہ ایم کیو ایم کے قا ئد الطاف حسین اب تک ایم کیو ایم سے نو دفعہ استعفیٰ دے چکے ہیں اور اس ضمنی انتخاب کے بعد وہ دسویں بار استعفیٰ دیں گے ۔ لیکن پہلے نو بار انہوں نے اپنا ستعفیٰ واپس لے لیا تھا ۔ اب دسویں بار وہ واپس نہیں لیں گے۔ بات قابل فہم ہے۔ کہ اگر ایم کیو ایم عزیز آباد یعنی نائن زیرو کی سیٹ ہار جاتی ہے تو الطاف حسین واقعی استعفیٰ دے دیں گے یا ان کا ستعفیٰ دینا بنتا ہو گا۔ یہ فارمولہ اپنی موت آپ مر جائے گا ۔ کہ ایم کیو ایم پر جتنے مرضی الزام لگا دئے جائیں۔ اس کا اس کے ووٹ بنک پر اثر نہیں پڑتا۔ اس لئے اگر سراج الحق ایم کیو ایم کی ہار دیکھ رہے ہیں توانہیں الطاف حسین کا استعفیٰ بھی نظر آرہا ہو گا ۔ سراج الحق نے اپنے دو جلسوں سے ماحول اس حد تک بھی بدل دیا ہے کہ اب تحریک انصاف کی ترجمان شیریں مزاری بھی وضاحتیں دے رہی ہیں کہ کراچی کے ضمنی انتخاب میں ان کا امیدوار دستبردار نہیں ہو رہا ۔ حالانکہ اس سے پہلے تو ماحول یہ تھا کہ جماعت اسلامی کو یہ وضاحتیں دینا پڑ رہی تھیں کہ وہ دستبردار نہیں ہو رہی۔ ایم کیو ایم نے بھی سراج الحق سے پوچھا ہے کہ اگر ان کا امیدوار ہار گیا تو کیا وہ استعفیٰ دیں گے۔ لیکن شائد یہ بات بنتی نہیں کیونکہ یہ جماعت اسلامی کا آبائی حلقہ نہیں ہے۔ جماعت اسلامی نے کبھی اس حلقہ سے ایک لاکھ ووٹ نہیں لئے۔ سراج الحق تو جوبھی حاصل کریں گے وہ بونس ہے۔ وہ ابھی ایک بال پر تو دو وکٹیں گرانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ ایک ایم کیو ایم کی دوسری تحریک انصاف کی۔ اس لئے ان کے لئے نقصان کا اندیشہ کم ہے۔ استعفوں کی سیاست کا بڑا فوکس قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے استعفے ہیں۔ ایم کیو ایم نے قومی اسمبلی میں قرارداد جمع کروائی ہے جس کے تحت تحریک انصاف کے ارکان قومی اسمبلی کی چالیس روز سے زیادہ روز غیر ھاضری پر ان کی رکنیت منسوخ کرنے پر بحث اور رائے شماری بھی ہو گی۔ سپیکر نے اس قراداد کو ایوان میں پیش کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ پیپلز پارٹی نے قرارداد کی مخالفت کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ مولا نا فضل الرحمٰن تو بہت غصہ میں ہیں۔ وہ تو بار بار کہہ رہے ہیں استعفے منطور ہو چکے ہیں۔ اس لئے یہ تو یقینی ہے کہ وہ اس قرارداد کے حق میں نہ صرف ووٹ دیں گے بلکہ تقریر بھی کریں گے۔ اے این پی کا ایک ہی ووٹ ہے وہ بھی تحریک انصاف کے خلاف ہی دے گی۔ لیکن حکمران جماعت کو نہ چاہتے ہوئے بھی اس قرادار کے خلاف ووٹ ڈالنا ہو گا ۔ لیکن اگر حکمران جماعت نے رائے شماری میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا تو گیم پھنس بھی سکتی ہے۔ کیونکہ اس بات کے امکانات بھی کم ہیں کہ اس قراداد کے دفاع کے لئے تحریک انصاف ایوان میں موجود ہو۔ ان کے پاس بھی بائیکاٹ کے سوا کوئی آپشن نہیں۔ اس لئے تحریک انصاف کو پیپلز پارٹی کے ووٹوں کا سہارا لینا ہو گا یہی جمہوریت ہے۔اگر حکمران جماعت نے بھی تحریک انصا ف کے حق میں ووٹ ڈالنے کا فیصلہ کیا تو پھر تحریک انصاف مشکل میں نہیں ہو گی۔ لیکن اگر ن لیگ بائیکاٹ کر گئی تو گیم پھنس جائے گی۔ استعفوں کی سیاست گرم ہے اور ابھی گرم رہے گی۔ اسی گرما گرمی میں چینی صدر کا دورہ پاکستان بھی گزر جائے گا۔ سعودی عرب فوج بھی چلی جائے گی۔ جیوڈیشل کمیشن کا کام بھی لمبا ہو جائے گا۔ اسی میں سب کی بچت ہے۔ جیسے سابق صدر پرویز مشرف کی خصوصی عدا لت گم ہو گئی ہے۔ ایسے ہی یہ کمیشن بھی گم ہو سکتا ہے۔ کیونکہ ذمہ دار ذرائع یہ کہہ رہے ہیں کہ جب عمران خان گیم ہاتھ سے نکلتے دیکھیں گے تو اس کے خلاف حکم امتناعی بھی وہی لینے سپریم کورٹ جائیں گے۔ اور اس طرح جیوڈیشل کمیشن بھی اپنے منطقی انجام کو پہنچ جائے گا۔ جیسے پرویز مشرف کی خصوصی عدالت بھی اپنے انجام کو پہنچ گئی ہے۔ جس حکومت نے جوش و خروش سے یہ عد ا لت بنائی تھی اس نے ہی اس کے  اس وقت ملک میں استعفیٰ سیاست کا بہت شور ہے۔ جب کسی چیز کا بہت شو رہو تو سب اسی زبان میں بات کرنے لگتے ہیں۔ کرکٹ کا شور ہوا تو سب سیاستدان کرکٹ کی زبان میں بات کرنے لگے۔ کسی فلم کا شور مچ جائے اور اس کا کوئی ڈائیلاگ ہٹ ہو جائے تو سب اسی کے تناطر میں بات کرنے لگتے ہیں۔ لیکن اس وقت استعفوں کا بہت شور ہے۔ یہ استعفیٰ اتنا بڑا ایشو نہیں تھے۔ جب تک تحریک انصاف پارلیمنٹ میں واپس نہیں آئی تھی لیکن اس کی واپسی کے بعد یہ ایشو بن گئے ہیں۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق بھی با کمال شخصیت ہیں ۔ وہ اس وقت دو محازوں پر بیک وقت لڑ رہے ہیں۔ ایک طرف وہ تحریک انصاف کو کراچی کے ضمنی انتخاب میں ٹف ٹائم دے رہے ہیں دوسری طرف وہ ایم کیو ء ایم کو بھی ٹف ٹائم دے رہے ہیں۔ سراج الحق نے کراچی کے ضمنی انتخاب میں اوپر نیچے دو جلسے کر کے ماحول کو نہ صرف گرما دیا ہے بلکہ اس تاثر کو بھی ختم کیا ہے کہ مقابلہ صرف تحریک انصاف اور ایم کیو ایم میں ہے۔ اب سب کہہ رہے ہیں کہ جماعت اسلامی بھی اس حلقہ میں ایک قوت رکھتی ہے۔ سراج الحق نے اپنے پہلے جلسہ میں ایم کیو ایم کے قائدا لطاف حسین کو پیغام دیا تھا کہ جی تھری کا دور ختم ہو گیا ہے اور اب تھری جی کا دور آگیا ہے۔ لیکن اب انہوں نے کہا ہے کہ ایم کیو ایم کے قا ئد الطاف حسین اب تک ایم کیو ایم سے نو دفعہ استعفیٰ دے چکے ہیں اور اس ضمنی انتخاب کے بعد وہ دسویں بار استعفیٰ دیں گے ۔ لیکن پہلے نو بار انہوں نے اپنا ستعفیٰ واپس لے لیا تھا ۔ اب دسویں بار وہ واپس نہیں لیں گے۔ بات قابل فہم ہے۔ کہ اگر ایم کیو ایم عزیز آباد یعنی نائن زیرو کی سیٹ ہار جاتی ہے تو الطاف حسین واقعی استعفیٰ دے دیں گے یا ان کا ستعفیٰ دینا بنتا ہو گا۔ یہ فارمولہ اپنی موت آپ مر جائے گا ۔ کہ ایم کیو ایم پر جتنے مرضی الزام لگا دئے جائیں۔ اس کا اس کے ووٹ بنک پر اثر نہیں پڑتا۔ اس لئے اگر سراج الحق ایم کیو ایم کی ہار دیکھ رہے ہیں توانہیں الطاف حسین کا استعفیٰ بھی نظر آرہا ہو گا ۔ سراج الحق نے اپنے دو جلسوں سے ماحول اس حد تک بھی بدل دیا ہے کہ اب تحریک انصاف کی ترجمان شیریں مزاری بھی وضاحتیں دے رہی ہیں کہ کراچی کے ضمنی انتخاب میں ان کا امیدوار دستبردار نہیں ہو رہا ۔ حالانکہ اس سے پہلے تو ماحول یہ تھا کہ جماعت اسلامی کو یہ وضاحتیں دینا پڑ رہی تھیں کہ وہ دستبردار نہیں ہو رہی۔ ایم کیو ایم نے بھی سراج الحق سے پوچھا ہے کہ اگر ان کا امیدوار ہار گیا تو کیا وہ استعفیٰ دیں گے۔ لیکن شائد یہ بات بنتی نہیں کیونکہ یہ جماعت اسلامی کا آبائی حلقہ نہیں ہے۔ جماعت اسلامی نے کبھی اس حلقہ سے ایک لاکھ ووٹ نہیں لئے۔ سراج الحق تو جوبھی حاصل کریں گے وہ بونس ہے۔ وہ ابھی ایک بال پر تو دو وکٹیں گرانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ ایک ایم کیو ایم کی دوسری تحریک انصاف کی۔ اس لئے ان کے لئے نقصان کا اندیشہ کم ہے۔ استعفوں کی سیاست کا بڑا فوکس قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے استعفے ہیں۔ ایم کیو ایم نے قومی اسمبلی میں قرارداد جمع کروائی ہے جس کے تحت تحریک انصاف کے ارکان قومی اسمبلی کی چالیس روز سے زیادہ روز غیر ھاضری پر ان کی رکنیت منسوخ کرنے پر بحث اور رائے شماری بھی ہو گی۔ سپیکر نے اس قراداد کو ایوان میں پیش کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ پیپلز پارٹی نے قرارداد کی مخالفت کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ مولا نا فضل الرحمٰن تو بہت غصہ میں ہیں۔ وہ تو بار بار کہہ رہے ہیں استعفے منطور ہو چکے ہیں۔ اس لئے یہ تو یقینی ہے کہ وہ اس قرارداد کے حق میں نہ صرف ووٹ دیں گے بلکہ تقریر بھی کریں گے۔ اے این پی کا ایک ہی ووٹ ہے وہ بھی تحریک انصاف کے خلاف ہی دے گی۔ لیکن حکمران جماعت کو نہ چاہتے ہوئے بھی اس قرادار کے خلاف ووٹ ڈالنا ہو گا ۔ لیکن اگر حکمران جماعت نے رائے شماری میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا تو گیم پھنس بھی سکتی ہے۔ کیونکہ اس بات کے امکانات بھی کم ہیں کہ اس قراداد کے دفاع کے لئے تحریک انصاف ایوان میں موجود ہو۔ ان کے پاس بھی بائیکاٹ کے سوا کوئی آپشن نہیں۔ اس لئے تحریک انصاف کو پیپلز پارٹی کے ووٹوں کا سہارا لینا ہو گا یہی جمہوریت ہے۔اگر حکمران جماعت نے بھی تحریک انصا ف کے حق میں ووٹ ڈالنے کا فیصلہ کیا تو پھر تحریک انصاف مشکل میں نہیں ہو گی۔ لیکن اگر ن لیگ بائیکاٹ کر گئی تو گیم پھنس جائے گی۔ استعفوں کی سیاست گرم ہے اور ابھی گرم رہے گی۔ اسی گرما گرمی میں چینی صدر کا دورہ پاکستان بھی گزر جائے گا۔ سعودی عرب فوج بھی چلی جائے گی۔ جیوڈیشل کمیشن کا کام بھی لمبا ہو جائے گا۔ اسی میں سب کی بچت ہے۔ جیسے سابق صدر پرویز مشرف کی خصوصی عدا لت گم ہو گئی ہے۔ ایسے ہی یہ کمیشن بھی گم ہو سکتا ہے۔ کیونکہ ذمہ دار ذرائع یہ کہہ رہے ہیں کہ جب عمران خان گیم ہاتھ سے نکلتے دیکھیں گے تو اس کے خلاف حکم امتناعی بھی وہی لینے سپریم کورٹ جائیں گے۔ اور اس طرح جیوڈیشل کمیشن بھی اپنے منطقی انجام کو پہنچ جائے گا۔ جیسے پرویز مشرف کی خصوصی عدالت بھی اپنے انجام کو پہنچ گئی ہے۔ جس حکومت نے جوش و خروش سے یہ عد ا لت بنائی تھی اس نے ہی اس کے خلاف حکم ا متناعی حاصل کیا ہے۔ یہی جمہوریت ہے۔خلاف حکم ا متناعی حاصل کیا ہے۔ یہی جمہوریت ہے۔

مزید :

کالم -