میڈیا گروپس کے بعد اینکرز بھی پارٹیاں بن گئے
میاں نواز شریف کی نااہلی کے بعد میڈیا گروپس کی دھڑے بندی سوشل میڈیا کے ڈراؤنے کردار نے پاکستانی سیاست کو پراگندہ کر دیا ہے۔میڈیا گروپ کے بعد اینکرز پارٹیاں بنتے نظر آ رہے ہیں سوشل میڈیا پر صحافی برادری کی کردار کشی مہم،گالی گلوچ،الیکٹرانک میڈیا پر اپنی اپنی جماعت کے حق میں دلائل اور اپنی اپنی پارٹی کے حق میں لیڈز لگانے کی روایت نے صحافت جیسے مقدس پیشے کو داغ دار کر کے رکھ دیا ہے۔میڈیا گروپ کی لڑائی تو مفادات کی لڑائی قرار دی جا سکتی ہے، مگر اینکرز کی طرف سے پیش گوئیاں، اندازے، شرطیں کچھ اور ہی کہانیاں سُنا رہی ہیں۔
تقریباً گزشتہ19سال سے بطور طالب علم صحافت سے وابستہ چلا آ رہا ہوں۔مَیں نے زیادہ گروپ تو نہیں بدلے روزنامہ ’’انصاف‘‘ کے بعد روزنامہ ’’پاکستان‘‘ ہی میں زیادہ وقت گزار رہا ہوں۔ روزنامہ ’’پاکستان‘‘ کے صاف ستھرے ماحول میں عزت اور وقار ملنے کے بعد آج تک کسی دوسرے ادارے کا کوئی لالچ بھی مجھے ادارہ بدلنے پر مجبور نہیں کر سکااس عرصے میں بڑے بڑے نام صحافت میں گزرے ہیں ان ناموں کو مَیں غیر جانبدار تو نہیں کہوں گا۔البتہ اتنا ضرور کہوں گا ان صحافیوں میں اخلاقی قدریں، وطن سے محبت اور پیشے سے لگاؤ کا سلیقہ ضرور موجود تھا۔جناب ارشاد حقانی ہوں یا جناب مجید نظامی یا پھر، سید عباس اطہر بہت سے نام لئے جا سکتے ہیں،جن کے قلم سے نکلا ہوا لفظ تحریک بن جاتا تھا، جن کی لکھی ہوئی سرخی طوفان کا پیش خیمہ ہوتی تھی،مگر ان افراد نے کبھی اپنے پیشے سے زیادتی نہیں کی تھی، اخلاق کا دامن مشکل وقت میں بھی نہیں چھوڑا تھا، زبان درازی کبھی نہیں کی تھی، طعنہ زنی اور کردار کشی ان کے قریب سے نہیں گزری تھی،پرنٹ میڈیا کی بات کر رہا ہوں پھر الیکٹرانک میڈیا کا آغاز بھی بُرا نہیں تھا، اخلاقی تقاضے پورے کئے جاتے تھے ایک دوسرے کا احترام، کارکن کی عزت کا خیال رکھا جاتا تھا پھر یکایک کیا ہو گیا سب کچھ داؤ پر لگ گیا، کیا صحافت کا نصاب بدل گیا،کیا ایم اے صحافت دو کی بجائے چار سال کی ہو گئی،کیا ٹیچر نے صحافت کی نئی تعریف متعارف کرا دی،ہر گز نہیں نہ نصاب بدلا نہ نظام بدلا نہ نصاب بدلا، بلکہ اخلاقیات کا معیار اور ہماری ترجیحات بدلنا شروع ہو گئیں، ہم نے صحافت کا جو سبق پڑھا تھا اس سے روگردانی شروع کر دی اور پھر دُنیا داری ہمارے اوپر مسلط ہوتی چلی گئی، ہم اپنے پرائے کی پہچان بھولتے چلے گئے،پہلے سرخیاں بکتی تھیں پھر پروگرام بکنے لگے اور پھر پروگرام کرنے والے خرید لئے گئے آپ کہیں گے بات کہاں سے شروع ہوئی اور کہاں تک پہنچ گئی، مَیں آپ کو اس وقت کے نامور اور منفرد صحافتی اسلوب کے چاند ستاروں کے ٹی وی پروگرامات میں فرمائے گئے ارشادات اور تحریر کئے گئے تجزیوں کی مثالیں پیش کروں گا پھر فیصلہ آپ ہی کر لیجئے۔ ہم وطنِ عزیز کے کتنے خیر خواہ ہیں اور اپنے ضمیر کے کتنے تابع ہیں، نظریات کا پرچار کرنے والوں کا عمل کیا کہتا ہے دشمنی ان کی سیاست سے ہے یا مخالفانہ رائے سے، دشمنی ان کی افراد سے ہے یا جماعت سے، ایسی صحافت کس کے لئے ہے؟دانشور حضرات کے درست اندازے اور تجزیئے وزیراعظم پاکستان کے ناہل ہونے سے پہلے کے ہیں یا بعد کے، فیصلہ آپ کریں مَیں اس پر بات بعد میں کروں گا۔
معروف اینکرز ڈاکٹر شاہد مسعود فرماتے ہیں جب نواز شریف کے خلاف فیصلہ آئے گا اُسی دن مسلم لیگ (ن) کے55 ایم این اے نئی پارٹی بنا لیں گے۔
جناب رؤف کلاسرا فرماتے ہیں میری اطلاع کے مطابق فیصلہ آنے کے تین دن بعد کے اندر اندر بغاوت ہو جائے گی، نصف ممبر نئی جماعت بنا لیں گے۔جناب ایاز میر فرماتے ہیں ماضی کی طرح مسلم لیگ(ن) 23گھنٹے کے اندر اندر ٹوٹ جائے گی۔
جناب ہارون الرشید فرماتے ہیں یہ کہاں لکھا ہے مسلم لیگ(ن) ہمیشہ قائم رہے گی۔ مجھے ایک اعلیٰ آرمی آفیسر نے بتایا ہے کہ اگر انہی کا وزیراعظم بنانا ہوتا تو اس عدالتی ایکسر سائز کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔جناب حسن نثار فرماتے ہیں اتنی مایوسی میں صرف نواز شریف کی نااہلی کا فیصلہ ہی قوم میں نئی روح پھونک سکتا ہے، دیکھنا جس دن فیصلہ آیا لوگ خوشی سے سڑکوں پر نکل آئیں گے۔ نواز شریف کی پارٹی تتر بتر ہو جائے گی جناب عارف بھٹی فرماتے ہیں فیصلہ کل آ رہا ہے نواز شریف نہ صرف نااہل ،بلکہ گرفتار بھی ہوں گے۔اڈیالہ جیل میں اس کا کمرہ تیار ہو چکا ہے، مَیں نے آج اس کا دورہ بھی کیا ہے۔
کامران شاہد فرماتے ہیں فیصلے کا دن عمران خان کی فتح کا دن ہو گا۔ امید ہے اگلے بدھ کو عمران خان اسمبلی میں اکثریت کا ووٹ لے کر وزیراعظم بن جائیں گے مَیں خود اِس ڈیل کا گواہ ہوں۔
جناب مبشر لقمان فرماتے ہیں نواز شریف کو جنگ گروپ کی ہمدردیاں لے ڈوبیں گی، کل مسلم لیگ(ن) ماضی کی جماعت بن جائے گی۔
جناب ارشد شریف فرماتے ہیں پاکستان کی پارلیمانی تاریخ گواہ ہے لیڈر بدلنے کے ساتھ ہی ان کے ارکان اسمبلی پارٹی بدل جاتے ہیں ان حالات میں مسلم لیگ(ن) انجام کو پہنچ چکی ہے۔
یہ تھے اندازے ، یہ تھیں پیش گوئیاں جو ہمارے دانشور اور اینکرز نے فیصلہ آنے سے دو دن پہلے کی تھیں۔ یہ زبان اسٹیبلشمنٹ کی تھی یا کسی ایک فرد کی، سب ناکام اور عیاں ہو چکی ہیں۔
صحافت کے نئے رموز معاشرے کے بگاڑ کا باعث بن رہے ہیں اداروں کی لڑائی کارکنان تک پہنچ چکی ہے، ایک سنجیدہ بزرگ صحافی نے فرمایا ہے کہ کسی مُلک کی صحافت اگر منزل کھو دے اُس مُلک کی بنیادیں ہل جاتی ہیں اُس مُلک کا مستقبل خطرات سے دوچار ہو جاتا ہے۔
خدا کرے ایسا نہ ہو سب اندازے سب تجزیے جس طرح ایک جماعت کو توڑنے کے لئے کئے گئے اور وہ سیاسی جماعت پھر بھی قائم ہے میرا مقصد مسلم لیگ(ن) ہر گز نہیں ہے، مسلم لیگ(ن) مثال ضروربن گئی ہے انفرادی طور اور اجتماعی طور پر صحافتی کارکنان، ایڈیٹرز حضرات اینکرز کالم نویس حضرات اور میڈیا مالکان کو اپنے اپنے اسلوب سے خود احتسابی کے عمل کو شروع کرنا ہو گا۔
وزیراعظم آتے جاتے رہیں گے۔روایات خوبصورت چھوڑ کر جانا چاہئے صحافت میں پڑنے والا گند پورے معاشرے کو لپیٹ میں لینے کے لئے تیار ہے فوری بند نہ باندھا گیا سب کچھ لٹ جائے گا تباہ برباد ہو جائے گا یہ مُلک ہے تو ہم ہیں اس کو سنوارنے کے لئے آگے بڑھنا ہو گا، صحافت کی حقیقی معراج پانے کے لئے حقیقی اسلوب سے روشنی حاصل کرنا ہو گی ورنہ تباہی اور بربادی کے ہم سب ذمہ دار ہوں گے۔