کچھ لطائف الادب

کچھ لطائف الادب

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

نجانے کیوں اردو کے نقادوں نے یہ پھبتی ایجاد کی تھی کہ ’’بگڑا شاعر مرثیہ گو‘‘۔۔۔ حالانکہ اردو مرثیے کے دو بڑے ستون میر ببر علی انیس لکھنوی اور مرزا دبیر ہرگز بگڑے شاعر نہیں تھے عمدہ غزل گو تھے۔ سید افضل حسین ثابت لکھنوی کے مطابق مرزا دبیر کے تین دوا دین پر مشتمل کلام نایاب ہے انہوں نے ایسے ایسے غزل کے شعرکہے:


مَے سے توبہ کی ستمگر نے غضب تو دیکھو


جبکہ تیار مری خاک سے پیمانہ ہُوا


۔۔۔۔۔۔۔۔۔


اگر وہ غیرتِ شمشاد جائے سیرِ گلشن کو


گلُوئے سَرو میں پہناوے قمری طوقِ گردن کو


۔۔۔۔۔۔۔۔۔


دبیر بے گُنہ مارا گیا کل اُس کے کوچے میں


بڑا افسوس یاروں کو ہُوا اس کی جوانی کا


۔۔۔۔۔۔۔۔۔


اور میر انیس کی غزل گوئی کے چند نمونے ملاحظہ ہوں:


شہید عشق ہوئے قیسِ نامور کی طرح


جہاں میں عیب بھی ہم نے کئے ہُنر کی طرح


تمہارے حلقہ بگوشوں میں ایک ہم ہی ہیں


پڑا رہے یہ سخن کان میں گُہر کی طرح


اشارے کیانگہہ نازِ دِلُربا کے چلے


جب اُن کے تیر چلے نیمچے قضا کے چلے


مثالِ ماہیِ بے آب موج تڑپا کی


حباب پھوٹ کے روئے جووہ نہا کے چلے


انیس دم کا بھروسہ نہیں ٹھہر جاؤ


چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلے


۔۔۔۔۔۔۔۔۔


خیالِ خاطرِ احباب چاہیے ہر دم


انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو



بنے تھے خاک سے پھر ہو گئے خاک


ہماری ابتداء کیا، انتہا کیا


آل احمد سُرور کون؟


مشہور نقادپروفیسر آل احمد سُرور ایک بار پاکستان آئے ان سے کسی نے پوچھا:’’واجدہ تبسم کے افسانوں کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟‘‘


جواب ملا :’’کون واجدہ تبسم؟‘‘


کسی نے واجدہ تبسم سے تصدیق چاہی کہ کیا واقعی ایسا کوئی واقعہ ہوا تھا؟


واجدہ تبسم نے بڑی معصومیت سے سوال کیا:’’یہ آل احمد سُرور کون ہیں؟


آندھیاں اُٹھتی ہیں


حضرت لبھورام جوش ملسیانی، نکودر کے کسی سکول میں اردو فارسی کے ٹیچر تھے۔ ایک دن کلاس روم میں داخل ہونے لگے تو زور کی آندھی آئی۔ جوش ملسیانی نے فی البدیہہ یہ مطلع کہہ کر طلباء کو سنایا:



اَور ہوتے ہیں جو محفل میں خموش آتے ہیں


آندھیاں اُٹھتی ہیں جب حضرتِ جوش آتے ہیں


تحریف


ایک ’’انڈوپاک مشاعرے‘‘ میں احمد فراز کے ساتھ [مختار علی خاں] پر تو روہیلہ بھی معہ بیگم شریک تھے۔ میزبانوں کے اصرار پر احمد فراز نے دوچار روز بھارت میں مزید قیام قبول کر لیا، مگر ان کے ہمسفر پر تو روہیلہ کی بیگم نے اکتاہٹ کا اظہار کرتے ہوئے فوری واپسی کے لئے جلدی مچا دی ، چنانچہ احمد فراز ایئرپورٹ تک رخصت کرنے گئے اور میر کا ایک مشہورِ زمانہ شعر فوری تحریف کے بعد بیگم پر توروہیلہ کی نذر کیا:
ناحق پر تو روہیلہ پر تہمت ہے ’’مختاری‘‘ کی


چاہے ہیں سو آپ کرے ہیں ان کو عبث بدنام کیا


عاشق


پرانی کتابوں کے اتوار بازار سے مَیں نے [ناصر زیدی نے] ’’مارگریٹ ڈیوراس‘‘ کا ناول ’’عاشق‘‘ خریدا جو شفیق ناز نے الحمرا اسلام آباد سے شائع کیا۔ فرانسیسی سے براہ راست ترجمہ بھی خود کیا۔کتاب میز پر سامنے رکھی تھی۔پاک ٹی ہاؤس میں کتاب کے سرورق پر جلی حروف میں لفظ ’’عاشق‘‘ دیکھ کر پروفیسر ڈاکٹر خواجہ ذکریا نے کہا ’’اس کتاب کی آپ کو کیا ضرورت تھی؟آپ تو خود مجسم عاشق ہیں۔


کشتِ زعفران


پنڈت برج موہن دِتاتر یہ کیفی دہلوی ایک بار لکھنو گئے تو ان کی اعزاز میں محفل شعر و سخن سجی۔ حامد علی خان بیرسٹر ایٹ لاء جو شعر و سخن کا اچھا ذوق رکھتے تھے۔ محفل میں موجود تھے، ان سے غزل یا نظم کی فرمائش کی گئی تو انہوں نے کیفی دہلوی کے کان کے پاس منھ لے جا کر یہ ’’شعر کہا:


اکتہر، بہتر، تہتر، چوہتر


پچھتر، چھہتر، ستتر، اٹھتر


اس مذاق پر کیفی دہلوی نے خوش دلی سے داد دی۔ آخر میں جب کیفی صاحب سے کلام سنانے کی فرمائش کی گئی تو انہوں نے بیرسٹر حامد علی خان کے کان کے پاس اپنا منہ لے جا کر کہا:


اکیاسی، بیاسی، تراسی، چوراسی


پچاسی، چھیاسی، ستاسی، اٹھاسی


اس پر ساری محفلِ سخن کشتِ زعفران بن گئی اور یہ لطیفہ زندہ رہ گیا۔


پتھر پڑیں گے


پانی پت میں مسلم حالی ہائی سکول کا سنگ بنیاد رکھا جا چکا تھا، دیواریں اسار دی گئی تھیں، مگر قلتِ زر کی وجہ سے چھتیں نہیں پڑ سکی تھیں، تاہم پڑھائی کا آغاز کر دیا گیا تھا۔ مولانا وحید الدین سلیم بے کاری، بے روزگاری کی زندگی گزار رہے تھے۔ مولانا الطاف حسین حالی نے خواہش ظاہر کی کہ وہ سکول میں طلباء کو اردو فارسی پڑھا دیا کریں۔ گزارے کے لئے تیس روپے ماہوار اعزازیہ قبول کرلیں، مگر مولانا وحید الدین سلیم نے اس پیشکش کو قبول کرنے کے بجائے ایک نظم لکھ کر بھجوا دی، جس کا ایک شعر یہ تھا:


کیسا نیا مکاں ہے، چھت جس کی آسماں ہے


پتھر پڑیں گے اس پر اب آگرے سے آکر


قوم کا شاعر


پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی دہلوی ویسے تو سنجیدہ شاعر تھے، مگر اندھیرے اجالے ظرافت سے بھی نہ چُوکتے تھے۔ا یک قطعہ کی صورت میں یہ ادبی لطیفہ دنیائے لطافت کو عطا کیا:


کل یہ شاگرد سے استاد نے جھنجھلا کے کہا


تو پڑھے گا نہ کبھی ہٹ میرا بھیجہ مت کھا


کند ہے ذہن ترا، ٹُھس ہے طبیعت تیری


کچھ نہ آئے گا تجھے، قوم کا شاعر بن جا!

مزید :

کالم -