گزر گیا جو پل نہ آیا

گزر گیا جو پل نہ آیا
گزر گیا جو پل نہ آیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

آصف علی زرداری پھر سے ’’کھیلن کو چاند‘‘ مانگ رہے ہیں، آئندہ الیکشن جیتنے کے دعوے کر رہے ہیں، مگر انہیں کون سمجھائے کہ اب پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے۔ آصف علی زرداری کے لئے ہماری اسی غزل کا ایک شعر ہے:
گھڑی دی ٹِک ٹِک دا مطلب اے
گزر گیا جو پل نہ آیا
ہم ایک عرصے سے کہہ رہے ہیں کہ اب یہ پہلے والا پاکستان نہیں جہاں نحوست کے سائے مسلسل چھائے ہوئے تھے۔میاں نوازشریف کی قیادت نے پاک وطن کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ عمران خان کے دھرنوں سے لے کر پانامہ لیکس کے فیصلے تک ہر جگہ ،ہر پل غیر جمہوری ہتھکنڈوں کو شکست فاش ہوئی ہے اور نواز مخالفین کے ساتھ ساتھ ان ٹی وی اینکروں کو بھی شرمندگی، بے چارگی اور بے بسی کے علاوہ کچھ نہیں ملا جو جمہوری حکومت کو روزانہ گھر بھیج کر سوتے تھے، لیکن صبح اٹھتے ہی جب انہیں پتا چلتا تھا کہ نوازشریف ہی وزیر اعظم ہیں اور پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہیں تو وہ اپنے ساتھ ساتھ ان کیمروں کو بھی کوسنے لگتے تھے جو ان کے جھوٹ بولتے چہرے عوام کو دکھاتے رہتے ہیں۔


بے شک نوازشریف کے عزم و استقلال نے ایسے ٹی وی اینکروں کے ناشتے عرصے سے خراب کر رکھے ہیں۔ سیاسی مخالفین کا جینا دو بھر ہو چلا ہے، مگر ملک و قوم ترقی و کامرانی کے نئے زینوں پر ہے۔ پی ایس ایل فائنل سے لے کر نیوز لیکس تک قوم کی ملاقات ایک نئے نوازشریف سے ہوئی ہے ۔ یہ سچ ہے کہ انرجی بحران ہمارے ملک کا بہت بڑا المیہ ہے۔ لوڈشیڈنگ کا عذاب ہمیں بری طرح گھیرے ہوئے ہے، لیکن دوسری جانب یہ بھی صاف نظر آرہا ہے کہ نوازشریف اس حوالے سے ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھے، وہ اس بحران سے بار بار ٹکرا رہے ہیں، بجلی بنانے کے نت نئے منصوبے لا رہے ہیں، پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف بھی اس جنگ میں وزیر اعظم کے ساتھ ہیں ۔آصف علی زرداری اپنی ’’بادشاہی‘‘ میں نوازشریف کو کچھ بھی کہہ سکتے ہیں، انہیں ٹوکا تو نہیں جا سکتا، لیکن انہوں نے وزیر اعظم کو ’’مغل بادشاہ‘‘ کہہ کر تاریخ کو مایوس کیا ہے۔ مغل بادشاہوں سے ایک دنیا آگاہ ہے۔ عیش و عشرت کے ساتھ ان کی سستی و کاہلی بھی پورے جہان میں مشہور ہے۔ مگر آصف علی زرداری کو کون سمجھائے کہ ایک متحرک وزیر اعظم کو مغلوں سے تشبیہ نہیں دی جا سکتی۔ وزیر اعظم نوازشریف مغل بادشاہوں کی طرح ’’کُشتے‘‘ اور مربے کھا کر پڑے نہیں رہتے، بلکہ نوجوان مجاہدوں کی طرح ایک ایک محاذ پر لڑتے دکھائی دیتے ہیں۔ کشتوں اور مربوں کے ذکر پر آصف علی زرداری کے گھوڑے بھی یاد آتے ہیں، لیکن ہم گھوڑوں اور مربوں کے ذکر میں الجھ کو وقت ضائع نہیں کرنا چاہتے۔


آخر میں ذرا سی ’’نوک جھونک‘‘ اس خبر پر کرنا چاہوں گا جو بیجنگ سے روزنامہ پاکستان کے سپیشل نمائندے عثمان شامی نے دی ہے۔ عثمان شامی کے مطابق وزیر اعظم کے دورۂ چین کے دوران خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک اور سندھ کے مراد علی شاہ کا وزیر اعظم کے ساتھ ہونا نیک شکون ہے۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ چاروں وزرائے اعلیٰ وزیر اعظم کے ساتھ چین میں موجود ہیں۔ کھانے کی میز پر وزیر اعلیٰ پرویز خٹک اور احسن اقبال کے درمیان دلچسپ مکالمہ بازی سننے کو ملی ہے، جبکہ سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ بھی سرتاج عزیز کے ساتھ کراچی سرکلر ریلوے منصوبے پر ’’مذاکرہ‘‘ کرتے رہے ہیں۔۔۔سچ مانئے ! تو یہی نوک جھونک اور مذاکرے جمہوریت کا اصل حسن ہیں، مختلف جماعتوں کے منتخب نمائندے جب مل بیٹھتے ہیں تو جمہوریت کو اخلاقی فتح نصیب ہوتی ہے، اختلافات اپنی جگہ، لیکن جب مخالف سیاسی قوتیں ملک و قوم کی خاطر ایک پلیٹ فارم پر اکٹھی ہوتی ہیں، تو پوری دنیا پر اپنی موثر دھاک بٹھاتی ہیں، جو ایک زمانے میں وزیر ہاؤس کے اصطبل میں بندھے ہوئے تھے۔ زندہ قومیں ذاتی لڑائیوں کو پس پشت ڈال کر بیرونی دنیا پر کامیاب تشخص کاتاثر چھوڑتی ہیں اور وزیر اعظم کی قیادت میں پرویز خٹک اور مراد علی شاہ کا دورۂ چین اسی شاندار تشخص و تاثر کا پیش خیمہ ہے۔ بیشک وزیر اعظم کا حالیہ دورہ اس حوالے سے بھی کامیاب ترین ہے اور ان کامیابیوں، کامرانیوں کے پیچھے وزیر اعظم کا ’’براڈ ویژن‘‘ ہے۔

مزید :

کالم -