عدالتِ عظمیٰ کا فیصلہ اور دفعات 63-62

عدالتِ عظمیٰ کا فیصلہ اور دفعات 63-62
عدالتِ عظمیٰ کا فیصلہ اور دفعات 63-62

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

سوال:کیاملک کے ذمے داران اورعوامی نمائندوں کاصادق اورامین ہوناضروری ہے؟بعض لوگ کہتے ہیں کہ صادق اورامین صرف نبی ہی ہوسکتے ہیں، کوئی دوسرانہیں ہوسکتانہ کوئی دوسراانسان مکمل صادق اورامین ہوسکتا ہے۔ اس لیے وہ لوگ کہتے ہیں کہ دستور کی شق 63-62کاختم ہوناضروری ہے۔ (ایک سائل از لاہور)


جواب: میاں نوازشریف کے خلاف عدالتی فیصلے اوران کی وزارتِ عظمیٰ سے معزولی کے بعد بالعموم چارپانچ تصور یارجحان سامنے آئے ہیں۔۔۔ پہلارجحان تویہی ہے جو سوال کی صورت میں مذکور ہوا۔ اس رجحان میں دومغا لطے کارفرماہیں۔ ایک تویہ کہ صادق اورامین صرف نبی ہی ہوسکتے ہیں، عام انسان اس وصف یاخوبی سے متصف نہیں ہوسکتے۔ دوسرامغالطہ جواسی سوچ کا منطقی نتیجہ ہے کہ دفعہ 63-62کو ختم کردیاجائے۔۔۔یہ سوچ اوراس پرمبنی نتیجہ دونوں یکسرغلط ہیں۔


نبی بلاشبہ صادق اورامین ہو تے ہیں۔ علاوہ ازیں وہ معصوم بھی ہوتے ہیں جس کامطلب یہ ہے کہ کسی مرحلے میں نبی سے امانت و صداقت سے ذرا سابھی انحراف ہوتواللہ تعالیٰ کی طرف سے فوراً متنبہ کردیاجاتا ہے جس کے نتیجے میں ان کی فی الفٖوراصلاح ہوجاتی ہے۔عام انسان اس تنبّہُ الہٰی سے بالعموم محروم ہوتے ہیں۔ اس لیے ان کی معمولی فروگزاشتوں سے صرف نظرکرکے ان کے مجموعی کردارکو ملحوظ رکھنے کاحکم ہے۔ بنابریںآئین کی 63-62دفعات کے خاتمے کارجحان نہایت خطرناک ہے، اس کامطلب تویہ ہوگاکہ اسلام کے جس حکم پربھی ہم عمل کرنا نہ چاہیں یاہمیں اس پرعمل کرنامشکل نظرآئے توہم یہ مطالبہ کریں کہ اس کو سرے سے ختم ہی کردیاجائے۔ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔


زیربحث دفعات اسلامی احکام پرمبنی ہیں اوراسلام کاکوئی حکم ایسا نہیں ہے کہ انسانوں کے لیے ان پر عمل کر ناممکن نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے (البقرۃ :286) ’’اللہ تعالیٰ کسی نفس کو ایسی ذمہ داری کا حکم نہیں دیتاجواس کی طاقت سے بالاہو ‘‘۔ ہاں اس کے تحمل اور ادائیگی میں مشقت ہوسکتی ہے۔ لیکن دنیاکاکون سا کام ایسا ہے جس میں مشقت نہ ہو۔ اگراللہ کے حکم پرعمل کرنے میں مشقت ہوتواس کواس مشقت کی وجہ سے ناممکن العمل قرار دیاجاسکتا ہے؟نہیں ہرگزنہیں بلکہ جس طرح دنیاکاہرکام، چاہے اس میں کتنی ہی مشقت ہو، کرتے ہیں بلکہ یہ سوچ کرکرتے ہیں کہ جتنی زیادہ محنت اورمشقت ہو گی، اس کاصلہ اورنتیجہ بھی اچھاملے گااورفی الواقع ایساہی ہوتا ہے۔ اِلاان شاء اللہ۔ اسی طرح اللہ کے احکام پرعمل کرنے میں جتنی محنت ومشقت برداشت کی جا ئے گی یا لذات وخواہشات نفسانی کی جتنی زیادہ قربانی دی جائے گی، اللہ کے ہاں اس کااجروصلہ بھی اتناہی زیادہ ہوگا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان گرامی ہے۔(جامع الترمذی، حدیث : 2396 حسن صحیح )

’’ آزمائش جتنی بڑی ہوگی، جزابھی اتنی ہی بڑی ہوگی‘‘۔۔۔بلکہ ایک اور حدیث میں ہے۔(صحیح مسلم ، حدیث : 2822)
’’ جنت کوایسے کاموں سے ڈھانپ دیاگیا ہے جن کاکرنا نفس پر گراں ہے اور جہنم کوشہوات(انسان کے مرغوب کاموں)سے ڈھانپ دیاگیا ہے‘‘۔
-2دوسرارجحان عدالتی فیصلے کے بارے میں ہے اوروہ یہ ہے کہ معززججوں نے یہ فیصلہ خُردبین سے جائزہ لے کرکیاہے۔ عدالتی فیصلے کے بارے میں یہ محتاط ترین رائے ہے۔ ہماری ناقص رائے میں اس رائے کی بنیاد پریہ کہاجاسکتا ہے۔کہ فاضل ججوں سے جس حکمت ودانش کی توقع کی جاتی ہے، وہ اس فیصلے میں نظرنہیں آتی، اس کے برعکس ایسا معلوم ہوتاہے کہ ایک سوچاسمجھا فیصلہ تھاجس کے لیے ایساسہارالیاگیاہے جونہایت کمزور ہے۔ یہ فیصلہ جتنا بُرا تھا، اس کی صحت کے لیے ضروری تھاکہ دلیل بھی نہایت قوی اورمضبوط ہوتی ۔صرف یہ دلیل کہ جورقم وہ قانونی طور پر وصول کرنے کے مجاز تھے، وہ وصول نہیں کی اوریہ میاں صاحب نے اپنے اثاثوں میں ظاہرنہیں کی، لہذاوہ غلط بیانی کے مرتکب ہوئے اوریوں وہ صادق اورامین نہیں رہے، ڈوبتے کو تنکے کا سہارا،کے مصداق ہے۔ میاں صاحب کو ڈبونامقصودتھا، اس کے لیے اس سہارے کو کافی سمجھ لیاگیا۔ یعنی واضح طورپران کو ایسی کوئی چیز نہیں ملی جس کو کرپشن کہاجاسکے۔ صرف صغرے کبرے ملاکرایک نتیجہ اخذ کیاگیا ہے۔ جس سے اتنا بڑا فیصلہ کردیاگیا کہ سینٹ کے چئیرمین رضاربانی کو یہ کہناپڑا کہ یہ اسمبلی کوتحلیل کرنے کاایک نیاطریقہ ایجاد کرلیاگیا ہے۔ نیز یہ پارلیمنٹ کی با لادستی کے خلاف ہے۔ نہایت اونچے منصب پر فائزشخصیت کا یہ تبصرہ، عدالتی فیصلے کی بابت جس تاثر کی غمازی کررہاہے، وہ محتاج وضاحت نہیں۔ بنابریں بہتر ہے کہ فیصلے پرنظرثانی کی صورت میں عدالت بھی اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے اورایسافیصلہ صادرکرے جس سے عدالت کی بابت منفی تاثرات ختم ہوجائیں۔ اس قسم کے تاثرا ت عدالت کے وقار کے خلاف ہیں۔جس کاموقع خود معززججوں نے مہیاکیا ہے:
اے باد صبا ایں ہمہ آور دۂ تُست

تیسرارجحان یہ سامنے آیاہے کہ 63-62دفعات کااطلاق صرف ممبران اسمبلی ہی کے لیے ضروری نہ ہوبلکہ تمام سرکاری اہل کاروں بالخصوص بڑے بڑے سرکاری عہدوں پر فائزافراد کے لیے بھی ضروری قراردیاجائے۔ یہ تجویز بھی نہایت اہم اورضروری ہے۔ ہر محکمے میں جس طرح کرپشن عام ہے اورجس کے پاس جتنابڑا عہدہ ہے، وہ اتناہی کرپٹ ہے۔ افسران بالاکی کرپشن کی داستانیں آئے دن اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہے۔ اس کاحل یہی ہے کہ ان دفعات کے اطلاق کو وسیع کیاجائے اورسرکاری اہل کاروں بالخصوص افسران بالاکو اس شکنجے میں کسنے کااہتمام کیاجائے :
نوارا تلخ ترمی زن چو ذوقِ نغمہ کم یابی
چوتھا تاثر یہ سامنے آیا ہے کہ جب مکمل طور پر اہل تر افراد میسر نہ ہوں تو کم تر اہلیت کے حامل افراد بھی قابل قبول ہوتے ہیں اور یہ ایسا اصول ہے کہ زمینی حقائق کی روشنی میں ہر معاشرے اور ہر شعبے میں اسے روبہ عمل دیکھا جا سکتا ہے، بلکہ اس کے بغیر چارہ ہی نہیں اور جب ایسا ہے تو صرف وزارتِ عظمیٰ پر فائز شخص کے لئے اہلیت کا ایسا اعلیٰ معیار، ایک آئیڈیل کے طور پر توصحیح ہے، لیکن اسے فرض و لازم سمجھنا ایک نامناسب رویہ ہے۔ زیر بحث فیصلے میں ایسے ہی نامناسب رویے کا پرتو نظر آتا ہے۔ انتخابات کے موقع پر کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال میں دفعہ 62،63 سامنے ہوتی ہے، اس کے باوجود جن کو انتخاب لڑنے کا اہل قرار دیا جاتا ہے، کیا وہ واقعی مذکورہ دفعات کی روشنی میں انتخاب لڑنے کے اہل ہوتے ہیں؟ اگر ایسا ہوتا تو فیصلے کے بعد لوگوں کا یہ کہنا کہ تمام ممبران اسمبلی ان دفعات کی رُو سے نااہل ہیں، کیا حیثیت رکھتا ہے؟ اس کا مطلب یہی تو ہے کہ ان کو اہل سمجھ کر انتخاب لڑنے کا موقع دیا گیا۔ دراں حالیکہ وہ اہل یا اہل تر نہیں تھے اور اسمبلیوں پر براجمان ہونے کے باوجود ان کی اہلیت، سوالیہ نشان ہے۔ پھر وزیراعظم کے لئے ایسا کڑا معیار کیوں جس پر شاید ہی کوئی ممبر اسمبلی پورا اتر سکے؟

پانچواں تاثر یہ ہے کہ دراصل یہ الٰہی فیصلہ ہے ، جس کو ٹالنے پر کوئی قادر نہیں ہے۔ اتنی چھان بین کے باوجود عدالت کو اور مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کو کوئی واضح چیز ایسی نہ مل سکی جس کو کرپشن قرار دیا جا سکے۔ اس کے باوجود عدالت نے نااہل قرار دے دیا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے،جس کا اظہار اللہ نے ججوں کے ذریعے سے کروایا ہے۔ اس فیصلہ ء الٰہی میں خدا فراموشی کا یہ نتیجہ دکھائی دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میاں صاحب کو متعدد مرتبہ موقع دیا لیکن اسے سرد خانے کی نذر کر دیا گیا۔ عدالت نے نفاذ اردو کا حکم دیا، اسے بھی کوئی اہمیت نہیں دی گئی، حالانکہ یہ فیصلہ بھی ایسا تھا کہ 20کروڑ عوام کو اس سے بے پناہ فائدے حاصل ہوتے۔کرپشن ہر محکمے میں عام ہے، اس کے انسداد کی بھی کوئی صورت تجویز نہیں کی گئی، گویا یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ حالانکہ یہ بھی ایک اہم ترین مسئلہ ہے۔ و علیٰ ہذا القیاس متعدد ایسے مسائل ہیں، جن کا حل حکومتی سطح پرنہایت ضروری ہے۔ اس لئے اس رائے میں بھی بہت وزن ہے۔ یہ مواخذۂ الٰہی ہے، جس کے لئے توبہ و استغفار اور آئندہ کے لئے تصحیح نیت ضروری ہے۔پھر اللہ کا وعدہ ہے ان تنصروا اللہ ینصر کم۔ (سورۂ محمدؐ)
’’اگر تم اللہ (کے دین) کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا‘‘۔۔۔ افسوس اس وعدۂ الٰہی پر نہ کوئی یقین کرتا ہے اور نہ اس کے لئے کوشش ہی کرتا ہے بلکہ اس کے برعکس ہر برسراقتدار شخص یہ سمجھتا ہے کہ اگر میں نے دین کی طرف کوئی قدم اٹھایا تو بین الاقوامی طاقتیں، جن کے شکنجے میں ہماری حکومتیں بری طرح جکڑی ہوئی ہیں، مجھے اقتدار پر فائز نہیں رہنے دیں گی، لیکن جس اللہ کے پاس تمام اختیارات ہیں، اس کی قوت و قہرمانی کو وہ فراموش کئے رکھتا ہے، اس کے مواخذہ کا کوئی خوف اسے محسوس نہیں ہوتا، بالآخر وہ اس کی گرفت میں آکر ہی رہتا ہے۔


کاش میاں نوازشریف اب بھی اس نکتے کو سمجھ لیں اور ان کی اتحادی دینی جماعتیں بھی ان کی ذہنی تطہیر کی کوشش کریں تو شاید وہ آئندہ کوچہ ء اقتدار سے اس طرح بے آبرو ہو کر نہ نکلیں۔ اس کے لئے ان کا اور مسلم لیگ(ن) اور ان کی اتحادی جماعتوں کا اولیں قدم یہ ہونا چاہیے کہ وہ دفعات 62،63 کے خاتمے کا قطعاً مطالبہ نہ کریں۔ یہ دفعات نہایت ضروری ہیں۔ ان کے اطلاق میں غلطی کا امکان ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ حالیہ فیصلے میں بھی بعض حلقوں کا یہ تاثر ہے، لیکن بعض افراد کی غلطی سے، اگر وہ واقعی غلط اطلاق کا نتیجہ ہے، ان دفعات کے ختم کرنے کے مطالبے کا جواز نہیں بن سکتا۔ ان دفعات کی اہمیت، افادیت و ضرورت، بلکہ ناگزیریت مسلم ہے۔ ان کے خلاف آواز اٹھانا مسلم لیگ (ن) کے لئے نہایت خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ وہ مذہبی ذہن رکھنے والوں کی ایک بہت بڑی اکثریت کی حمایت سے ہاتھ دھو بیٹھے گی۔ اس سے قبل سیاست دانوں کو نااہل قرار دینے کے لئے بعض قوانین بنائے گئے تھے جیسے ایبڈو(الیکٹڈ باذیز ڈس کوالیفکیشن آرڈر) مجریہ 1959ء اور پوڈو (پبلک آفس ڈس کوالیفکیشن آرڈیننس ) مجریہ 1962ء، وغیرہ ان کا مقصد اہل سیاست کو سیاست سے بے دخل کرنا تھا۔ اس وقت کے اہل سیاست کرپشن کی ان صورتوں سے نا آشنا تھے جو اب عام ہیں نہ سیاست سے ان کا مقصد دولت یا وسائل دولت کا حصول ہی تھا۔ اس وقت سیاست دولت لٹاکر قوم کی خدمت کرنے کے جذبہ کا نام تھا، لیکن اس وقت اقتدار پر فائز فوجی حکمران نے، غلط یا صحیح، اپنے طور پر یہ سوچا کہ میں ان کے اقتدار میں آنے کا راستہ بند کر دوں، تاکہ میں یکسوئی سے ملک کو ترقی کی راہ پر ڈال سکوں۔


جس وقت 62،63 دفعات کو دستور کا حصہ بنایا گیا، صورت حال یکسر تبدیل ہو چکی تھی، سیاست دان یا غیر سیاسی لوگ سب دولت کی ہوس کا شکار تھے اور کرپشن کی داستانیں عام تھیں، اس کے سدباب کے لئے مذکورہ دفعات نافذ کی گئیں جو فی الواقع اخلاص پر مبنی تھیں نہ کہ بدنیتی پر۔ اب کرپشن کی صورت حال پہلے سے کہیں زیادہ خراب ہے ، اس لئے یہ دفعات نہایت ضروری ہیں، تاکہ کرپٹ لوگ سیاست میں نہ آ سکیں اور اگر آ جائیں تو ان کا محاسبہ کیا جا سکے۔

مزید :

کالم -