نونہالوں نے قربان ہو کر قوم کو متحد کر دیا
16 دسمبر 1971ءکا المیہ اور اب 16 دسمبر 2014ءقومی سانحہ پر قوم غم سے نڈھال ہر فرد خون کے آنسو رو رہا ہے۔ 132 نونہالوں اور مستقبل کے معماروں کی قربانی اور 12 اساتذہ اور فوجی جوانوں کی شہادتیں پوری امت مسلمہ کو سوگوار کر گئی ہیں پاکستان سمیت دنیا بھر میں سوگ منایا جا رہا ہے۔
”حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے“
دل ہمارے غم سے بھاری ہیں آنکھیں تکلیف سے نم ہیں والدین کے ہاتھوں بچوں کا جنازہ اٹھانا ایک صبر آزما آزمائش ہے جو بظاہر انسانی قوانین کے خلاف لگتا ہے آرمی سکول میں برپا ہونے والی قیامت یقیناً پوری قوم کے لئے ایک بڑا سانحہ ہے معصوم بچوں اور بہادر اساتذہ اور جرا¿ت مند خاتون پرنسپل کی شہادت رائیگاں نہیں گئی پاکستان کے مستقبل پر قوم کے نہالوں نے قربان ہو کر پاکستانی قیادت کو ایک میز پر بٹھا دیا ہے عموماً کہا جاتا ہے شر سے خیر برآمد ہوتا ہے دہشت گردی کی مذمت جتنی کی جائے کم ہے مگر اس المناک واقع کے پاکستان پر اثرات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ آرمی چیف کے دلیرانہ فیصلے اور دور اندیشی سے اُٹھائے گئے اقدامات نے عوام کے منتشر جم غفیر کو قوم بننے کی راہ دکھائی ہے قومی قیادت وہ سیاسی ہو یا مذہبی سب کو سرجوڑ کر بیٹھنے اور باہمی اختلافات ختم کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ یہ معمولی بات نہیں ہے یہ نونہالوں کی قربانیوں کا ثمر اور شہادتوں کے اثرات ہیں جو فوری مرتب ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ اگر تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے پشاور کی بدترین دہشت گردی کے بعد قوم میں 1965ءکی جنگ جیسا جذبہ پیدا ہوگیاہے۔
عمران خان کے 126 دنوں کے دھرنے اور تحریک انصاف کی نتیجہ خیز ہوتی تحریک کے باوجود عمران خان کی طرف سے دھرنا ختم کرنے کے اعلان کو مذاق میں نہیں لینا چاہئے، بچوں کی لازوال قربانی سے رقم ہونے والی داستان کا نتیجہ ہے کہ عمران خان نے قومی قیادت کو متحد ہونے کے لئے اپنی احتجاجی تحریک ختم کر کے موقع فراہم کیا ہے اس کو سنجیدہ لینا چاہئے۔ عمران خان کے دھرنے کے خاتمے سے حکومت نے سکھ کا سانس لیا ہوگا لینا بھی چاہئے میں یہ کہوں گا حکومت کو فائدہ اُٹھانا چاہئے جناب رحمن ملک جناب سراج الحق اور جرگہ کے دیگر ارکان حکومت اور عمران کے درمیان مذاکرات شروع کرانے اور میز پر بٹھانے کے لئے سرگرم عمل ہے۔ ان کی کوششیں اپنی جگہ قا بل ستائش ہیں مگر تحریک انصاف کے سربراہ کا دہشت گردی کے خلاف مہم جوئی میں قومی قیادت کے ساتھ بیٹھنا بہت ہی مبارک اور قابل قدر ہے۔ عمران خان کا ضد ختم کرنا بھی نونہالوں کی قربانیوں کا ثمر ہے دہشت گردوں کے لئے سزائے موت پر عائد پابندی ختم کر دی گئی ہے اس کا کریڈٹ یقیناً آرمی چیف جنرل راحیل اور وزیر اعظم میاں نوازشریف کو جاتا ہے سزائے موت کا قانون ختم کرنا بحثیت مسلمان نبی آخر الزمانﷺ کے بتائے گئے قوائد کے خلاف بغاوت ہے کن طاغوتی طاقتوں کے حکم پر گزشتہ6 سال سے سزائے موت کا قانون التوا کا شکار تھا اس کو ایک جانب رکھتے ہوئے میں اتنا ہی کہوں گا دیر آئے درست آئے والی بات ہے آرمی چیف نے حکمرانوں کی نہیں پوری قوم کی ا ٓنکھیں کھول دی ہیں قتل کا بدلہ قتل کسی انسان کا بنایا ہوا قانون نہیں ہے اللہ کا حکم قانون ہے اور رسول کا فرمان ہے اس کی حکم عدولی ممکن نہیں ہے قوم کے نونہالوں کے خون نے بھولے ہوﺅں کو راستہ دکھا دیا ہے۔ سزائے موت کو صرف دہشت گردوں تک محدود نہیں رکھنا چاہئے بلکہ فرمان خداوندی کے مطابق قتل کا بدلہ قتل کے قانون کو ہی اسلامی اصولوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے عمل درآمدیقینی بنانا چاہئے۔ جمعرات کے اخبارات میں بعض کارکنان تحریک انصاف اور سیاسی رہنماﺅں نے عمران خان کی طرف سے دھرنا ختم کرنے کو ان کی سیاسی موت قرار دینے کی کوشش قرار دیا گیا ہے یہ غلط ہے اگر ایماندارانہ تجزیہ کیا جائے تو عمران خان نے قومی قیادت کو متحد کر کے قوم کے لئے ایک مثال بن کر سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کیا ہے اس سے عمران کا قد ہی نہیں بڑھا آنے والے وقتوں میں اس کے ثمرات بھی سمیٹنے کا موقع ملے گا اے پی سی کا کامیاب انعقاد نیک شگون ہے۔ 2015ءکو امن کا سال بنانے کی امیر جماعت اسلامی سراج الحق کی تجویز پر پوری قیادت کا اتفاق بھی قابل ستائش ہے کسی جماعت یا رہنما کو شک کی نگاہ سے دیکھنے کی روایت ختم کرتے ہوئے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے وزیر داخلہ کی قیادت میں پلان بنانے کے لئے قائم کی گئی کمیٹی کو بھی سنجیدگی سے لینا چاہئے اے پی سی کی قراردادوں پر عمل درآمد کی ہماری تاریخ کچھ اچھی نہیں ہے گزشتہ 12 سال کے دوران مختلف مواقع پر منعقد ہونے والی اے پی سی میں منظور کی گئی قراردادوں اور بنائی گئی کمیٹیوں نے ہماری قومی سیاست اور عوامی سطح پر مثبت اثرات نہیں چھوڑے اس لئے پاکستانی تاریخ کی منظم ترین اے پی سی کے فیصلوں پر عمل درآمد پر سنجیدگی دکھانے کی ضرورت ہے۔ پشاور کا سانحہ یقیناً بدترین اور بڑا ہے مذمت کرنے تک محدود نہیں رہنا چاہئے۔ آرمی چیف نے فوری قابل جا کر جرا¿ت مندی کا مظاہرہ کیا ہے اس کے اثرات سمیٹنے کے لئے قومی قیادت کے ساتھ ساتھ پوری قوم کو پاک فوج کی پشت پر کھڑا ہونا پڑے گا۔
جائنٹ انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ کا اب تک صرف وسائل کی وجہ سے قائم نہ ہونا بھی لمحہ فکر یہ ہے! اس کے لئے قوم کردار ادا کر سکتی ہے اللہ نے ہماری قومی قیادت کے دل نرم کئے ہیں تو حکومت کو اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے اور یک نکاتی ایجنڈا اپناتے ہوئے آرمی چیف اور وزیر اعظم کو قوم سے وسائل طلب کرنے چاہئیں۔
میرے خیال میں 65ءاور 71ءمیں ہونے والی جنگوں سے بڑی جنگ پاک فوج اس وقت ضرب عضب کی صورت میں لڑ رہی ہے 65ءاور 71ءسے کئی گناہ زیادہ وسائل درکار ہیں اس کے لئے آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور وزیر اعظم میاں نوازشریف کو پوری قوم کو وسائل کے لئے پکارنا چاہئے وزیر اعظم صاحب کے قوم سے خطاب کی امید کی جا رہی ہے اس میں اگر ملکی اور غیر ملکی محب وطن حضرات سے ایک لاکھ فی کس بھی مانگے جائیں ایک کروڑ افراد کو ہدف بنایا جائے تو کھربوں روپے اکٹھے ہو سکتے ہیں۔
پاک فوج کے جوان اپنی جانیں تو قربان کر رہے ہیں مگر وسائل فراہم کرنا تو یقیناً حکومت اور عوام کا کام ہے۔ حکومت کو سادگی کی مثال بنتے ہوئے قومی قیادت اور قوم میں پیدا ہونے والی بیداری کا فائدہ اُٹھانا چاہئے۔ عمران خان کے دھاندلی کے خاتمے کے لئے کمیشن کے قیام کے مطالبے اور الیکشن کمشن کی تشکیل نو کے مطالبے کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے عالمی مارکیٹ میں پٹرول کی کم ہوتی قیمتوں کا بھی فائدہ اٹھانے کا وقت ہے۔ میرے خیال میں اب حکومت کے پاس عمران خان کی احتجاجی تحریک کی وجہ سے عوام کو ریلیف نہ دینے کا گلا بھی نہیں رہااس کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے 12 گھنٹے چلنے والے ٹیوب ویلوں کو 24 گھنٹے چلانے، ہفتے میں دو دن چلنے والی صنعتوں کو پورا ہفتہ چلانے کے لئے منصوبہ بندی کرنا چاہئے۔ پٹرول سستا ہونے کا فائدہ عوام کو دلانے کے لئے حکومت کو اگر ڈنڈا اٹھانا پڑے تو گریز نہیں کرنا چاہئے قوم کی تعمیر کا وقت ہے۔ زراعت کو ترجیح بناتے ہوئے عوام کے روز مرہ استعمال کی اشیاءکی کم قیمتوں میں فراہمی کے لئے بھی اقدامات کرنے کا وقت آ گیا ہے۔