انتہا پسندی کے خطرات اور یونیورسٹیوں کے حالات

انتہا پسندی کے خطرات اور یونیورسٹیوں کے حالات
 انتہا پسندی کے خطرات اور یونیورسٹیوں کے حالات

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ایک طرف فوج اس فکر میں مبتلا ہے کہ یونیورسٹیوں میں انتہا پسندی اور داعش کے بڑھتے ہوئے قدم کیسے روکے، تو دوسری طرف یونیورسٹیوں کا اپنا حال یہ ہے کہ ان میں نظم و ضبط نام کی کوئی چیز موجود نہیں اور ہریونیورسٹی مسائل کا گڑھ بنی ہوئی ہے۔ طلبہ سیاست کے ساتھ ساتھ اساتذہ اور ملازمین کی سیاست بھی یونیورسٹیوں کے حالات کو بدسے بدتر بنانے کی طرف لے جارہی ہے، ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور جب راولپنڈی میں بلائی جانے والی یونیورسٹیوں کے طلبہ و طالبات ، اساتذہ اور انتظامیہ کی مشترکہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے یہ انتباہ کررہے تھے کہ ہمیں جامعات میں انتہا پسندانہسوچ کو پروان چڑھنے سے روکنا ہے اور ساتھ ہی طلبہ و طالبات کو درس دے رہے تھے کہ وہ داعش کے چنگل میں نہ پھنسیں،جو اسلام کو غلط رنگ میں پیش کرکے انہیں انتہا پسندی کی طرف راغب کررہی ہے، تو انہیں شاید علم نہیں تھا کہ ہماری جامعات کی انتظامیہ اتنی صلاحیت ہی نہیں رکھتی کہ وہ کوئی جرأت مندانہ قدم اُٹھاسکے۔ وہ زیادہ سے زیادہ یہ نوٹیفکیشن جاری کرسکتی ہے کہ یونیورسٹی کے پارکوں یا کینٹین پر مخلوط پارٹیاں نہ کی جائیں۔ طلبہ وطالبات ایک ہی یونیورسٹی میں ہونے کے باوجود صرف کلاس کی حد تک ایک جگہ بیٹھیں بعدازاں ایک دوسرے کے لئے اجنبی بن جائیں۔ طلبہ وطالبات کی کردار سازی پر توجہ دینے کی بجائے، ایسے لیپا پوتی جیسے اقدامات کے ذریعے نوجوان نسل کے اندر بغاوت کو اُبھارنے کی کوشش کی جاتی ہے اور زبردستی کے اس انداز کو اخلاقیات اور مذہب کا لبادہ پہنا دیا جاتا ہے۔


مردان یونیورسٹی میں جو کچھ ہوا، وہ اسی جعلی اور مصنوعی اخلاقی عمل کا نتیجہ ہے۔ ہم اپنے نوجوانوں کی ذہن سازی کرنے کی بجائے، انہیں خود انتہا پسندی کی طرف لے جانے کا باعث بن رہے ہیں، کیا اب تک تفتیش کے بعد یہ حقیقت سامنے نہیں آگئی کہ مردان یونیورسٹی کے واقعہ میں خود یونیورسٹی کے ماحول اور انتظامیہ کا بڑا حصہ تھا۔ کیا مشال خان کے قتل میں یونیورسٹی کے ملازمین اور اساتذہ کے ملوث ہونے سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ یونیورسٹی میں انتظامیہ نام کی کوئی شے موجود ہی نہیں تھی اور کرپشن نیز عہدوں کی بندربانٹ کے باعث ہر ایک کی خواہش تھی کہ کوئی اس کے خلاف آواز بلند نہ کرے۔ مشال خان نے ایک سے زائد عہدے رکھنے والوں کی نشاندہی کی، تو اسے نشانِ عبرت بنانے کے لئے گھناؤنی سازش تیار کی گئی۔یہ صرف مردان یونیورسٹی کے حالات نہیں، ہر یونیورسٹی میں ایک خاص ٹولہ یونیورسٹی پر قابض ہو جاتا ہے اور پھر یونیورسٹی رسہ کشی کا اکھاڑہ بن جاتی ہے۔


افسوسناک صورت حال یہ ہے کہ ہم آج تک یہی طے نہیں کرسکے کہ یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کیسے لگانے ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ نے کچھ عرصہ پہلے پنجاب حکومت کی اسی حوالے سے بے قاعدگیوں کا نوٹس لیتے ہوئے کئی قائم مقام وائس چانسلرز کو فارغ کردیا اور حکم دیا کہ ان کی جگہ نئے وائس چانسلرز میرٹ پر لگائے جائیں، وہ دن جائے اور آج کا دن آئے، پنجاب حکومت وائس چانسلرز لگانے کا عمل ہی مکمل نہیں کرسکی۔ جس طرح مردان یونیورسٹی میں مستقل وائس چانسلر کے بغیر کام چلایا جارہا تھا، اسی طرح ملک کی کئی یونیورسٹیاں وائس چانسلرز کے بغیر چل رہی ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی میں پچھلے دنوں جو خون ریز لڑائی ہوئی، اس کے پیچھے بھی کمزور انتظامیہ ہی ایک وجہ تھی۔ کئی بار خفیہ ایجنسیاں اس بات کو طشتازبام کرچکی ہیں کہ یونیورسٹیوں کے ہاسٹلز جرائم پیشہ افراد کی پناہ گاہ بنے ہوئے ہیں۔ جہاں کثیر تعداد میں اسلحہ بھی موجود ہے، اس پر کبھی کبھار کارروائی ہوتی ہے، مگر سوال یہ ہے کہ یونیورسٹی کی اپنی انتظامیہ کہاں سوئی ہوتی ہے کہ اس کی موجودگی کے باوجود ہاسٹلز میں بیرونی عناصر رہتے ہیں اور اسلحہ بھی لے آتے ہیں، ہاسٹلز کی نگرانی کے لئے اساتذہ کو وارڈن اور سپرنٹنڈنٹ کی ذمہ داری سونپی جاتی ہے، مگر لگتا یہی ہے کہ وہ صرف اپنے مفادات کی حد تک ان ہاسٹلز سے چپکے رہتے ہیں، طلبہ کا سامنا کرنا ان کے بس کی بات نہیں۔


میں یہاں خصوصی طور پر بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ آج کل یہ یونیورسٹی سرزمین بے آئین بنی ہوئی ہے۔ ڈیڑھ دو ماہ پہلے یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹرطاہر امین خرابئ صحت کی بنا پر چھٹی لے گئے، اسلام آباد میں ان کا بائی پاس آپریشن ہوا، پیچیدگی کی وجہ سے وہ ابھی تک واپس نہیں آئے۔ ان کی عدم موجودگی میں یونیورسٹی کے قائم مقام وائس چانسلر کی ’’جنگ ‘‘ چھڑ گئی۔ ڈاکٹر طاہر امین ایک جونیئر پروفیسر ڈاکٹر بشیر احمد کو چارج دے گئے تھے۔

جسے ایک سنیئر پروفیسر ڈاکٹر طارق محمود انصاری نے چیلنج کیا، جس پر ہائر ایجوکیشن پنجاب نے یونیورسٹی کے روزمرہ امور نمٹانے کے لئے انہیں مقرر کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا۔ اس پر جھگڑا ہوگیا۔حماقت درحماقت کی مثال دیکھئے کہ محکمہ ہائر ایجوکیشن پنجاب نے دباؤ بڑھنے پر یہ نوٹیفکیشن جاری کیا کہ ڈاکٹر طارق محمود انصاری کو 5مئی 2017ء تک کے لئے یہ ذمہ داری دی گئی تھی۔ یاد رہے کہ یہ نوٹیفکیشن بھی 14مئی کو جاری کیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ جب مستقل وائس چانسلر واپس ہی نہیں آئے تو ہائر ایجوکیشن والے یہ کھیل کیوں کھیلتے رہے؟ اب صورت حال یہ ہے کہ یونیورسٹی میں کسی کو کچھ پتہ نہیں کہ ادارے کا سربراہ کون ہے۔ بات یہیں تک ختم نہیں ہوئی، بلکہ قصۂ حماقت کا ایک باب یہ بھی ہے کہ ملتان میں قائم خواتین یونیورسٹی میں بھی کوئی وائس چانسلر موجود نہیں اور اس کے روزمرہ معاملات کو چلانے کے لئے ایڈیشنل چارج زکریا یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو دیا گیا تھا۔ یوں عملاً دونوں یونیورسٹیوں میں اس وقت وائس چانسلرز موجود نہیں، جبکہ یونیورسٹی میں لڑائی جھگڑے، خواتین سے پرس چھیننے، سکیورٹی کے حوالے سے حالات کی خرابی اور طلبہ تنظیموں کے درمیان مارکٹائی کے واقعات روزانہ ہی پیش آتے رہتے ہیں۔ حالات کو بہتر بنانے کے لئے ایک مضبوط انتظامی افسر کی ضرورت ہے، مگر یہاں تو سرے سے افسر ہی موجود نہیں۔ ڈاکٹر طاہر امین جب رخصت پر نہیں گئے تھے، تب بھی وہ ہفتے میں تین دن ملتان رہتے تھے اور چار دن لاہور یا اسلام آباد چلے جاتے تھے، جہاں ان کے گھر موجود ہیں۔


یہ مَیں نے صرف یونیورسٹی کے حالات کی ایک ہلکی سی جھلک پیش کی ہے ۔اکثر یونیورسٹیوں کے موجودہ اور سابق وائس چانسلرز کے خلاف نیب کارروائی بھی کر رہا ہے۔ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے وائس چانسلر کے خلاف ریفرنس کی تیاری جاری ہے۔ بہاء الدین ذکریا یونیورسٹی میں بھرتیوں کا معاملہ نیب کے زیر تفتیش ہے۔ اسی طرح فاصلاتی نظامِ تعلیم میں کروڑوں کے گھپلے کا کیس بھی نیب کی نگرانی میں چل رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسی بُری صورت حال میں ہم یہ توقع کیسے رکھ سکتے ہیں کہ یونیورسٹیوں کو انتہا پسندی کا مرکز بننے سے روک سکیں۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے یونیورسٹیوں میں انتہا پسندانہ سوچ کو پروان چڑھنے سے روکنے کی ضرورت پر توجہ دی، بڑی اچھی بات ہے، لیکن اس کے لئے کیا یونیورسٹیوں کے حالات کو بھی سازگار بنایا گیا ہے۔ کیا یونیورسٹیوں کے اساتذہ اس چیلنج سے نمٹنے کے لئے تیار ہیں۔ مجھے تو ایسا ہر گزنظر نہیں آتا، کیونکہ ان میں تو حد درجہ گروپ بندی ہے۔ وہ تو وائس چانسلرز کے قریب ہو کر یا ان پر دباؤ ڈال کر زیادہ سے زیادہ مراعات اور منفعت بخش عہدے لینے کی اندھی دوڑ میں شریک ہیں اور ہاں چلتے چلتے اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ یونیورسٹیوں کے سمیسٹر سسٹم میں من مانے اختیارات کی وجہ سے اساتذہ جو امتیازی سلوک اپنے شاگردوں سے روا رکھتے ہیں، اس کی وجہ سے بھی نوجوانوں میں مایوسی پھیلتی اور انتہا پسندی کے جذبات پروان چڑھتے ہیں اور انہیں کوئی بھی آسانی سے ورغلا سکتا ہے۔ یہ موضوع اتنا سادہ نہیں کہ صرف ایک کانفرنس میں اس کی تمام گتھیاں سلجھائی جا سکیں۔ اس پر گہرے غور و فکر اور سیاسی مفادات سے ہٹ کر کڑے فیصلے کرنے کی ضرورت ہے جو بظاہر آسان نظر نہیں آتے۔

مزید :

کالم -