پھائی پھائی زور دی...........
داور خان کو اتنا دلیر نہیں ہونا چاہئے تھا کہ سیدھی پی ٹی آئی کی کنڈی کھڑکا دیتے، وہ جانتے ہیں کہ جب سے خان صاحب نے پیپلز پارٹی کے دودھ کے دھلے راہنماؤں کیلئے دروازہ کھولا ہے، وہ ہر ایک کے لئے گنگناتے چلے آرہے ہیں، کنڈی نہ کھڑکا سوہنیا سدھا اندر آ۔رکن قومی اسمبلی داور خان کنڈی کو یہ بات سمجھنی چاہئے تھی کہ انقلاب، تبدیلی اور جمہوریت کا راگ الاپنے سے بندہ ان اوصاف کا مالک نہیں ہو جاتا، انہیں کیا ضرورت پڑی تھی کہ وہ زیادتی کا شکار لڑکی کیلئے آواز بلند کرتے؟؟؟
لگتا ہے ماضی میں وہ جماعت اسلامی یا کم از کم پیپلز پارٹی میں رہے ہیں ورنہ زیادتی شیادتی جیسے معمولی ایشوز پی ٹی آئی کا کلچر نہیں ہیں اور پھر الزام میں علی امین گنڈا پور کو ملوث کرنا؟
توبہ توبہ! کہاں راجہ بھوج اور کہاں گنگو تیلی۔ گنڈا پور تو خان صاحب کے گنڈے بند شاگرد ہیں، ان کی دراز زلفوں کے تو خان صاحب خود پارٹ ٹائم اسیر ہیں لہٰذا جیہڑا بولے اوہی کنڈا کھولے بلکہ کنڈی کھولے۔
بھیا میرے ! یہ پاکستان ہے یہاں سجی دکھانا اور کھبی کرانا ایک قومی کلچر ہے، جمہوریت اور انصاف گیا تیل لینے، اگر خان صاحب کو ایک بات پسند نہیں تو بھاڑ میں گئے اصول اور ضوابط۔ تحقیقات کی ضرورت کیا اور کمیٹیوں کے معاملے یا چھان پھٹک کرنا فضول، بس خان صاحب نے جب کہہ دیا کہ امین گنڈا پور معصوم صفت انسان ہیں اور آج کے دور میں ولی کامل کے تقریباً قریب قریب کی چیز ہیں۔
ایک میراثی عمرہ کے بعد روئی سے آتے ہوئے پانی کے کین میں ’’ ام الخبائث‘‘ بھر کے لے آیا ، ایئرپورٹ پر چیکنگ ہوئی، آفیسر نے پوچھا کیا ہے اس کین میں؟ وہ بولا میں عمرہ کرکے آرہا ہوں، اس میں پانی ہے۔ افسر نے ڈھکن کھول کر سونگھا اور بولا اس میں تو شراب ہے۔ میراثی بولا لو جی فیر معجزہ ہوگیا۔چلیں اس کا تو پانی شراب ہوا، اصل معجزہ یہ ہے کہ شراب شہد ہو جائے، واہ کیا معجزہ ہے! سو میرے پیارے پاکستانیو، شناختی کارڈ ہولڈر شہریوں، خان صاحب بادشاہ سلامت ہیں، ان کی مرضی جو چاہیں فیصلہ کریں، اللہ نے انہیں ایک وژن عطا فرمایا ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ لڑکی زیادتی کی حقدار تھی، وہ سمجھتے ہیں کہ کنڈی صاحب کو کنڈی نہیں کھڑکانی چاہئے تھی۔
ایک صاحب کی ٹانگ نیلی ہوگئی۔ سردار جی نے دیکھا اور بتایا میں آرتھو سرجن ہوں، آپ کی ٹانگ میں زہر پھیل گیا ہے۔ انہوں نے ٹانگ کاٹ کر پلاسٹک کی لگا دی، کچھ دن بعد پلاسٹک والی بھی نیلی ہوگئی۔انہوں نے اس بار بغور مریض کا معائنہ کیا اور بتایا کہ زہر نہیں پھیلا بلکہ تمہاری دھوتی رنگ چھڈ دی اے۔۔۔لیکن میرا یقین ہے خان صاحب دھوتی تک کبھی بھی تحقیق نہیں کریں گے چاہے انہیں دوسری ٹانگ بھی کیوں نہ کاٹنی پڑے، جسٹس وجیہہ الدین سے داور کنڈی تک سب کی ٹانگوں میں زہر پھیلا ہے۔ اللہ پی ٹی آئی کی دھوتی کو سلامت رکھے۔
لو جی ہن ہماری بھی خبریں سچ ثابت ہونے لگیں۔ روزنامہ ’’پاکستان‘‘ میں وزارت خزانہ کے حوالے سے خبر سچ ثابت ہوئی، اب اسحاق ڈار استعفیٰ نہ بھی دیں اور مختلف ہسپتالوں کے بستروں پر فوٹو سیشن کرواتے رہیں،وزیراعظم عباسی نے خاموشی سے بلکہ ڈھول ڈھمکے کے ساتھ وزارت خزانہ اپنے کھیسے میں ڈال لی ہے، اب دوست جتنا مرضی کھسیائیں اسحاق ڈار سے وزارت جاچکی ہےلیکن آفرین ہے اس عظمت ڈھٹائی پر جان جائے پر وچن نہ ٹوٹے، اتنی تھو تھو کے بعد بھی اسحاق ڈار نے مجال ہے جو تھوڑی بہت وہ’’ کھائی‘‘ ہو جس کا ذکر خواجہ آصف اسمبلی میں کرتے رہے ہیں، کتنے خوش قسمت لوگ ہیں۔ دھن ہے اس بیس کروڑ عوام پر جن کے نصیب میں کیسے کیسے بازی گر، رنگ باز لکھے گئے، جن کے قریب سے اخلاقیات گزرے تو وہ بھی اپنے کپڑے پھاڑ کر سڑکوں پر نکل آئے۔ آپ اشتہاری ہوگئے، خاصے بازاری ہوگئے۔ رسوائی کے عظیم شاہکار ہوگئے۔
جس ملک کے وزیر ہیں اس میں گھس نہیں سکتے لیکن وزارت نہیں چھوڑنی، پھر بھی کہتے ہیں ہم جمہوریہ میں ، مہذب معاشرہ میں اور اقوام عالم میں عزت کے طلبگار ہیں،بھلا ایسے ملتی ہیں عزتیں؟ ایسے بلند ہوتے ہیں؟ جو چور اچکا ہے وہ ہمارے نصیب کا ٹھیکیدار ہے۔
ٹیچر نے کہا ٹھنڈ کو جملے میں استعمال کرو۔ پپو بولا سر جی جوآپ نے سمجھایا سانوں سمجھ آوے نہ آوے تہانوں تے ٹھنڈ پہ گئی۔ مہربانوں کی مہربانی قوم کو سمجھ آئے نہ آئے انہیں تو ٹھنڈ پڑ گئی ، چلیں اسحاق ڈار کی چھٹی کرا کے جوآپ نے لنکا ڈھانی ہے ڈھا لیں، چہرے بدلنے سے کیا فرق پڑے گا؟ یہ بدبودار تعفن زدہ سسٹم تو ویسے کا ویسا ہی رہے گا، قوم جلد ایک نیا احتساب ڈرامہ دیکھے گی کیونکہ نون لیگ میاں نواز شریف کے بغیر زیرو جمع زیرو جمع زیرو ہے اور احتساب کرنے والوں کی نگاہ میں میاں کو نکرے لگانا ہی عین احتساب ہے، اسی پر کیڑوں کی طرح کلبلاتی مخلوق کا کیا ہے جو 1947ء سے بس ایک مشین کی طرح جئے جا رہی ہے؟ اتنے کاہل، لاغر، کند ذہن اور قحط الرجال کا شکار ہیں ہم ،مسلم لیگ اور مہربانوں میں صرف جنگ نواز شریف کی ہے۔
یہ تجھے چین کیوں نہیں پڑتا
ایک ہی شخص تھا جہاں میں کیا ؟
آئندہ الیکشن ہونگے، ایک ہینگ پارلیمنٹ بنے گی، وہ ٹوٹے گی پھر معلق پارلیمنٹ بنے گی، پھر ٹوٹے گی اور یہ آئین کی شاہراہ ایسے ہی کام چوروں کے پاؤں اور بوٹوں تلے رندتی رہے گی۔
کچل کچل کر نہ فٹ پاتھ کو چلو اتنا
یہاں پہ رات کو مزدور خواب دیکھتے ہیں
مزدوروں کے خوابوں کا کیا ہے۔ 47ء سے کچلے جا رہے ہیں، کچلے جاتے رہیں گے، ان کا جرم یہ نہیں کہ خواب دیکھتے ہیں، ان کا جرم یہ ہے کہ خوابوں کو نوچنے والوں کو ہمیشہ چھوڑ دیتے ہیں، تصویروں کی طرح چوم چوم کر گلے لگاتے ہیں اور پوری قوم مل کر کہتی ہے
پھائی پھائی۔۔۔ تیرے تیل دی کڑائی
تیرے لون دا پتاشہ
تیری سس کرے تماشہ
پھائی پھائی زور دی