ملتان میں بلاول ہاؤس: آصف علی زرداری کی نئی چال؟

ملتان میں بلاول ہاؤس: آصف علی زرداری کی نئی چال؟
ملتان میں بلاول ہاؤس: آصف علی زرداری کی نئی چال؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

آصف علی زرداری ملتان میں مورچہ سنبھالنے والے ہیں۔ 1985ء میں میرے شعری مجموعے ’’ آئینوں کے شہر میں پہلا پتھر‘‘ کی تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے معروف کالم نگار منو بھائی نے کہا تھا: ’’جس کا ملتان مضبوط ہو، اُس کا اسلام آباد مضبوط ہوتا ہے‘‘۔۔۔ یہ بات اُنہوں نے اس تناظر میں کہی تھی کہ جس کا گھر مضبوط نہ ہو، اُس کا باہر بھی کمزور ہوتا ہے۔ اب آصف علی زرداری نے اپنا ملتان مضبوط کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

اس کے لئے انہوں نے 22کنال اراضی خریدلی ہے اور جلد ہی اُس پر بلاول ہاؤس کی تعمیر شروع کی جانے والی ہے، جسے چند ماہ میں مکمل کرنے کا منصوبہ ہے، تاکہ آنے والے انتخابات میں آصف علی زرداری جنوبی پنجاب کو تسخیر کرنے کے لئے یہاں بیٹھ کر مورچہ زن ہوسکیں۔

یہ بہت اہم فیصلہ ہے اور کوئی آصف علی زرداری جیسا زیرک سیاستدان ہی ایسا کرسکتا ہے۔ پہلے اُنہوں نے لاہور اور پشاور میں بلاول ہاؤس بنائے،جو دونوں دارالحکومتوں میں تھے، اب انہوں نے ملتان میں بلاول ہاؤس بنانے کا فیصلہ کیا ہے تو غالباً اُن کی دور رس نگاہوں نے دیکھ لیا ہے کہ ملتان بھی ایک دارالحکومت بننے جا رہا ہے اور جنوبی پنجاب ایک صوبے کی شکل اختیار کرنے والا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ لاہور میں بلاول ہاؤس ماڈل ٹاؤن کے سحر کو نہیں توڑسکا، وہاں دراڑ پڑتی نظر نہیں آتی، تاہم ملتان کا بلاول ہاؤس بہت سی دراڑیں ڈال سکتا ہے۔


ابھی چند روز پہلے ہی سرائیکی قوم پرست تنظیموں نے الگ صوبے کے لئے ایک بڑا لانگ مارچ کیا ہے جو تین روز سفر کرنے کے بعد ملتان پہنچ کر اختتام پذیر ہوا۔ اس میں عوام نے بڑی تعداد میں شرکت کی اور بعض جگہوں پر تو بڑے بڑے اجتماعات بھی ہوئے۔ اگرچہ ان تنظیموں کی ابھی سمت متعین نہیں اور وہ زمینی حقیقتوں کا ادراک نہیں کرپارہیں، کیونکہ وہ صوبے کے لئے لسانی حوالہ استعمال کررہی ہیں، جو بوجوہ اعتراضات کا باعث بن رہا ہے۔

وہ اس مجوزہ نئے صوبے کا سرائیکی تشخص چاہتی ہیں، جبکہ یہاں اب مخلوط معاشرہ پنپ چکا ہے اور اس طرح کی کوشش مزاحمت سے دوچار ہو سکتی ہے۔

یہ تنظیمیں جنوبی پنجاب کے نام سے چڑتی ہیں اور بعض رہنما تو اسے گالی قرار دیتے ہیں، گویا وہ پنجابی کے حوالے سے جان چھڑانا چاہتے ہیں، حالانکہ پنجاب زبان کی وجہ سے پنجاب نہیں کہلاتا، بلکہ پانچ دریاؤں کی سرزمین اس کی وجہ تسمیہ ہے۔ خیر یہ توایک جملہ معترضہ تھا، اب اس تناظر میں آصف علی زرداری کا ملتان کو اپنا گھر اور گڑھ بنانا بلاوجہ نہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ میدان خالی ہے اور یہاں بلاول ہاؤس بناکر وہ اسے آسانی کے ساتھ تسخیر کرسکتے ہیں۔


ملتان میں پیپلز پارٹی کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ایک زمانہ تھا کہ پرانے شجاع آباد روڈ پر نواب صادق قریشی کا وائٹ ہاؤس ذوالفقار علی بھٹو کا ٹھکانہ ہوا کرتا تھا۔ وہ جب بھی ملتان آتے، اس ایکڑوں پر محیط وائٹ ہاؤس کو اپنا مسکن بناتے۔

کینٹ کے گھیر محلہ میں ایک کھر ہاؤس تھا۔ جو اگرچہ مختصر سی عمارت میں قائم تھا، لیکن بھٹو اسے بطور سیکرٹریٹ استعمال کرتے۔ میں خود اس زمانے میں دونوں جگہوں پر جاتا اور فبھٹو کو کارکنوں میں گھرا دیکھتا تھا۔ ملتان کو ذوالفقار علی بھٹو نے کبھی فراموش نہیں کیا۔ وزیر اعظم بننے کے بعد بھی وہ گاہے بہ گاہے ملتان آتے رہے۔ یہ تو بعد میں آنے والوں نے ملتان کو نظر انداز کرنا شروع کیا۔ ضیاء الحق نے بطور میجر جنرل ملتان میں بہت اچھا وقت گزارا، وہ اکثر کینٹ میں موجود محفوظ پان والے کی دکان پر سرِ شام آتے اور پان لگوا کر کھاتے۔

جب ملک کے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بن گئے، تب بھی محفوظ خان کو نہ بھولے اور اسے نوازتے رہے۔ یوسف رضا گیلانی پہلے شخص تھے، جنہیں ملتان نے وزیر اعظم بنایا، مگر افسوس وہ اپنا ملتان مضبوط نہ رکھ سکے۔ انہوں نے ملتان کا چارج اپنے چھوٹے بھائی مجتبیٰ گیلانی کو سونپ دیا اور پھر سینکڑوں ایسی کہانیوں نے جنم لیا جو گیلانی خاندان کے لئے نیک نامی کی بجائے بدنامی کا باعث بنیں۔ البتہ یہ ضرور ہوا کہ اُن کا گھر پیپلز پارٹی کا غیر اعلانیہ سیکرٹریٹ بن گیا اور انہیں پارٹی کی اس خطے میں موجودگی کا بلاشرکت غیرے اختیار مل گیا۔


اب بلاول ہاؤس کے قیام کی سب سے زیادہ پریشانی بھی یوسف رضا گیلانی ہی کو ہو گی، کیونکہ بلاول ہاؤس نہ صرف پیپلز پارٹی پنجاب کا سیکرٹریٹ ہوگا، بلکہ پارٹی کی تمام سرگرمیاں بھی وہیں سے مانیٹر ہوں گی، اس سے پہلے گیلانی ہاؤس جس پر وزارتِ عظمیٰ کے دور میں یوسف رضا گیلانی نے اسے وزیراعظم کیمپ آفس قرار دے کر سرکاری خزانے سے کروڑوں روپے کے اخراجات کئے تھے، پیپلز پارٹی کا ملتان میں مرکزی دفتر سمجھا جاتا تھا، مگر اس کی سب سے بڑی ناکامی یہ تھی کہ اس نے کارکنوں میں نہ کوئی جذبہ پیدا کیا اور نہ ہی پارٹی میں نئی روح پھونکی۔ گیلانی خاندان کی اقربا پروری اور خود کو پیپلز پارٹی قرار دینے کی حکمتِ عملی نے نہ صرف پارٹی کو زمین سے لگادیا، بلکہ انتشار اتنا بڑھ گیا کہ پارٹی بلاول بھٹو کے لئے جلسے کا انتظام کرنے سے قاصر نظر آئی۔


ذرائع کے مطابق آصف علی زرداری نے بوسن روڈ پر بہادر پور کے علاقے میں جوزمین خریدی ہے، اس کے بارے میں یوسف رضا گیلانی کو بھی نہیں بتایا، حالانکہ یہ وہی علاقہ ہے، جہاں سے یوسف رضا گیلانی انتخاب لڑتے رہے ہیں، پھر یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہے کہ اس علاقے میں بوسن خاندان کا خاصا اثرورسوخ ہے۔ وفاقی وزیر سکندر حیات بوسن اسی حلقے سے انتخابات جیتتے آئے ہیں، اب یہاں بلاول ہاؤس اور پیپلز سیکرٹریٹ کا قیام اس کی ہیئت اور سیاسی حیثیت تبدیل کرسکتا ہے۔ شاید یہی آصف علی زرداری کا پلان ہے۔


جنوبی پنجاب فی الوقت سیاسی طور پر ایک آزاد خطہ ہے۔ کوئی سیاسی جماعت یہ دعویٰ نہیں کرسکتی کہ اس کا اس علاقے پر کنٹرول ہے۔ گزشتہ ساڑھے چار برسوں میں اس خطے کے عوام میں سیاسی شعور بھی بیدار ہوا ہے اور محرومی کا احساس بھی دوچند ہوگیا ہے، اب یہاں روائتی سیاست کی گنجائش نہیں۔ جو سیاسی جماعت اس علاقے کے عوام کو اُن کا حق دینے کی بات کرے گی، وہی کامیاب ہوگی۔

اب ظاہر ہے، انتخابات کے قریب آتے ہی سب سیاسی جماعتیں چکنے چپڑے وعدوں کی چنگیر اُٹھائے میدان میں آجاتی ہیں، لیکن یہ حربہ شاید اب کامیاب نہ ہو، البتہ اس پس منظر میں یہاں بلاول ہاؤس کا قیام پیپلز پارٹی کے لئے سودمند ثابت ہوسکتا ہے۔ آصف علی زرداری اس کی بنیاد پر عوام کو یہ تاثر دیں گے کہ انہوں نے یہاں بلاول ہاؤس قائم ہی اس لئے کیا ہے کہ جنوبی پنجاب کی محرومیوں کا خاتمہ کیا جائے۔ یوں وہ تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) پر برتری لے جائیں گے۔ یاد رہے کہ موجودہ گورنر پنجاب ملک رفیق رجوانہ نے بلا سوچے سمجھے چند ماہ پہلے یہ وعدہ کیا تھا کہ ملتان میں جنوبی پنجاب کا الگ سیکرٹریٹ قائم کیا جائے گا، پھر انہوں نے یہ نوید بھی سنادی کہ ایڈیشنل چیف سیکرٹری اور دیگر محکموں کے سیکرٹریز کی منظوری بھی دے دی گئی ہے، لیکن اندر خانے نجانے کیا ہوا، گورنر صاحب اس وعدے سے نہ صرف مکر گئے، بلکہ صحافیوں کے سوال پر کنی بھی کترانے لگے۔

ذرائع کے مطابق انہیں اس اعلان پر وزیر اعلیٰ اور اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے بہت کچھ سننا پڑا کہ ایسا بڑا فیصلہ وہ کیونکر کرسکتے ہیں۔ سویہاں وعدوں کی تو ایک لمبی تاریخ موجود ہے، مگر عمل کی نوبت کم کم ہی آتی ہے۔ اس تناظر میں آصف علی زرداری نے ایک بہت اہم چال چلی ہے۔

وہ چونکہ سیاسی شطرنج کے بڑے کھلاڑی ہیں، اس لئے انہیں علم ہے کہ پنجاب میں اگر نقب لگانی ہے تو اس کا واحد راستہ جنوبی پنجاب ہے، جہاں تخت لاہور کے خلاف نفرت بھی موجود ہے اور احساسِ محرومی بھی، پھر یہاں ان برے حالات میں بھی پیپلز پارٹی کے لئے نرم گوشہ موجود ہے۔

یہ ساری باتیں یقیناً آصف علی زرداری کے ذہن میں ہیں، اسی لئے انہوں نے یہ بڑا فیصلہ کیا ہے۔ اب دیکھتے ہیں یہ فیصلہ جنوبی پنجاب اور خود پیپلز پارٹی کی کایا پلٹنے میں کامیاب ہوتا ہے یا نہیں۔

مزید :

کالم -