یہ قائد اعظمؒ کا پاکستان ہے

یہ قائد اعظمؒ کا پاکستان ہے
یہ قائد اعظمؒ کا پاکستان ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


یہ وقت سطحی فیصلوں کا نہیں۔ یہ وقت فوری نتائج کے حامل فیصلوں کا نہیں۔ یہ وقت بنیادی فیصلوں کا ہے۔ ہر طرف تیزی نظر آرہی ہے۔ ایک تاثر ہے کہ حکومت کو ہوش آگئی ہے۔ دوسرا یہ ہے کہ سب کچھ مصنوعی ہے۔ کارکردگی دکھائی جا رہی ہے۔
یہ قائد اعظم کا پاکستان ہے۔ اسلام کے نام بننے والی یہ مملکت کسی مولوی نے نہیں بنائی ہے۔ پاکستان میں شرح خواندگی کم ہے۔ عوام کو جاہل کہا جا تا ہے۔ خواتین کی تعلیم پر کئی علاقوں پر پابندی ہے۔سکولوں کی نسبت مدرسوں کی بھرمار ہے۔ مسجد کے منبر کو محترم سمجھا جاتاہے۔ دیہی علاقوں میں اب بھی دینی تعلیم کو دنیاوی تعلیم پر افضل سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود کوئی مولوی اس قوم کابڑا لیڈر نہیں بن سکا۔قائد اعظم کوئی مولوی نہیں تھے۔ کسی مولوی کی جماعت کو انتخابات میں مکمل کامیابی حاصل نہیں ہو ئی۔ دیہی علاقہ ہو یا شہری عوام نے کبھی مولوی کو ووٹ نہیں دیا۔ مولوی خود کہتے ہیں کہ عوام ہماری امامت میں نماز تو پڑھتے ہیں ۔لیکن اس ملک کی امامت ہمیں دینے کو تیار نہیں۔ دینی جماعتیں اپنی بقاء کے لئے سیاسی جماعتوں سے اتحاد کی محتاج رہی ہیں۔ اسی لئے کہ یہ قائد کا پاکستان ہے کسی مولوی کا بنایا ہوا پاکستان نہیں۔
لیکن اس سب کے باوجود مولوی اس ملک کی سیاست پر چھایا ہوا ہے۔ ہر معاملہ میں مولوی کی رائے اہم ہے۔ کسی بھی قانون کو بناتے وقت اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ مولوی تو اس کے خلاف نہیں ہو نگے۔ اس خوف نے حکومتوں کو ہمیشہ فیصلوں سے روکا ہے۔ آج بھی کمزور لیکن ایک مولوی کی آواز سامنے آگئی ہے۔ حکومت ہمیشہ کی طرح خاموش ہے۔ سول سوسائٹی نے آواز اٹھائی ہے۔ لیکن سول سوسائٹی کی آواز کو ہمیشہ مغرب نواز کہہ کر متنازعہ بنا دیا جاتا ہے۔ مولوی نے اپنے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو مغرب اور غیر مسلم ایجنڈہ کہہ کر متنازعہ کر دیا ہے۔
صوفی محمد اس قوم کا لیڈر نہیں بن سکا۔ اس کا داماد ملا فضل اللہ بھی اس قوم کا لیڈر نہیں بن سکا۔ مولانا فضل الرحمٰن درست کہہ رہے ہیں کہ انہیں افسوس ہے کہ اس قوم کے بچوں کو محفوظ مستقبل نہیں ہے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ وہ اس موقع پر اس کا کسی کو مورد الزام بھی نہیں ٹھہرانا چاہتے۔ لیکن مولانا فضل الرحمٰن بھی کسی انتخاب میں کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کر سکے۔ ان کی تو اپنی نشست بھی محفوظ نہیں ہے۔
یہ وقت ملک کی نظریاتی اساس کو درست کرنے کا ہے۔ اگر ہم ملک کی نظریاتی اساس درست کر لیں گے تو تمام مسائل حل کرنے آسان ہو جائیں گے۔ اگر فوجی آمر وں کی آئین میں کی گئی ترامیم تمام سیاسی جماعتیں مل کر ختم کر سکتی ہیں۔ تو ملک کی نظریاتی اساس کو درست کرنے کے لئے بھی بڑے فیصلہ کئے جا سکتے ہیں۔ جہاد کے نظریہ پر نوجوانوں کو جو گمراہ کیا جا رہا ہے۔ اس کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ درست ہے کہ دہشت گردی سے نبٹنے کے لئے سخت قوانین کی ضرورت ہے۔ یہ قوانین اتنے سخت ہونے چاہئیں کہ دہشت گردوں کو دہشت گردی سے روک سکیں۔ قوانین بنائے ہی اسی لئے جاتے ہیں کہ عوام ان سے ڈر کر قانون کی پابندی کریں۔ پھانسیاں بھی وقت کی ضرورت ہیں۔ اپریشن بھی وقت کی ضرورت ہے۔ ملٹری کورٹس بھی وقت کی ضرورت ہیں۔ دہشت گردی کے خصوصی قوانین بھی وقت کی ضرورت ہیں۔ لیکن جہاد کے نام پر گمراہ کرنے کی فیکٹریاں بھی بند کرنا ہو نگی۔ اسلام کے نام پر گمراہی کوروکنے کا بھی قانون بنا نا ہو گا۔ جس طرح تو ہین رسالت کا قانون ضروری ہے۔ اسی طرح جہاد کی غلط تشریح بھی اتنا ہی بڑا جرم ہے۔
اسلام آباد کے وسط میں بیٹھے مولوی صاحب کی آواز قابل گرفت ہونی چاہئے۔ ا چھے اور برے طالبان کی تفریق ختم کر کے ہی بچے محفوظ کئے جا سکتے ہیں۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف کو واضح لائن لینی ہو گی تا کہ نظریاتی سرحدوں پر بھی ان کا مقابلہ کیا جا سکے۔ صرف اپریشن۔ صرف عدالتیں کافی نہیں ہیں۔ ان کے نظریہ کو شکست دینا بھی ضروری ہے۔ دلیل کو دلیل سے مارنا ہے۔ ہمارا مقدمہ کمزور نہیں ہے۔ صرف ہم نے اس کوسنجیدہ نہیں لیا ۔ جس کا دوسرے فریق نے ہمیشہ فائدہ اٹھا یا ہے۔
یہ سب کچھ جلدی بھی ہونا ہے۔ کیونکہ جو ماحول ملک میں بن گیا ہے۔ یہ ہمیشہ قائم نہیں رہے گا۔ اگر وقت کی اہمیت کا احساس نہیں کیاگیا تو ننھے نوجوانوں کی قربانی ضائع ہو جائے گی۔ جو ایک قومی المیہ ہو گا۔

مزید :

کالم -