دراز ی عمر کا خبط

دراز ی عمر کا خبط
 دراز ی عمر کا خبط

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اقوامِ مغرب بھی کیا عجیب و غریب اقوام ہیں۔ صدہا برس سے پانچوں براعظوں پر حکمرانی کر رہی ہیں اور دنیا کے تینوں بڑے سمندروں پر ان کا تسلط ہے۔ وہ بلا شرکتِ غیرے بحر و بر کی حکمرانی کے مزے لوٹ رہی ہیں۔

لیکن انسانی ہوس ہے کہ ھل من مزید کی رٹ لگاتی رہتی ہے۔بحر و بر پر قبضہ ان کی آخری منزل نہیں۔ گزشتہ صدی کے نصفِ آخر (1953ء) میں جب سوویت یونین کا سپتنک خلاؤں میں جا پہنچا تھا توباقی ترقی یافتہ اقوام نے خلاؤں پر بھی تسلط حاصل کرنے کی ٹھان لی تھی۔

امریکی چاند پر جا پہنچے تو خلاؤں میں شٹل سروس کی آمدورفت کا سلسلہ دراز ہو گیا۔اب نوید یہ ہے کہ مریخ پر جانے کے لئے زمین کے باشندوں سے درخواستیں طلب کر لی گئی ہیں کہ جس نے اس سیارے پر جا کر ’’سیر کا لطف‘‘ اٹھانا ہے، اس کے لئے صلائے عام ہے۔۔۔۔ پیسے دے اور مزے لوٹے۔۔۔ امریکہ اور روس کے خلا نورد تو ایک طویل عرصے سے خلائی سٹیشنوں کی جانب آ جا رہے ہیں۔

اب چین بھی ان میں شامل ہو رہا ہے۔ سنا ہے اور تو اور کچھ عرصے سے بھارتی مینڈکی کو بھی زکام ہونے والا ہے اور وہ بھی اس دوڑ میں شرکت کے لئے ہاتھ پاؤں مارنے لگی ہے۔


خلاؤں کی بلندیوں سے زمین کی پستیوں کا نظارا بہت سے سربستہ رازوں کا امین بن چکا ہے۔ہما شما کو کچھ خبر نہیں کہ ہمارے سروں کے اوپر کون بیٹھا ہے اور ہمارے آنگنوں میں کون تاک جھانک کر رہا ہے۔

پاور فل دور بینیں ایجاد کر لی گئی ہیں جو کہکشاؤں کا سراغ لگانے میں مصروف ہیں۔برسوں کا سفر طے کر کے ان ستاروں ،سیاروں اور کہکشاؤں تک پہنچا جا رہا ہے جن کا پہلے صرف تصور ہی کیا جا سکتا تھا۔ گوگل نے دُنیا کے ہر کونے کھدرے، گلی، محلے،مکان اور جھونپڑی کی نہ صرف لوکیشن آپ کے سامنے رکھ دی ہے بلکہ اس تک جانے کے راستے اور اس تک پہنچنے میں جو وقت صَرف ہوتا ہے اس کو گھنٹوں، منٹوں اور سکینڈوں کی صورت میں ہمارے موبائل میں رکھ دیا ہے۔۔۔۔ یہ ایک سپر انقلابی دور ہے جو لائٹ سپیڈ سے ارتقائی منزلیں طے کرتا چلا جا رہا ہے۔ موجودہ لمحے میں ہمیں جو کچھ معلوم ہے، شائد آئندہ لمحے میں وہ قصۂ پارینہ بن کر نئے آفاق وا کر دے۔۔۔۔


مَیں اگلے روز کسی انگریزی روزنامے میں ایک اور حیران کن خبر پڑھ رہا تھا کہ مغرب کے سائنس دان طویل العمری کا راز جاننے کی کوشش میں بہت آگے تک جا چکے ہیں۔یہ تلاش کوئی نئی تلاش نہیں۔انسان صدیوں سے سر کھپا رہا ہے کہ زندگی کیا ہے اور موت کا راز کیا ہے۔

کیا عمر چھوٹی بڑی ہو سکتی ہے۔انسان مر کیوں جاتا ہے اور پھر مر کر کہاں چلا جاتا ہے؟۔۔۔یہ ایسے سوال ہیں جو تخلیقِ کائنات سے لے کر آج تک عقلِ انسانی کرتی چلی آئی ہے۔لیکن ان میں سے کسی کا بھی کوئی شافی و کافی جواب نہیں مل سکا۔


ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ انسان کا ذہن جو کچھ سوچتا ہے وہ کتنا ہی بعید از قیاس کیوں نہ ہو اور کتنا ہی ناممکن کیوں نظر نہ آئے اس کے وقوع پذیر ہونے سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ خوب سے خوب تر کی تلاش کا فلسفہ یہی ہے۔ خلاؤں کی تسخیر انسان کا ایک دیرینہ خواب ہے لیکن انسان جتنا خلاؤں کی طرف پیش قدمی کرتا جاتا ہے،وہ اتنا ہی اس کی رسائی سے دور ہوتی چلی جاتی ہیں۔شیخ سعدی شیرازی نے بہت پہلے انسان کی تسخیرِ کائنات کی ہوس پر ایک چبھتا ہوا سوال کیا تھا اور پوچھا تھا:
تو کارِ زمیں را نکو ساختی؟
کہ بہ آسماں نیز پردا ختی؟
یعنی اے نبی آدم! کیا تو نے زمین پر اپنا مشن کامیابی سے مکمل کر لیا ہے کہ آسمانوں کے در پے ہونے لگا ہے؟


شائد اب حکمائے مغرب بھی شیخ سعدی جیسے مشرقی دانشوروں کی آرأ پر کان دھر کر ازسرِنو، زمین کے سربستہ رازوں کو جاننے کی کوشش میں لگ گئے ہیں۔کوشش ہو رہی ہے کہ اِس امر کا سراغ لگایا جائے کہ جن لوگوں کی عمریں 100سال سے زیادہ ہو جاتی ہیں،ان کی طوالتِ عمری کے راز اور اسباب کیا ہیں۔

کیا ان اسباب کا کھوج لگا کر ایک ایسا یونیورسل غذائی نسخہ(Recipe) معلوم نہیں کیا جا سکتا جو ہما شما کھا کر بھی100 برس تک زندہ رہ سکے؟ اس کے علاوہ صد سالہ بزرگوں کے معمولاتِ زندگی پر تحقیق ہو رہی ہے کہ دیکھا جائے کہ روزمرہ زندگی گزارنے کے وہ اصول کیا ہیں جن کو اپنا کر ہر انسان طویل عمر پا سکتا ہے۔

اس جستجو میں امریکی سائنس دان اور میڈیکل ڈاکٹر پیش پیش ہیں۔اب تک وہ نصف درجن ایسے لوگوں کے انٹرویوز ریکارڈ کر چکے ہیں جن کی عمریں110سال سے زیادہ تھیں۔جن افراد پر تحقیقات کی گئیں ان میں خواتین کی تعداد زیادہ تھی۔

ایک113سالہ خاتون جس کا نام گولڈی تھا اُس نے کہا کہ اس کی لمبی عمر کا راز صبح کی سیر اور چاکولیٹ کا زیاادہ استعمال ہے۔ لیکن یہ دونوں عادات ایسی نہیں جو شاذ و نادر کی ذیل میں شمار کی جائیں۔ہمارے ہاں بہت سے افراد صبح کی سیر کرتے ہیں۔

لیکن ان کی اوسط عمر وہی ہوتی ہے جو پاکستان میں عام افراد کی ہے،یعنی 55سے60 سال کے درمیان۔۔۔ اور جہاں تک چاکولیٹ کھانے کا تعلق ہے تو کوئی بھی ڈاکٹر ایسا نہیں ہو گا جو چاکولیٹ کی زیادہ مقدار کھانے والوں کو شوگر کی نوید نہیں سنائے گا۔

امریکہ اور یورپ میں تو شوگر کے مریضوں کی تعداد ایشیا اور افریقہ کے مریضوں سے بھی زیادہ ہے اور اس کے اسباب متعدد ہیں جن میں میٹھی اشیاء کھانے کی عادت ایک بڑا سبب ہے۔چنانچہ یہ حکم نہیں لگایا جا سکتا کہ صرف چاکولیٹ زیادہ کھانے یا صبح کی باقاعدہ سیر کرنے سے انسان 100سال سے اوپر تک زندہ رہ سکتا ہے۔

دیکھا جائے تو مغربی ممالک کے مردوں اور خواتین میں پیدل سیر کرنے، پہاڑوں پر چڑھنے، صحراؤں اور جنگلوں میں نکل جانے کا شوق ہی نہیں،جنون ہے،لیکن ان میں سے کتنے ہیں جن کی عمریں 100برس تک جاتی ہیں اور وہ پھر بھی صبح کی سیر کرنے کا تسلسل برقرار رکھتے ہیں۔


امریکہ ہی کی راک آئی لینڈ کی رہائشی ایک خاتون شیل بائی ہارس، نے117برس کی عمر پائی اور مرنے سے پہلے کئی انٹرویوز میں اپنی لمبی عمر کے دو عدد رازوں پر سے پردہ اٹھایا۔۔۔ ان میں ایک راز روزانہ دو انڈے کھانا اور دوسرا شادی نہ کرنا تھا!۔۔۔شادی کرنا یا نہ کرنا، مغربی معاشرے میں کوئی ایسا معمول نہیں جس کو نرالا یا انوکھا کہا جا سکے۔بے شوہر ہونا اور بات ہے اور شادی نہ کرنا ایک بالکل الگ بات ہے۔ اور دو انڈے روزانہ کھانے والے لوگوں کی اگر فہرست بنائی جائے تو دفتر کے دفتر سیاہ ہو جائیں گے۔


ایک اور سوال جو ماہرینِ ماحولیات کے زیر غور ہے یہ ہے کہ کیا کسی علاقے کی آب و ہوا اور موسم اس کی عمر کی کمی بیشی کا سبب بن سکتے ہیں؟ کیا سرد ممالک کے باشندوں کی اوسط عمر، گرم علاقوں کے باسیوں کی اوسط عمر سے زیادہ ہوتی ہے؟۔۔۔اس کا جواب اگرچہ ’’ہاں‘‘ میں ہے،لیکن صرف آب و ہوا اور موسم ہی عمروں کا تعین نہیں کرتے۔دیکھا گیا ہے کہ غذائی عادات، رہن سہن کی سہولتیں اور پینے کا صاف پانی بھی ایسے اسباب ہیں جو زیادہ اوسط عمر کا باعث بنتے ہیں۔

لیکن یہ تمام استدلال اور اسباب وغیرہ جو اوپر گنوائے گئے ان کو اگر مذہب کی کسوٹی پر پرکھا جائے تو ہر گز پورے نہیں اُترتے۔ ہمارا تو ایمان یہ ہے کہ دُنیا کے کسی انسان کی زندگی کا دورانیہ ایک پل بھی آگے پیچھے نہیں ہو سکتا۔ موت کسی بچے، بوڑھے، نوجوان، امیر، غریب، بادشاہ یا فقیر کو نہیں دیکھتی۔ہر انسان کی اس دُنیا میں آمدو رفت کا ایک شیڈول مقرر کر دیا گیا ہے جس میں کوئی کمی بیشی یا تبدیلی نہیں ہو سکتی۔

قرآن کریم کی بہت سی آیات اس موضوع پر براہینِ قاطع ہیں۔ ان کا حوالہ دینے لگوں تو ایک اور کالم کی ضرورت ہو گی۔یہ بات انسان کو نہیں اس کے خالق کو معلوم ہے کہ کس فرد/ شخص نے کس والدین کے گھر جنم لیا ہے، کس جگہ لینا ہے، کتنی دیر زندہ ہنا ہے اور کب مرنا ہے۔

یہ تمام ساعتیں پہلے سے مقرر کر دی گئی ہیں اور ان کا علم نہ کسی عام آدمی کو ہے اور نہ کسی پیر پیغمبر کو۔۔۔کاش اہلِ مغرب کو کوئی جا کر یہ سمجھا دے کہ وہ زندگی کی کوالٹی تو بہتر یا بدتر بنا سکتے ہیں لیکن کس کی عمر کو نہ تو کم کر سکتے ہیں نہ زیادہ۔


مغربی سائنس دانوں کو معلوم ہی ہو گا کہ یہ کارخانۂ شش جہات کئی بار بنا اور کئی بار برباد ہوا۔ کیا اصحابِ کہف یا قرآن کریم میں اسی طرح کے اور محیرالعقول واقعات کا ذکر نہیں ملتا،جس کی کوئی بھی سائنسی تعبیر نہیں کی جا سکتی۔ اصحابِ کہف309 برس تک کیسے زندہ رہے اور ان کے غار کے منہ پر بیٹھا ایک کتا کیسے پہرہ دیتا رہا؟۔۔۔ اہرام مصر کی حقیقت کیا ہے اور ان کی تعمیر میں کس فنِ تعمیر سے کام لیا گیا ہے۔ پتھر کی بڑی بڑی سلوں کو برابر برابر تراشنا اور ان کو اتنی بلندی تک پہنچانے کے لئے کون سی کرینوں سے کام لیا گیا اور فراغۂ مصر کی حنوط شدہ لاشوں کا معاملہ کیا تھا۔

ہزاروں سال گزر جانے کے بعد بھی ان کی ہڈیاں اور ان کے ہیولے کس طرح باقی بچ گئے؟۔۔۔ اور حال ہی میں (2نومبر2017ء) ایک اہرام مصر کے اندر ایک ایسا بڑا سوراخ دریافت ہوا ہے جس کی لمبائی153فٹ اور بلندی 26فٹ ہے۔

ان اہراموں کی عمریں 45000سال ہیں۔اس دریافت کو اس صدی کی سب سے زیادہ حیرت انگیز دریافت کہا جا رہا ہے۔۔۔۔ جو امریکی سائنس دان اور دانشور آج انسان کی عمر کی درازی کا کھوج لگا رہے ہیں،وہ ان اہراموں کو تعمیر کرنے والوں کی عمروں کا حساب کتاب تو لگائیں کہ ان کی عمریں کیا تھیں،ان کی غذائیں کیا تھیں اور ان کے معمولاتِ زندگی کیا تھے۔

کیا آج کا انسان ان غذاؤں اور معمولاتِ زندگی کو اپنا سکتا ہے؟ اور اگر ایسا ممکن ہے تو پھر آج کے انسان کی عمر کی درازی کا راز بھی معلوم کیا جا سکتا ہے۔

مزید :

کالم -