’’حج پالیسی: پرائیویٹ سیکٹر کے تحفظات دور کریں‘‘

’’حج پالیسی: پرائیویٹ سیکٹر کے تحفظات دور کریں‘‘
’’حج پالیسی: پرائیویٹ سیکٹر کے تحفظات دور کریں‘‘

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کی زیر صدارت ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں حج پالیسی2017ء کی منظوری دی گئی تو وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف نے وزارت کے کمیٹی روم میں حج پالیسی کی بریفنگ کے لئے بلائی گئی پریس کانفرنس میں بتایا کہ گزشتہ حج کے بعد وزارتِ مذہبی امور کی شاندار کارکردگی پر وزارتِ مذہبی امور کے ذمہ داران سمیت مُلک بھر میں پھیلے ہوئے اہلکاروں کو چار چار تنخواہیں بطور بونس دے چکے ہیں۔ سرکاری حج پالیسی شاندار رہی ہے، اسی بنیاد پر وزیراعظم نے حج 2017ء میں سرکاری حج سکیم کا کوٹہ60فیصد اور پرائیویٹ سکیم کا کوٹہ40فیصد رکھنے کی منظوری دی ہے، ریال کی قیمت میں اضافے اور سرکاری عازمین حج کو ایک وقت کی بجائے تین وقت کا کھانا دینے کی وجہ سے اخراجات میں ہونے والے اضافے سے حج پیکیج میں اضافہ تجویز کیا گیا تھا۔ وزیراعظم نے اضافہ مسترد کر دیا ہے اِس لئے ہم سرکاری عازمین کو نئے ماڈل کی بسیں عرفات میں اے سی، منیٰ میں تین وقت کا کھانا گزشتہ سال کے پیکیج میں دیں گے۔ پرائیویٹ سکیم حج کوٹہ کم کرنے کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا چاروں صوبوں کی اسمبلیوں نے متفقہ طور پر قرارداد پاس کی تھی کہ سرکاری سکیم کے کوٹہ میں اضافہ کیا جائے اسی لئے سرکاری سکیم کا کوٹہ بڑھا رہے ہیں۔ حج2017ء کو بھی مثالی بنائیں گے جب وفاقی وزیر مذہبی امور کمیٹی روم میں قوم کو خوشخبریاں سُنا رہے تھے حج آرگنائزر ایسوسی ایشن آف پاکستان ہوپ کے مرکزی چیئرمین حاجی ثناء اللہ دوسری طرف میڈیا سے مخاطب تھے کہ حج پالیسی کی تیاری میں بدنیتی شامل ہے،ہم50فیصد کے سٹیک ہولڈر ہیں ہمیں اعتماد میں نہیں لیا گیا ہم حج پالیسی مسترد کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں۔ہوپ اور حکومت کے درمیان 2013ء میں ہونے والے تحریری معاہدے پر عملدرآمد کیا جائے۔ سرکاری اور پرائیویٹ سکیم کا حج کوٹہ پچاس پچاس فیصد رکھا جائے۔ حاجی ثناء اللہ معاہدے کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں 2013ء میں سعودی حکومت نے حرم شریف کی توسیع کی وجہ سے دُنیا بھر کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان کا کوٹہ 20فیصد کم کیا تو وزیر خزانہ اسحاق ڈار ، پرویز رشید اور سردار محمد یوسف پر مشتمل کمیٹی نے ہوپ کے وفد سے تفصیلی ملاقات کی اور اسحاق ڈار نے اس وقت کہا تھا کہ ہم پرائیویٹ سکیڑ کی کارکردگی سے مطمئن ہیں، پرائیویٹ سکیم کو مرحلہ وار بڑھانے کے بھی حق میں ہیں۔ ہوپ اگر 2013ء کے حج میں قربانی دے اور اپنا حصہ ہمیں دے دے تو ہم بڑے نقصان سے بچ سکتے ہیں،کیونکہ وزارتِ مذہبی امور سعودیہ میں اپنے کوٹہ کے مطابق عمارتیں حاصل کر چکا ہے، حکومت کا پہلا سال ہے پہلا حج ہے، ہم کسی بدنامی کے متحمل نہیں ہو سکتے اِس لئے سعودی حکومت کی طرف سے اچانک 20فیصد کم کئے گئے کوٹہ کا حل اس طرح نکالتے ہیں کہ حج 2013ء میں پرائیویٹ سکیم کا20فیصد کوٹہ سرکاری سکیم میں دے دیا جائے اور جن کمپنیوں کا کوٹہ کم کیا جائے، جب سعودی حکومت کوٹہ بحال کرے تو انہی کمپنیوں کو کوٹہ دے دیا جائے، جن کا کوٹہ کاٹا جا رہا ہے پھر ہوپ نے قربانی دی اور وفاقی وزیر خزانہ کی قیادت میں وزرا کی کمیٹی نے ہوپ کے ساتھ تحریری معاہدہ کر لیا اب2017ء میں سعودی حکومت نے حرم کی توسیع کی وجہ سے کاٹا گیا کوٹہ بحال کردیا ہے۔وزارتِ مذہبی امور تحریری معاہدے پر عملدرآمد کرنے کی بجائے نئے نئے جواز پیش کر رہی ہے۔


مَیں قوم کو حقائق بتاتا ہوں۔وزارتِ مذہبی امور کی طرف سے سرکاری حج کا کوٹہ60فیصد کرنا قومی مفاد میں نہیں،بلکہ سعودیہ میں موجود بلڈنگ مافیا کو نوازنے اور کمیشن حاصل کرنے کے لئے کیا جا رہا ہے۔ سندھ ہائی کورٹ نے ہمارے حق میں حکم امتناعی جاری کر رکھا ہے۔ سپریم کورٹ نے گزشتہ سال بھی ہمارے حق میں فیصلہ دیا گیا اس سال بھی ہم اپنا حق لینے کے لئے پُرامید ہیں۔ وزیراعظم سے مداخلت کی درخواست کرتے ہیں۔ ہوپ کے چیئرمین حاجی ثناء اللہ اپنے ساتھیوں سمیت جب تفصیلات بتا چکے تو ان سے سوال کیا گیا آپ اپنا حق لینے کے لئے کہاں تک جائیں گے، جس پر ہوپ کے نمائندے نے کہا کہ جہاں تک جانا پڑا۔ 17اپریل کو سندھ ہائی کورٹ میں حکومت کے وکیل جو سپریم کورٹ میں بھی وزارت کے وکیل نے موقف اختیار کیا ہم نے حج پالیسی سپریم کورٹ کے حکم پر ہیں، بنائی گئی کمیٹی نے تیار کی ہے۔20اپریل کو سپریم کورٹ میں سماعت ہو رہی ہے اس لئے تاریخ دے دی جائے جس پر عدالت نے25اپریل کی تاریخ دے دی اور وزارتِ مذہبی امور اور ہوپ کے درمیان سرد جنگ جاری ہے۔ وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف سرکاری سکیم کی کارکردگی پر شادیانے بجا رہے ہیں،حالانکہ سعودی حکومت دُنیا بھر کے ممالک میں پاکستان کی پرائیویٹ سکیم کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے پہلا نمبر دے چکا ہے۔ کیا وفاقی وزیر صرف سرکاری سکیم کے ذمہ دار ہیں؟ پرائیویٹ سکیم ان کی ذمہ داری نہیں ہے؟ پرائیویٹ سکیم سے اتنے خوفزدہ اور بیزار کیوں ہیں۔ ان کا موقف اس لئے تسلیم نہیں کیا جا سکتا ایک طرف سرکاری سکیم کے گن گاتے نظر آتے ہیں تو دوسری طرف نئی انرول کمپنیوں کو حج کوٹہ دینے کے لئے بھی بے تاب ہیں وفاقی سیکرٹری مذہبی امور سے کئی بار میدان لگا چکے ہیں۔ گزشتہ سال کے حج کی شاندار کارکردگی پر وزیراعظم سے شاباش لینے والے وفاقی سیکرٹری سہیل عامر مرزا وزارتِ مذہبی امور سے اچانک کیوں بھاگ کھڑے ہوئے، حالانکہ ان کی کارکردگی پر ہی پوری وزارت کو چار تنخواہوں کا بونس ملا تھا دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔ وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف کو ہوپ کے نمائندوں سے محاذ آرائی کرنے کی بجائے ان کو اعتماد میں لیں۔ آخری حج حکومت کا ہے ہوپ کا تو نہیں، حکومت کسی کی بھی ہو حج تو جاری رہنا ہے۔


2013ء میں اگر وزیر خزانہ اسحاق ڈار، پرویز رشید، سردار محمد یوسف کچھ لو اور دو کے ذریعے معاملات طے کر سکتے ہیں تو حج 2017ء میں ایسا کیوں نہیں ہو سکتا۔ پرائیویٹ سکیم کے حج آرگنائزر اپنی گیارہ سالہ کارکردگی کی بنیاد پر مطالبہ کر رہے ہیں کہ ہمارے سروں سے بلیک میلنگ کی تلوار ہٹائی جائے۔ ہر سال وزارت کے آگے سجدہ ریزی کی شرط پر حج کے بعد وزارت کا سرکلر، آپ اب حج آر گنائزر نہیں ہیں بکنگ نہیں کر سکتے یہ چیزیں پیش کریں۔ بلیک میلنگ کے نئے نئے انداز ختم کر کے پانچ سال کے لئے مستقل رجسٹریشن کر دی جائے حج آرگنائزر مرحلہ وار آگے بڑھتی پرائیویٹ حج سکیم کو دوام بخشنے کا موقع دیا جائے اس کے ساتھ ساتھ درخواست ہے کہ نئی انرول کمپنیوں کو لالی پاپ دینے کی بجائے ان کے لئے بھی مستقل لائحہ عمل تشکیل دیا جائے اور ملی بھگت سے نمبروں کے رچائے گئے ڈرامے کو ختم کر کے2006ء کی پالیسی کو اپناتے ہوئے مانیٹرنگ کا عمل حاجی کیمپوں کی بجائے کسی پرائیویٹ ایجنسی سے مکمل کروا کر کلیئر ہونے والی کمپنیوں کی قرعہ اندازی کرا دی جائے، سفارش نذرانہ، کلچر کے خاتمے کے لئے مضبوط نظام وضع کیا جائے۔ ہوپ بھی ضد اور ہٹ دھرمی سے بالاتر ہو کر50افراد کے کوٹہ کے ساتھ چھ سال سے مشکلات کا سامنا کرنے والوں کے درد کو بھی سمجھے، ایثار، قربانی کے فلسفے کو نعروں اور وعدوں سے آگے بڑھ کر فنڈز کے بے دریغ استعمال کے شفاف آڈٹ کا نظام اپنائے، حکومت بھی ضد ہٹ دھرمی چھوڑ کر پرائیویٹ سیکٹر کے تحفظات ختم کرنے کے لئے عملی اقدامات اٹھائے تاکہ پرائیویٹ سکیم بھی عوامی امنگوں کے مطابق کارکردگی دکھا سکے۔

مزید :

کالم -