داستانِ ضیاء الحق

داستانِ ضیاء الحق
 داستانِ ضیاء الحق

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

جنرل ضیاء الحق بھی پاکستان پر بلا شرکت غیرے حکومت کرنے والے دیگر فوجی آمروں کی طرح ہی تھے، مگر یہ فیشن بن گیا کہ جب کبھی ملٹری ڈکٹیٹروں پر تنقید کی جائے تو سب سے زیادہ نشانہ جنرل ضیاء الحق کو ہی بنایا جاتا ہے۔ ان کے شدید مخالف پورے ملک کا بیڑہ غرق کرنے کی ذمہ داری بھی انہی پر ڈالتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ جنرل ضیاء کا دور تھا ہی غیر معمولی،اوپر سے بھٹو کو پھانسی دینے کے فیصلے نے ایسے تباہ کن منفی اثرات چھوڑے جن کا آج تک تدارک نہیں کیا جا سکا۔ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے کئی سینئر جرنیلوں کو سپر سیڈ کر کے جونیئر ضیاء الحق کو آرمی چیف بنایا تھا۔ ذہین فطین بھٹو کے ذہن کے کسی گوشے میں یہ بات موجود تھی کہ جنرل ضیاء الحق اس نوازش پر دوران ملازمت مکمل طور پر حکومت کے تابعدار رہیں گے۔ پاک فوج کے حوالے سے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو خصوصاً 1971ء کی جنگ کے تناظر میں کئی بڑے اقدامات کر چکے تھے۔ 90 ہزار فوجی قیدیوں کو بھارت سے رہائی دلوانا،افواج کا مورال بلند کرنا، دنیا بھر سے جدید اسلحہ کی خریداری اس کے ساتھ ساتھ ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھنے کے بعد وہ خود کو خاصی بہتر پوزیشن میں کھڑا محسوس کر رہے تھے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ نجی اداروں کی نیشنلائزیشن، فیڈرل سیکیورٹی فورس (ایف ایس ایف) کے قیام سمیت بعض دیگر اقدامات کے باعث تجارتی حلقوں اور مخالف سیاسی جماعتوں میں سخت جذبات پائے جاتے تھے۔ ان سب کے باوجود ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت مجموعی طور پر مضبوطی سے آگے بڑھ رہی تھی۔ بھٹو مرحوم کا عالمی سطح پر بھی ایک کردار تھا۔ ملک کے پہلے فوجی آمر جنرل ایوب خان کی کابینہ میں بطور وزیر خارجہ وہ عالمی سطح پر اپنے تعلقات بنا چکے تھے۔


بطور وزیراعظم بھٹو مرحوم نے اپنے ویژن کے تحت پوری امت مسلمہ کے لئے اہم کردار ادا کرنے کی ٹھانی اور لاہور میں تاریخ ساز اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد کرائی۔ ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھنا اور تمام مسلم ممالک کے اتحاد کے لئے کی جانے والی تیاریاں عالمی اسٹیبلشمنٹ کو کسی طور پسند نہیں آ رہی تھیں۔ اپنے دور اقتدار کے دوران ہی انہیں خصوصاً امریکی حکام کی جانب سے دھمکیاں ملیں۔ 1977ء میں عام انتخابات کا موقع آیاتو 9 مخالف سیاسی و دینی جماعتوں نے پاکستان قومی اتحاد کے نام سے پلیٹ فارم قائم کر کے مقابلے کی ٹھانی۔ یہ سچ ہے کہ عام انتخابات منصفانہ طور پر منعقد ہو جاتے تب بھی پیپلز پارٹی کی پوزیشن کوئی بری نہیں تھی مگر اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ 1977ء کے الیکشن میں زبردست دھاندلی کی گئی۔ دھاندلی کے خلاف چلنے والی تحریک نے دنوں میں زور پکڑا تو فریقین مذاکرات کی میز پر آنے کے لئے تیار ہو گئے۔ اس سے قبل سمجھوتے اور نئے الیکشن کے لئے تاریخ کا اعلان ہوتا فوج نے بغاوت کر کے تختہ الٹ دیا۔ چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاء نے صرف 90 روز میں عام انتخابات کرا کے واپس بیرکوں میں جانے کا اعلان کیا، مگر اصل منصوبہ کچھ اور ہی تھا۔ نئے انتخابات کے لئے تاریخ کا اعلان کرکے پولنگ منسوخ کر دی گئی۔ سپریم کورٹ کے ذریعے ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت دلوا کر اس پر عمل درآمد بھی کر دیا گیا۔اس تمام گھناؤنے کھیل کے پیچھے عالمی اسٹیبلشمنٹ ہی تھی ۔


یہ بات کہی جا رہی تھی کہ قبر ایک اور بندے دو، ضیاء الحق نے بھٹو کو چھوڑا تو خود نہ بچ پائیں گے۔ ضیاء الحق کے دور میں سابق سوویت یونین، افغانستان میں گھس آیا تو ضیاء الحق نے اس کا راستہ روکنے کا فیصلہ کر لیا، دو سال بعد امریکہ سمیت پوری دنیا عملی مدد کے لئے میدان میںآ گئی۔ مجاہدین تو بڑی تعداد میں موجود ہی تھے پھر بھی دنیا بھر سے جنگجو منگوائے گئے۔ جدید اسلحے کے ڈھیر لگ گئے، اس جنگ میں پاکستان کو براہ راست کودنا ہی کودنا تھا۔ جدید جنگی مشینری اور دنیا کی دوسری سپر پاور ہونے کی وجہ سے سابق سوویت یونین کے عزائم افغانستان سے بھی آگے جانے کے تھے۔ بلوچستان اور صوبہ سرحد (خیبرپختونخوا) پر سرخ ریچھ کی نظریں تھیں۔ آج بعض تجزیہ کار اس سوویت منصوبے کو محض خام خیالی قرار دیتے ہیں۔ ایسا ہرگز نہ تھا ،دنیا کا سب سے بڑے رقبے والا ملک پاکستانی علاقوں پر قبضے کے بعد گرم پانیوں تک رسائی کا منصوبہ بنا کر میدان میں آیا تھا اور یہ بھی سچ ہے کہ اگر سوویت افواج کو افغانستان میں نہ روکا جاتا تو بلوچستان اور سرحد میں ایسے عناصر موجود تھے جو غیر ملکی فوج کو خوش آمدید کہنے کے لئے تیار تھے ۔یہ ٹھیک ہے کہ افغان جہاد کے ہماری زندگیوں پر گہرے اثرات مرتب ہوئے مگر اس کے سوا اور کوئی چارہ ہی نہ تھا۔ اس دھما چوکڑی میں کلاشنکوف کلچر بھی آیا اور ہیروئین کے سمگلروں نے بھی خوب کام دکھایا۔


ضیاء الحق کے دور میں آیت اللہ خمینی نے شاہ ایران کا تختہ الٹ کر انقلاب لانے کا اعلان کیا۔ اس انقلاب کے براہ راست اثرات پاکستان پر مرتب ہونے لگے تھے۔ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ نے ایک روز اسلام آباد میں احتجاج کے دوران سیکرٹریٹ پر قبضہ جما لیا۔ اس موقع پر پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے مسلکی بنیادوں پر جماعتیں کھڑی کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس سے فرقہ واریت میں اضافہ تو ہونا ہی تھا مگر خونریزی بھی ہوئی۔ یہ فیصلہ ضیاء الحق ہی نہیں،بلکہ پوری اسٹیبلشمنٹ کا تھا،اگر اس وقت ’’روشن خیال‘‘ جنرل مشرف بھی حکمران ہوتے تو فیصلہ یہی ہونا تھا۔ ضیاء الحق کے دور کو کرپشن کا دور کہا جاتا ہے۔ درست کہ غنڈہ گردی، زمینوں پر قبضے اور بدعنوانی کے واقعات عام تھے، مگر کرپشن تو قیام پاکستان کے فوری بعد اس وقت ہی شروع ہو گئی تھی جب لوگ جعلی کلیم کے لئے جائیدادیں ہتھیانے پر تل گئے تھے۔ ضیاء الحق کے دور میں پاکستان کا ایٹمی پروگرام تکمیل کو پہنچا۔ 1984ء میں ایٹم بم تیار کر لیا گیا تھا۔


ڈاکٹر عبدالقدیر بھٹو مرحوم کے بہت بڑے مداح ہیں، مگر وہ یہ بات کہنے میں ہرگز نہیں چونکتے کہ ضیاء الحق نے بھی تمام تر وسائل ایٹمی پروگرام کے لئے دستیاب رکھے تھے۔ ضیاء دور کی ایک اور اہم بات بعض اسلامی اقدامات تھے۔ یہ تاثر عام تھا کہ ضیاء الحق ذاتی حیثیت میں پابند صوم وصلوٰۃ ہیں اور مالی کرپشن میں ملوث نہیں۔ سرکاری دفاتر میں نماز با جماعت کا اہتمام سمیت دیگر ایسے کئی اقدامات کو رائج کیا گیا،مگر مخالفین کے مطابق مرحوم جنرل کا یہ سارا عمل ریا کاری پر مبنی تھا۔ ضیاء الحق نے میڈیا (پی ٹی وی)پر خواتین اناؤنسرزکو سر ڈھانپ کر خبریں پڑھنے کا حکم دیا۔ ڈراموں میں ڈائیلاگ تک کا خیال رکھا جاتا تھا کہ ان میں کوئی چیز مذہبی اور اخلاقی حوالے سے قابل اعتراض نہ ہو۔ ضیاء الحق کے اس اقدام پر ماڈرن اور فنکار برادری آج تک ان کے در پے ہے، مگر سچ یہی ہے کہ اس دور میں مغربی کلچر تیزی سے پروان چڑھ رہا تھا اور ٹی وی و فلموں میں اس کی خوب عکاسی ہو رہی تھی،جس کے توڑ کے لئے یہ منصوبہ بنایا گیا۔


ہر مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کی طرح جنرل ضیاء کے دور میں بھی صوبائی منافرت میں اضافہ ہوا۔ ایم کیو ایم کی بنیاد رکھی گئی تا کہ سندھ میں پیپلزپارٹی کے توڑ کے لئے متحارب قوت پیدا کی جا سکے۔ جنرل ضیاء الحق نے اپنا اقتدار مستحکم بنانے کے لئے ریفرنڈم کرایا اور ازخود صدر بن بیٹھے۔ 1985ء میں عام انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر کرا کے سیاسی جماعتوں کو کمزور کرنے کی کوشش کی۔ ساری تدبیریں الٹی پڑیں، غیر جماعتی اسمبلی میں مسلم لیگ بنی اور اس کے شریف النفس وزیراعظم محمد خان جونیجو سے ان بن کے بعد 1988ء میں اسمبلی ہی توڑ دی گئی۔ اسمبلی توڑنے کا صدارتی اختیار (58 ٹو بی) ضیاء الحق کے دور میں ہی آئین کا حصہ بنایا گیا تھا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کو سیا سی طور پر ادھ موا کرنے کی تمام کوششیں ناکام رہیں۔ 1986ء میں بے نظیر بھٹو کی پاکستان واپسی پر لاہور میں ان کے فقید المثال استقبال نے ثابت کر دیا کہ پھانسی اور جلاوطنی والے لیڈر کبھی اتنی جلدی عوام کی نظروں سے اوجھل نہیں ہوتے۔ ایوب، یحییٰ، مشرف کی طرح جنرل ضیاء الحق بھی آل ان آل تھے۔ عدلیہ ان کے گھر کی لونڈی تھی تو انتظامیہ نوکر، ملک کے اصل حکمران ادارے جی ایچ کیو، آئی ایس آئی اور ایم آئی ان کے اشارہ ابرو کے منتظر رہتے تھے۔ منتخب نمائندے تو محض بیٹ مین کی طرح برتاؤ کرتے تھے لیکن کہیں کچھ اور بھی تھا۔ اوپر اللہ تعالیٰ اور نیچے عالمی استعمار جس کے نزدیک فوجی آمر کی ایکسپائری ڈیٹ آ چکی تھی۔ 1988ء میں جونیجو حکومت کی برطرفی کے ساتھ ہی او جڑی کیمپ کا واقعہ بھی رونما ہو گیا۔ معاملات سمٹ نہیں رہے تھے۔ جنرل ضیاء الحق کو مختلف معتبر حلقوں کی جانب سے یہ اطلاع مل چکی تھی کہ ان کی جان لینے کا منصوبہ بنایا جا چکا ہے۔


14 اگست 1988ء کی تقریب کی تیاریوں کے سلسلے میں پورا فنکشن آرمی ہاؤس میں ہی کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ایک روز قبل ریہرسل کے لئے پی ٹی وی ٹیم آرمی ہاؤس گئی تو ضیاء الحق خود ملنے آ گئے۔ انہوں نے دریافت کیا کہ سٹیج کس طرف لگے گا،پھر اطراف کا جائزہ لیا۔ وہاں موجود درختوں کے جھنڈ کو اپنے لئے خطرہ قرار دیتے ہوئے 40 درخت کٹوا دیئے۔ انہیں خدشہ تھا کہ منصوبہ ساز انہیں اندر والوں کے ذریعے ہی نشانہ بنوائیں گے۔ دومعروف صحافی جو اب بھی پوری طرح سے چاق و چوبند ہیں ضیاء الحق سے ملاقات کے لئے 14 اگست کو ہی آرمی ہاؤس گئے، بعد میں الگ الگ محفلوں میں انہوں نے بتایا کہ ہم ملنے کے لئے پہنچے تو جنرل صاحب کے چہرے پر واضح طور پر موت کا خوف جھلک رہا تھا۔ 17اگست کو جنرل ضیاء الحق بہاولپور گئے ،تمام تر حفاظتی انتظامات کے ساتھ ٹینکوں کی مشق کا جائزہ لیا۔ وائس چیف آف آرمی سٹاف جنرل اسلم بیگ کے علاوہ 11 دیگر جنرل صاحبان اور امریکی سفیر و دفاعی اتاشی بھی ان کے ہمراہ تھے۔ تقریب ختم کر کے اپنے طیارے کی جانب گئے اور سب کو ساتھ لے کر سوار ہو گئے۔ جنرل اسلم بیگ علیحدہ سے اپنے طیارے پر آئے تھے جس نے الگ اڑان بھری۔ ٹاپ فوجی لیڈر شپ ہی نہیں امریکی حکام بھی ساتھ تھے۔ بظاہر سب کچھ محفوظ تھا، مگر طیارہ فضا میں بلند ہونے کے تھوڑی دیر بعد ہی بستی لال کمال میں گر کر بھسم ہو گیا۔ قاتلوں کا آج تک پتہ نہیں چل سکا۔ کیا یہ بات حیرت انگیز نہیں کہ امریکی سفیر اور دفاعی اتاشی بھی لقم�ۂ اجل بن گئے، مگر سپر پاور نے اصل منصوبہ سازوں تک پہنچنے اور نام افشا کرنے میں دلچسپی بھی نہیں لی۔ پاکستان کے اندرتحقیقات کا بہت شور مچا بعض افسران کے نام بھی سامنے آئے ایک موقع پر یوں لگا کہ قاتل پکڑے ہی جانے والے ہیں، لیکن پھر سارا معاملہ آہستہ آہستہ ٹھنڈا پڑنے لگا۔ جنرل ضیا الحق کے صاحبزادے آج تک مطالبہ کررہے ہیں کہ ان کے والد جو فوج کے سربراہ بھی تھے کے قتل کی تحقیقات کرا کررپورٹ جاری کی جائے مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی اب تو ٹھیک سے یہ بھی نہیں پتہ کہ اتنے بڑ ے واقعے کے حوالے سے کوئی جامع تفتیش ہوئی بھی تھی یا نہیں۔


بہرحال جنرل ضیا کی آن ڈیوٹی موت شہادت قرار پائی، بہت بڑا جنازہ ہوا،ملک میں بڑے پیمانے پر سوگ کی فضا دیکھی گئی،ہربرسی کے موقع پر شروع شروع میں بڑے بڑے تعزیتی جلسے ہوئے جو اب سمٹ کر محض چند درجن افراد تک رہ گئے۔ دلچسپ بات ہے کہ ضیاء الحق کی سیاسی دریافت نواز شریف آج بذات خود ملکی تاریخ کے سب سے بڑے اینٹی اسٹیبلشمنٹ شخصیت بن کر ابھرے ہیں۔ ضیاء الحق کی حالیہ برسی پر ’’گو نواز گو‘‘ کے نعرے بھی لگ گئے۔ اس سے زیادہ مضحکہ خیز صورتِ حال کیا ہو گی کہ جو وزیراعظم نااہل ہو کے گھر سدھار چکا اس کے بارے میں ضیاء الحق کے بچے کھچے حامیوں کو اب بھی یقین نہیں کہ وہ جا چکا ہے۔ کہیں باقی مخالفین بھی تو ایسا ہی نہیں سوچ رہے؟

مزید :

کالم -