عوام اپنے نمائندوں کا احتساب کیوں نہیں کرتے؟
مَیں نے جب سے یہ خبریں پڑھی ہیں کہ خیبرپختونخوا میں ایک صوبائی وزیر اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کے ایک رکن اسمبلی کو چار سال تک اپنے حلقے میں واپس نہ آنے کی پاداش میں الیکشن کے قریب آتے ہی حلقے میں آنے پر لوگوں نے مارپیٹ کا نشانہ بنایا اور انہیں بھاگنے ہی میں عافیت محسوس ہوئی، تب سے میری اس حوالے سے مایوسی میں کچھ کمی واقع ہوئی ہے کہ پاکستانی عوام لائی لگ ہیں، ان کے ہوتے ملک میں کوئی تبدیلی نہیں آسکتی۔ اگرچہ کسی وزیر یا ایم پی اے / ایم این اے کے خلاف ایسا سلوک خطرے سے خالی نہیں۔ وہ ریاستی طاقت کا استعمال کرکے نشانِ عبرت بھی بنا سکتا ہے، مگر ایسا کرنے کے بعد اس کی سیاست کے ختم ہونے کا سو فیصد امکان پیداہو سکتا ہے، اس لئے شاید وہ ایسا نہیں کرے گا، اس لئے عوام کو بے خوف و خطر اپنے ایسے تمام نمائندوں کے ساتھ یہی ’’حسن سلوک‘‘ اختیار کرنا چاہیے جو منتخب ہونے کے بعد مڑ کر نہیں دیکھتے اور انتخابات کے قریب آتے ہی برساتی مینڈکوں کی طرح باہر نکل آتے ہیں اور عوام سے محبت کی پینگیں بڑھانے لگتے ہیں۔ جب کوئی شخص اپنے حلقے سے منتخب ہو جاتا ہے تو وہ پورے حلقے کا نمائندہ ہوتا ہے، اس کا گریبان حلقے کا کوئی بھی ووٹر پکڑ سکتا ہے، اس لئے ہر قومی یا صوبائی حلقے کے عوام کو کم از کم اس نکتے پر اپنی جماعتی وابستگی سے بالاتر ہو کر حلقے کو نظر انداز کرنے والوں کا احتساب کرنا چاہیے، صرف یہی ایک طریقہ ہے، جس سے نااہلوں کو اہل اور کرپٹ عناصر کو ایماندار بنایا جا سکتا ہے۔
یہ حقیقت تو اب بھولے عوام بھی جان چکے ہیں کہ وطن عزیز میں ایک خاص طبقہ ہی انتخاب میں حصہ لے سکتا ہے۔ اول تو سیاسی جماعتیں کسی عام آدمی کو ٹکٹ نہیں دیتیں،دے بھی دیں تو وہ الیکشن کے اخراجات ہی پورے نہیں کر سکتا، اس لئے ہمیشہ وہی گنے چنے چہرے ہر حلقے سے سامنے آتے ہیں جو پہلے بھی کئی بار اسمبلی میں پہنچ چکے ہوتے ہیں یا انہوں نے انتخابات میں حصہ لیا ہوتا ہے۔ ہمارے انتخابی عمل میں یہ برائی تو ازل سے موجود ہے کہ اس میں ووٹروں کو کسی دو وڈیروں میں سے ایک یا دو سرمایہ داروں میں سے کسی ایک کو ووٹ دینا پڑتا ہے۔ ایسے میں ووٹروں کے پاس کیا چوائس رہ جاتی ہے، سوائے اس احتسابی عمل کے جو آج کل اِکا دکا مثالوں کے ذریعے سامنے آ رہا ہے۔ بہت کم لوگوں کو معلوم ہوتا ہے کہ سرکاری ادارے ان کا جائز کام بھی کیوں نہیں کرتے۔ یہ ایک گٹھ جوڑ ہے، جو منتخب نمائندوں اور سرکاری عمال کے درمیان پایا جاتا ہے۔ جب کسی کا جائز کام بھی نہیں ہوتا تو وہ اپنے نمائندے کے ڈیرے پر حاضری دیتا ہے، وہاں سے اسے چٹ جاری ہوتی ہے، بہت قریبی ہو تو فون بھی کر دیا جاتا ہے۔ یوں اس کا کام ہو جاتا ہے اور منتخب نمائندے کی بھی بلے بلے ہو جاتی ہے۔ گویا وہ کچھ کئے بغیر اپنے ووٹروں پر احسان عظیم فرماتا ہے ،یوں اپنی ہر دلعزیزی برقرار رکھتا ہے۔ بجائے حلقے میں ترقیاتی کام کرانے، لوگوں کی زندگی کو آسان بنانے، اور اپنی صوابدیدی گرانٹ کو خرچ کرنے کے، وہ تھانے کچہری اور پٹوار خانے کے مسائل حل کرکے اپنا اُلو سیدھا کئے رکھتا ہے۔ یہ رویہ ناکام جمہوریت کی سب سے بڑی وجہ ہے۔
سیاسی جماعتوں کے اندر ایسا کوئی خودکار نظام موجود نہیں جو اپنے ارکان اسمبلی کی کارکردگی پر نظر رکھ سکے۔ ارکانِ اسمبلی تو پارلیمنٹ ہی نہیں جاتے، اپنے حلقوں میں کیسے جاتے ہوں گے؟۔۔۔ بدقسمتی سے حکومت اور رکن اسمبلی کی سطح پر یہ رویہ پروان چڑھ چکا ہے کہ پانچ سال کے لئے منتخب ہوئے ہیں تو پانچ سال بعد ہی عوام کی طرف دیکھیں گے۔ جیسا آج کل مسلم لیگ(ن) کر رہی ہے۔ چار سال تک بجلی کی عدم فراہمی کا ریکارڈ قائم کرکے اب وہ یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ لوڈشیڈنگ ختم ہوجائے گی ۔۔۔ختم ہو گی بھی یا نہیں، یہ تو ابھی ایک معمہ ہے، تاہم اس سے اس امر کا اندازہ ضرور ہوتا ہے کہ حکومت پانچ سال کی مدت کو ایک مہلت سمجھتی آئی ہے، حالانکہ جمہوریت میں ہر دن کا حساب ہوتا ہے اور ہر روز عوام کے سامنے اپنی کارکردگی کی پٹاری کھولنا پڑتی ہے۔ اگر سیاسی جماعتیں ارکان اسمبلی کی اپنے حلقوں میں موجودگی اور عوام کے مسائل حل کرانے کی کارکردگی کو اگلی بار ٹکٹ کا معیار بنا لیں تو رکن اسمبلی کی جرات نہ ہو کہ وہ کئی برس تک عوام سے دور رہے اور الیکشن کے دنوں میں باہر نکل کر عوام کو بے وقوف بنانے کی کوشش کرے۔ مجھے یہاں ایم این اے جمشید دستی کی مثال یاد آ رہی ہے۔ وہ حکومت میں شامل نہیں ہیں، انہیں حکومت فنڈز کے معاملے میں بھی نظر انداز کرتی ہے اور ان کی بجائے اپنے ہارے ہوئے نمائندے کو ترقیاتی گرانٹ دیتی ہے، تاکہ جمشید دستی کو حلقے میں ناکام بنایا جا سکے،مگر مَیں دعوے سے کہتا ہوں کہ جمشید دستی کو اب شکست دینا ممکن نہیں۔
اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اسے ملنے کے لئے لوگوں کو اس کے ڈیرے پر نہیں جانا پڑتا، بلکہ وہ خود ہر جگہ پہنچ جاتا ہے۔ کبھی کسی پھٹے، کسی چارپائی یا چائے کے کھوکھے پر اسے ملنا آسان ہے۔ صرف یہی نہیں، وہ کسی کے لئے کوئی چٹ جاری نہیں کرتا، بلکہ خود اس کے ساتھ جاتا ہے اور اس کا مسئلہ حل کراکے ہی واپس آتا ہے۔ اب کوئی بتائے کہ لوگ اسے کیسے چھوڑ سکتے ہیں؟ وہ لوگوں کے درمیان کھڑا ہے۔ اپوزیشن میں ہونے کی وجہ سے وہ لوگوں کے لئے بہت زیادہ ترقیاتی کام نہیں کرا سکا، مگر اس کا عوام کی دسترس میں رہنا ایک ایسا عمل ہے جس کی وجہ سے اس کے حلقے کے لوگ کسی اور کی طرف دیکھنے کے روادار ہی نہیں۔۔۔جو سیاست میں آکر ایلیٹ کلاس میں داخل ہو گئے ہیں یا جن کا مقصد منتخب ہونے کے بعد اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل ہوتا ہے، وہ عوام سے کٹ جاتے ہیں۔ وہ اس لئے اپنے حلقوں کا رخ نہیں کرتے کہ عوام ان سے حساب مانگیں گے، مطالبات سامنے رکھیں گے۔ وہ اسلام آباد کی غلام گردشوں میں فائلیں بھی لے کر جاتے ہیں تو ان کا تعلق عوامی مسائل سے نہیں، بلکہ اپنے ذاتی مفادات سے ہوتا ہے۔ جنوبی پنجاب والے اکثر یہ رونا روتے ہیں کہ پنجاب کے سارے وسائل لاہور پر خرچ کر دیئے جاتے ہیں اور جنوبی پنجاب کو اونٹ کے منہ میں زیرے کے مصداق فنڈز دیئے جاتے ہیں۔ یہ شکوہ کرتے ہوئے سارا نزلہ وزیراعلیٰ شہبازشریف پر گرا دیا جاتا ہے کہ وہ ایسا کر رہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اس خطے سے جو ارکان اسمبلی لاہور میں جا بیٹھتے ہیں، انہوں نے کبھی اس کے لئے آواز اٹھائی۔وزیراعلیٰ سے ملاقات کا وقت مانگنے والے اپنے ذاتی کاموں کی چند فائلیں بغل میں دبا کر وزیراعلیٰ کے حضور پیش ہو جاتے ہیں، ان فائلوں پر منظوری لیتے ہیں اور واپس آ جاتے ہیں۔ ان میں اگر اخلاقی جرات ہو اور وہ اپنے حلقے کے عوام کا درد بھی رکھتے ہوں تو وزیراعلیٰ سے مطالبہ کریں کہ جنوبی پنجاب کے لئے اس کی آبادی کے تناسب سے فنڈز مختص کئے جائیں۔ ابھی چند روزبعد پنجاب اسمبلی میں جو بجٹ پیش ہو گا۔ اس کی آنکھیں بند کرکے منظوری دے دیں گے۔ کسی میں اتنا حوصلہ نہیں ہوگا کہ اسمبلی میں کھڑے ہو کر جنوبی پنجاب سے ہونے والی کسی بے انصافی کا ذکر کرے۔ سو کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جب تک عوام اپنے نمائندوں کے احتساب کا وہی طریقہ اختیار نہیں کرتے، جس کی حالیہ دنوں میں ایک دو مثالیں سامنے آئی ہیں، اس وقت تک ان کی نمائندگی کے نام پر مفاد پرست اسمبلیوں میں پہنچتے رہیں گے۔ جمہوریت میں کوئی خامی نہیں، ہمارے ہاں یہ اس لئے بے ثمر نظر آتی ہے کہ عوام خود اپنے حقوق کا دفاع نہیں کرتے۔ اپنے ان نمائندوں سے لاتعلق ہو جاتے ہیں، جنہیں خود ووٹ دے کر اسمبلی میں بھیجتے ہیں۔ ان کا احتساب پانچ برس کے بعد ووٹ سے کرنے کی حکمت عملی ایک سازش کے تحت دی گئی ہے، حالانکہ ان کا ہر روز احتساب ہونا چاہیے، تب ہی جمہوریت گراس روٹ لیول پر نہ صرف مضبوط ہوگی، بلکہ اس میں جوابدہی کا عنصر بھی پیدا ہو جائے گا، جو فی الوقت ناپید نظر آتا ہے۔