اپنی سیاست میں عدالت کو نہ گھسیٹیں
سابق وزیراعظم نواز شریف کو نااہلی کے سبب خالی ہونے والی نشست این اے120 سے نواز شریف کی اہلیہ کلثوم نواز 14ہزار سے زائد ووٹوں کی برتری سے الیکشن جیت گئی ہیں۔یہ کامیابی متوقع بھی تھی۔اسی حلقے سے نواز شریف نے2013ء کے عام انتخابات میں 91638 ووٹ حاصل کئے تھے،جبکہ کلثوم نواز کے حاصل کردہ ووٹ61754 ہیں۔ این اے120 میں کل ووٹوں کی تعداد321786 ہے، صرف39فیصد ووٹروں نے حالیہ ضمنی الیکشن میں اپنے ووٹ استعمال کئے ہیں اور 61فیصد عوام نے نہ تو مسلم لیگ ن کی امیدوار بیگم کلثوم نواز کو ووٹ دینا پسند کیا ہے اور نہ ہی عمران خان کی تحریک انصاف کو،جہاں تک جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی کا تعلق ہے ان دونوں جماعتوں کو تو عوام نے بری طرح مسترد کر دیا ہے۔
اگر این اے120 کے کل ووٹوں کی تعداد کو سامنے رکھا جائے تو مسلم لیگ(ن) کی کامیاب ہونے والی امیدوار بیگم کلثوم نواز کو حاصل ہونے والے ووٹ صرف19فیصد ہیں۔ شہباز شریف نے کلثوم نواز کی جیت کو مسلم لیگ(ن) کی قیادت اور کارکردگی پر عوام کے اظہارِ اعتماد کا نام دیا ہے،لیکن میرا یہ سوال ہے کہ جب انتخابات میں61فیصد ووٹرز نے اپنی رائے استعمال نہ کی ہو۔کیا یہ انتخابات اور اس میں حصہ لینے والی سیاسی جماعتوں پر عوام کا عدم اعتماد نہیں۔جب کامیاب ہونے والی امیدوار نے صرف19فیصد ووٹ حاصل کئے ہوں تو اسے عوام کا اظہارِ اعتماد کیسے قرار دیا جا سکتا ہے۔انتخابات کے حوالے سے ہمارا یہ بہت بڑا قومی المیہ ہے کہ عوام کی عظیم اکثریت اپنے ووٹ کااستعمال ہی نہیں کرتی۔اس کی وجوہات کچھ بھی ہوں،مگر اس کا نتیجہ یہ ہے کہ لاہور کے حلقہ این اے120 میں کل ووٹوں کے19فیصد ووٹ حاصل کرنے والی امیدوار کی کامیابی کا جشن منایا جا رہا ہے،جبکہ جشن منانے والوں کو اس حقیقت کا بھی علم ہے کہ این اے120 کے کل تین لاکھ 21ہزار ووٹوں میں سے انہوں نے نہ صرف 61ہزار ووٹ حاصل کئے ہیں۔یہ کیسی خوشی اور کیسا جشن منایا جا رہا ہے کہ جیتنے والی امیدوار کی خوشی میں اس حلقے کے دو لاکھ60 ہزار ووٹرز شامل ہی نہیں۔
بیگم کلثوم نواز کی کامیابی کے جشن منانے والے یہ بھی دعویٰ کر رہے ہیں کہ عوام نے نواز شریف کے خلاف سپریم کورٹ کا فیصلہ مسترد کر دیا ہے اور یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ عوام نے نواز شریف کے خلاف سپریم کورٹ کا فیصلہ مسترد کر دیا ہے اور یہ دعویٰ کسی اور کا نہیں، نواز شریف کی بیٹی مریم نوازکا ہے۔عوام کے فیصلے اور سپریم کورٹ کے فیصلے کا تقابل ہی غلط ہے۔اس ضمنی الیکشن کی مہم کے دوران عمران خان نے بھی یہ غلط موقف اختیار کیا تھا کہ یہ الیکشن ریفرنڈم ہے جس میں عوام یہ فیصلہ صادر کریں گے کہ وہ عدلیہ کے ساتھ کھڑے ہیں یا سب سے بڑے ’’ڈاکو‘‘ نواز شریف کے ساتھ۔پہلی بات تو یہ ہے کہ سیاست میں اس طرح کی ناشائستہ اور غیر مہذب زبان استعمال ہی نہیں کی جانی چاہئے کہ اپنے سیاسی مخالفین کو چور اور ڈاکو قرار دیا جائے۔دوسری بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ مُلک کی سب سے بڑی عدالت ہے۔ اس کے فیصلوں سے اتفاق یا مہذب انداز میں اختلاف تو کیا جا سکتا ہے،مگر انتخابات میں عوام کے فیصلوں کے ذریعے عدالتی فیصلوں کو مسترد کئے جانے کی دلیل درست نہیں ہے۔
نواز شریف بہرحال عوام کے ایک مقبول اور پسندیدہ لیڈر ہیں،لیکن اگر ان سے کوئی جرم سرزد ہو گا تو اس کا قانونی فیصلہ عدالت ہی کر سکتی ہے عوام نہیں۔ہائی کورٹس ہوں یا سپریم کورٹ، عدالتوں کو اختیارات بھی آئین نے دیئے ہیں۔ کوئی بھی عدالت اپنے سامنے پیش ہونے والے مقدمہ کا فیصلہ کرنے کے لئے عوام سے رائے نہیں لیتی۔ عدالت کو اس سے غرض نہیں ہو سکتی کہ نواز شریف یا کوئی اور سیاست دان عوام میں زیادہ مقبول ہے یا کم۔ عدالتی فیصلوں کا عوام کی رائے سے تعلق ہوتا ہی نہیں،نہ ہی کبھی کسی مقدمے میں عدالت فیصلہ کرنے سے پہلے یہ سوچتی ہے کہ عوام اس فیصلے کو پسند کریں گے یا نہیں۔نواز شریف کی نااہلی کا فیصلہ دیتے ہوئے بھی سپریم کورٹ نے یہ نہیں سوچنا تھا کہ نواز شریف کی نااہلی کے بعد ضمنی الیکشن میں کون امیدوار ہوں گے اور،کون سا امیدوار الیکشن جیتے گا۔سپریم کورٹ نے جعلی ڈگری کے ذریعے الیکشن میں حصہ لینے اور کامیاب ہونے والے امیدوار جمشید دستی کے خلاف فیصلہ دیا تھا۔ضمنی انتخاب میں عوام نے جمشید دستی کو دوبارہ منتخب کر لیا۔اس سے جعلی ڈگری کو اصلی ڈگری تو تسلیم نہیں کیا جا سکتا اور اگر عوام جعل سازی کا ارتکاب کرنے والے امیدوار کو دوبارہ منتخب کر لیتے ہیں تو اس سے یہ نتیجہ اُخذ کرنا بھی دانشمندی نہیں کہ عوام نے سپریم کورٹ کا فیصلہ مسترد کر دیا ہے۔
عوام اگر جعلی ڈگری والے امیدوار ہی کو پسند کرتے ہیں تو اس سے عوام کا بھی کوئی باشعور یا بااصول ہونا ثابت نہیں ہوتا۔
عوام کا کسی الیکشن میں سوچنے کا معیار،انداز اور پیمانہ اپنا ہے، لیکن کسی مقدمے میں قانونی اعتبار سے فیصلہ کرنے کے لئے عدالت کا پیمانہ مختلف ہوتا ہے۔عوام کے فیصلے اور عدالت کے فیصلے ایک دوسرے کے ساتھ گڈ مڈ کرنا درست نہیں۔اگر کلثوم نواز الیکشن ہار جاتیں تو بھی یہ کہنا درست نہ ہوتا کہ عوام نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی تائید کر دی ہے،کیونکہ عدالتوں کے فیصلے اور عوام کے فیصلے یا سوچنے کا پیمانہ ہی الگ الگ ہے۔عوامی فیصلوں اور عدالتی فیصلوں کا دائرہ کار بھی الگ الگ ہے۔جرم جب بھی ہو گا اور جرم کوئی بھی کرے۔چاہے مُلک کا عام آدمی جرم کا مرتکب ہو یا مُلک کا وزیراعظم،اس کے خلاف مقدے کی سماعت مُلک کے آئین اور قانون کے ماتحت قائم عدالت ہی کرے گی اور فیصلے کا اختیار بھی عدالت کو ہے۔اگر یہ کہا جائے کہ ایک سیاست دان کے خلاف چوری،ڈکیتی،جعل سازی، کرپشن یا قتل جیسے سنگین جرم کا اگر مقدمہ درج ہو گا تو اس کے فیصلے کا اختیار عدالت کو نہیں،بلکہ عوام کو حاصل ہے۔ تو ایسا موقف سرا سر غیر آئینی اور غیر قانونی ہو گا۔اگر سپریم کورٹ یا ہائی کورٹس نے کسی شخص کی پارلیمینٹ کے لئے اہلیت یا نااہلی سے متعلق فیصلہ کرنا ہو تو وہ بھی آئین میں لکھے ہوئے احکامات کے مطابق کرنا ہوتا ہے۔
آئین سپریم کورٹ نے نہیں بنایا۔آئین کے آرٹیکل 62 اور63 میں بھی کوئی ترمیم سپریم کورٹ نے نہیں کی۔اگر آئین کے آرٹیکل 62 اور63 میں ایک فوجی آمر جنرل ضیاء الحق نے اپنی من پسند کوئی ترمیم کی تھی تو1988ء کے بعد 2017ء تک پارلیمینٹ نے خود کئی ترامیم آئین میں کی ہیں۔اگر پارلیمینٹ چاہتی تو وہ آرٹیکل62 اور63 میں تبدیلی لا سکتی تھی۔اگر پارلیمینٹ نے ایسا نہیں کیا تو اس کی ذمہ دار سپریم کورٹ نہیں خود پارلیمینٹ ہے۔سپریم کورٹ نے تو آئین اور قانون میں جو کچھ موجود ہو گا اس کی روشنی میں فیصلہ کرنا ہے۔
یہ صحیح ہے کہ ہمارے مُلک میں جب کبھی فوجی آمریت مسلط کی گئی تو سپریم کورٹ نے جرأت مندی کا مظاہرہ نہیں کیا اور آئین سے متصادم فیصلے بھی دیئے ۔اِسی سپریم کورٹ نے نواز شریف کی حکومت کی بحالی کا فیصلہ بھی کیا تھا۔جنرل پرویز مشرف کے خلاف بھی 2007ء میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کا ڈٹ جانا عدلیہ کی تاریخ کا ایک قابلِ فخر کارنامہ ہے۔عدلیہ کا اس طرح سے ڈٹ جانا ہی جنرل پرویز مشرف کے زوال کا سبب بنا اور آخر کار وہ اقتدار چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو جب سپریم کورٹ نے توہین عدالت کی سزا دی تھی اور اس سزا کے نتیجے میں یوسف رضا گیلانی جب پارلیمینٹ کی رکنیت کے لئے نااہل ہو کر وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے بھی محروم ہو گئے تھے تو اس فیصلے کی تحسین تو سابق وزیراعظم نواز شریف نے بھی کی تھی۔ بے نظیر بھٹو کی حکومت دو دفعہ توڑی گئی اور سپریم کورٹ نے ایک مرتبہ بھی بے نظیر بھٹو کی حکومت کو بحال نہیں کیا۔دونوں مرتبہ بے نظیر بھٹو کی حکومت ٹوٹنے کے سازشی عمل میں نواز شریف پوری طرح شریک تھے۔
جب سپریم کورٹ سے بھی بے نظیر بھٹو کے حق میں کوئی فیصلہ نہ ہُوا تو نواز شریف سپریم کورٹ کے اُن فیصلوں پر خوش اور مطمئن ہوئے،لیکن جب سپریم کورٹ نے نواز شریف کی نااہلی کا فیصلہ کیا تو پھر مسلم لیگ(ن) کو دُنیا کی ہر خرابی سپریم کورٹ کے اِس فیصلے میں دکھائی دی اور اب کلثوم نواز کی جیت کے بعد یہ کہا جا رہا ہے کہ عوام نے نواز شریف کی نااہلی کا فیصلہ مسترد کر دیا ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ اگر اس انتخابی معرکے میں کلثوم نواز کو شکست ہو جا تی تو پھر مسلم لیگ(ن) کا موقف کیا ہوتا۔ کیا 2018ء کے عام انتخابات میں بھی مسلم لیگ(ن) کسی پروگرام اور منشور کے بغیر صرف اس ایک نکتے کی بنیاد پر ہی حصہ لے گی کہ نواز شریف کی نااہلی سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ درست تھا یا غلط؟ مسلم لیگ(ن) اور عمران خان دونوں کو چاہئے کہ وہ اپنی سیاست میں سپریم کورٹ کو نہ گھسیٹیں۔عدالتی فیصلوں کا سیاسی اور عوامی فیصلوں سے کوئی تعلق نہ جوڑیں۔سیاست کا میدان الگ ہے اور عدالت کا راستہ الگ ہے۔
عدالتیں عوام سے پوچھ کر فیصلے نہیں کرتیں اور عوام عدالتوں سے مشورہ کر کے ووٹ نہیں دیتے۔اس لئے مریم نواز کا یہ کہنا ہر گز درست نہیں کہ عوام نے سپریم کورٹ کا فیصلہ مسترد کیا ہے۔الیکشن میں مقابلہ نواز شریف اور عمران خان کے درمیان تھا۔ ان میں سے ایک جیت گیا ہے اور دوسرا ہار گیا ہے،لیکن کلثوم نواز کی جیت کو کسی عدالتی فیصلے کی شکست قرار دینا بالکل ہی نامعقول بات ہے۔