ہم شمالی کوریا کو نیست و نابود کر دیں گے:ٹرمپ

ہم شمالی کوریا کو نیست و نابود کر دیں گے:ٹرمپ
 ہم شمالی کوریا کو نیست و نابود کر دیں گے:ٹرمپ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کہتے ہیں جن کے رتبے سِوا ہوتے ہیں ان کی مشکلات بھی سِوا ہوتی ہیں۔ بڑے مناصب کے لئے بڑا دل گردہ بھی درکار ہوتا ہے لیکن امریکہ ایک ایسا ملک ہے جس کے اربابِ اختیار اس مقولے کی صداقت کو تسلیم نہیں کرتے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ بڑا منصب بڑے اقتدار کا نقیب بھی ہوتا ہے اور اس حوالے سے وہ چھوٹے موٹے لوگوں اور قوموں کو درخورِ اعتنا نہیں گردانتے۔

لیکن قدرت تو اگر کرنے پر آئے تو ہاتھیوں کو ابابیلوں سے مروا دیتی ہے۔ امریکہ بھی برسوں سے ایک بدمست ہاتھی اور فیلِ بے زنجیر بنا ہوا ہے۔ ہم ان اسباب و وجوہات کا ذکر نہیں کرتے جن کی بناء پر امریکی اشرافیہ قوت و سطوت کے بے لگام گھوڑے پر سوار ہے۔۔۔ ابلیس کو بھی تو آخر خدائے بزرگ و برتر نے ایک بڑی حد تک بے لگام چھوڑ رکھا ہے!


ویسے تو امریکہ کے کئی صدور اندھی طاقت کے نشے میں چور زیرِ زمین جا چکے ہیں لیکن جب وہ زندہ و تابندہ تھے تو آپ کو یاد ہوگا ان کے ایک معمولی سے نائب وزیر نے نیو کلیئر پاکستان کو دھمکی دی تھی کہ اگر آپ نے ہمارا ساتھ نہ دیا تو ہم آپ کو پتھر کے زمانے میں پہنچا دیں گے۔ بعد میں اس نے اگرچہ اس کی تردید کر دی تھی لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ امریکہ کو اپنی جوہری اور میزائلی قوت کا کس قدر زعم ہے۔ جنرل ڈگلس میکارتھر جیسے بزعمِ خویش یگانہ و یکتا امریکی جرنیل نے کورین وار (1950-53ء) میں اپنے صدر کو بار بار دعوت دی تھی کہ کوریا کو ’نیوک‘ (Nuke) کر دیا جائے۔

یہ اس دور کی بات ہے جب امریکہ دنیا کی واحد سپرپاور نہیں رہا تھا اور 1949ء میں سوویت یونین نے بھی اپنا پہلا جوہری دھماکہ کر دیا تھا۔ کوریا کی سرحدیں چین اور روس دونوں سے ملتی تھیں اور میکارتھر کو معلوم تھا کہ روس، شمالی کوریا کا اتحادی ہے۔ لیکن پھر بھی روس کا ممکنہ جوابی جوہری وار اس کی کھوپڑی میں نہ سمایا۔ وہ تو امریکی قوم کی خوش قسمتی تھی کہ اس وقت کے صدر امریکہ نے اپنے اس سپریم کمانڈر کی بات نہ مانی اور شمالی کوریا (اور چین) پر ایٹم بم نہ پھینکا بلکہ اپنے جرنیل کو سیک کردیا۔ میکارتھر کی برطرفی پر آج بھی عسکری مورخین کی کتابیں مارکیٹ میں آ رہی ہیں۔


میری نظر میں جتنا چھچھورا پن موجودہ صدر امریکہ دکھا رہا ہے، اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ یا تو موصوف کو بین الاقوامی پارلیمانی زبان و بیان پر کوئی قدرت حاصل نہیں یا وہ طاقت کے نشے میں اتنے اندھے ہو چکے ہیں کہ آئینۂ عالم میں ان کو صرف اپنا چہرہ ہی نظر آتا ہے۔ افغانستان کے مسئلے کے حل پر ان کی وہ اشتعال انگیز تقریر جو چند روز پیشتر انہوں نے اپنے سینکڑوں فوجیوں کو سامنے بٹھا کر کی تھی وہ ان کی متلّون مزاجی کا شاہکار تسلیم کی جا رہی ہے۔

لیکن اپنی صدارتی مہم کے دوران ٹرمپ نے بڑے بڑے بین الاقوامی معاملات و موضوعات پر جو جو بیانات داغے تھے، 20جنوری 2017ء کے بعد جب عنانِ اقتدار سنبھالی تو ان بیانات کے عین 180ڈگری مخالف عمل کیا۔ بھارت کو اس خطے کا سپرمین قرار دیا گیا اور پاکستان کی قربانیوں کو فراموش کرکے جس طرح پاکستان پر تنقید کی گئی بلکہ اسے تضحیک کا نشانہ بنایا گیا وہ خود بھارتیوں کے لئے بھی ناقابلِ یقین تھا۔ یہی باتیں ٹرمپ سے پہلے بھی کئی امریکی زعماء اور جرنیل وغیرہ بھی کہہ چکے تھے لیکن ٹرمپ کی فاش گوئی حیران کن تھی۔


اب ٹرمپ نے اگلے روز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جو پہلی تقریر ارشاد فرمائی ہے وہ ان کی برہنہ گوئی اور عاقبت نااندیشی پر برہانِ قاطع کی حیثیت رکھتی ہے۔ دو موضوعات پر انہوں نے جس منہ پھٹ (Blunt) انداز میں اظہارِ خیال فرمایا وہ حیران کن ہے اور دنیا کا دانش ور طبقہ پریشان ہے کہ امریکیوں نے ہلیری کلنٹن جیسی منجھی ہوئی سیاسی لیڈر کو 2016ء کے الیکشن میں کیوں نکالا اور ٹرمپ جیسے ناآزمودہ اجنبی سیاستدان کو دنیا کی اس واحد قوت کا سربراہ کیوں بنایا؟۔۔۔ جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے ٹرمپ کا کہنا تھا: ’’شمالی کوریا کا ’’راکٹ مین‘‘ (صدر) اپنی اور اپنے ملک کی خودکشی کی راہ پر چل رہا ہے اور میں وارننگ دے رہا ہوں کہ ہم شمالی کوریا کو صفحہ ء ہستی سے نیست و نابود کر دیں گے‘‘۔۔۔۔ دوسری دھمکی آمیز بات انہوں نے ایران کے بارے میں کہی اور فرمایا کہ:’’ ایران کے ساتھ اوباما نے جو جوہری معاہدہ کیا تھا وہ امریکی تاریخ میں بدترین معاہدہ تھا‘‘۔


ہم پہلے شمالی کوریا کی بات کریں گے۔۔۔ شمالی کوریا کو صفحہ ء ہستی سے معدوم کرنے کی ایس او پی (SOP) اگر ٹرمپ سے پوچھی جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ شمالی کوریا پر جوہری حملہ کر دیا جائے گا۔۔۔ اللہ اللہ خیر سلا!۔۔۔ کوئی ان سے پوچھے امریکہ نے ویت نام میں اپنے 58000امریکی فوجیوں کو ہلاک کروایا اور تین لاکھ کو اپاہج بنایا تو اس وقت ویت نام کو صفحہ ء ہستی سے کیوں نہ مٹایا؟۔۔۔ پاکستان کے ہمسائے میں 17 برس سے افغانستان کی جنگ میں ہزاروں امریکی ہلاک اور زخمی ہوئے تو افغانستان پر چھوٹے سائز کے بیٹل فیلڈ جوہری ہتھیاروں سے حملہ کیوں نہ کیا؟۔۔۔ کیا اب شمالی کوریا کو اس لئے ڈرایا جا رہا ہے کہ خود امریکی مین لینڈ (Main Land) شمالی کورین بین الاقوامی بلاسٹک میزائلوں کی زد میں آ چکی ہے یا کیا گوام کا سٹرٹیجک اہمیت کا وہ جزیرہ راکٹ مین کی زد پر ہے جس میں ہزاروں امریکی گراؤنڈ اور میرین ٹروپس 1945ء سے لے کر آج تک سٹیشن رکھے گئے ہیں؟۔۔۔یا کیا وہاں امریکی جوہری وار ہیڈز ذخیرہ ہیں،۔۔۔یاکیا جوہری آبدوزوں کی آماج گاہیں ہیں،۔۔۔ یاکیا امریکی طیارہ بردار بحری جہاز وہاں لنگر انداز رہتے ہیں؟۔۔۔


کیا امریکہ کو معلوم نہیں کہ شمالی کوریا پر جوہری حملہ نہیں کیا جا سکتا۔ (اور اگر یہ حملہ نہیں کیا جا سکتا تو اسے صفحۂ ہستی سے کیسے مٹایا جا سکتا ہے؟ کیا غیر جوہری اور روایتی حملے کی کوئی آپشن قابلِ عمل ہے؟)۔۔۔


سب سے پہلے تو یہ دیکھیں کہ اگر آج پیانگ یانگ(شمالی کوریا) کو نیوک کیا جاتا ہے تو اس سے جو تین ممالک براہِ راست شدید متاثر ہوں گے،ان میں چین،روس اور جنوبی کوریا شامل ہیں۔اگر کسی بھی قسم اور کسی بھی شدت کا کوئی جوہری حملہ شمالی کوریا پر کیا جاتا ہے تو سب سے زیادہ مشرقی چین کی آبادیوں کا ایک بڑا حصہ ہوگا جو اس حملے کی تابکاری سے متاثر ہو گا۔کیا چین ایسے میں شمالی کوریا پر جوہری وار ہیڈز کی بارش دیکھ کر چپکا بیٹھا رہے گا؟کیا اس کے پاس اپنے آئی سی بی ایم ز(ICBMs) اور جوہری بموں کا کوئی ذخیرہ نہیں؟ کیا شمالی کوریا ،گوام اور لاس اینجلز بلکہ وسطی امریکہ تک کو نشانہ نہیں بنائے گا؟ گوام سے پیانگ یانگ کا فاصلہ صرف 2100 کلو میٹر ہے تو کیا راکٹ مین گوام کو اڑا کر نہیں رکھ دے گا؟


اور جہاں تک روس کا تعلق ہے وہ بھی تو شمالی کوریا سے زیادہ دور نہیں۔اس کی مشرقی سرحدیں بھی تو محفوظ نہیں رہیں گی اور سب سے بڑی بات یہ ہو گی کہ روس کی وہ واحد بندرگا (ولاڈی واسٹک) جو سارا سال کھلی رہتی ہے اور روس کے طیارہ بردار اور جوہری آبدوزیں وہاں آتی جاتی رہتی ہیں اور وہ بندرگاہ پیانگ یانگ سے صرف دو ہزار کلو میٹر دور ہے تو کیا اس پر جوہری تابکاری کے کوئی اثرات مرتب نہیں ہوں گے؟۔۔۔


اور تیسرا ملک جو اس خطے میں جاپان کے بعد سب سے بڑا امریکی اتحادی ہے وہ جنوبی کوریا ہے۔اگر شمالی کوریا جنوبی کوریا پر جوابی وار کر دیتا ہے تو وہاں مقیم ہزاروں امریکی ٹروپس اور لاکھوں جنوبی کورین شہریوں کا کیا بنے گا؟ جنوبی کوریا کا صدر (مسٹر مون) پہلے ہی امریکہ سے احتجاج کر چکا ہے کہ اس کی سرزمین سے تھاڈ (THAAD) میزائل شکن سسٹم اٹھا لیا جائے کیونکہ پیانگ یانگ (شمالی کوریا) نے بارہا سیول(جنوبی کوریا) کو دھمکی دی ہے کہ اگر تھاڈ سسٹم کو ہمارے خلاف لانچ کرنے کی جرأت کی گئی تو ہمارا سب سے پہلا ہدف جنوبی کوریا کی سرزمین ہو گی۔


جاپان کو اگست 1945ء کا پہلا عشرہ بھی نہیں بھول سکتا۔ کیا وہ دوسری بار اپنے اتحادی امریکہ کے حملے سے متاثرنہیں ہوگا؟ امریکہ صرف شمالی کوریا ہی کو نہیں، جاپان کو بھی بارِدگر نیوک کرنے کا مرتکب ہوگا!


امریکہ یہ بھی چاہتا ہے کہ ساؤتھ چائنا سمندر کو چینی اثر سے آزاد کر کے وہاں روبہ زوال امریکی اثرو رسوخ کو بحال کیا جائے کیونکہ اسی سمندر کے قرب وجوار میں گوام سمیت ایسے جزیرے اور بھی ہیں جن پر امریکی قبضہ ہے اور جن پر امریکہ کی تینوں چاروں مسلح افواج کے ہزاروں ٹروپس دن رات ڈیوٹی پر ہوتے ہیں۔ان کے علاوہ فلپائن ہے جس کی اہمیت کسی تعارف کی محتاج نہیں اور وہاں کے حکمران پہلے ہی امریکی دھونس سے تنگ آ کر بغاوت پر آمادہ ہیں۔


یہ تمام صورت حال جس کا تذکرہ سطور بالا میں کیا گیا ہے،امریکی جرنیلوں کو خوب معلوم ہے اس لئے ان کو پتہ ہوگا کہ ان کے صدر ٹرمپ نے شمالی کورین صدر مسٹر کِم جوکو دھمکی دی ہے وہ قابلِ عمل نہیں۔


اور جہاں تک ایران کا تعلق ہے تو ایران پہلے ہی کئی بار اعلان کر چکا ہے کہ اس خطے میں اس کا سب سے بڑا دشمن اسرائیل ہے۔اگر امریکہ ایران پر حملہ کرتا ہے یا کوئی اور چھیڑ چھاڑ کرتا ہے تو تہران، تل ابیب کوسب سے پہلے نشانہ بنائے۔شاید اسی لئے تین روز پہلے امریکہ نے اسرائیل کی سرزمین پر اپنا پہلا عسکری مستقر (Milirary Base) قائم کر دیا ہے۔ یہ ملٹری بیس دو سال پہلے تعمیر ہونا شروع ہوئی تھی اور اب اس کا باقاعدہ افتتاح کر دیا گیا ہے۔

یہ افتتاح 18 ستمبر2017ء کو ہوا ہے۔ یہ بیس جنوبی اسرائیل میں بیر شیبا (Beer Sheba) کے مقام پر قائم کی جا رہی ہے جس پر امریکی اور اسرائیلی ائر ڈیفنس فورسز صف بند رکھی جائیں گی۔اس بیس پر امریکی جھنڈا لہرایا گیا اور اسے باقاعدہ امریکی سرزمین کا سفارتی درجہ دیا گیا۔یہاں سے ایران سے فائر ہونے والے میزائلوں اور راکٹوں کو ٹریک اور انٹرسیپٹ کیا جا سکے گا۔ دراصل اس موضوع پر ایک الگ کالم لکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ اسرائیل میں پہلی بار یہ مستقل امریکی بیس قائم کی جا رہی ہے اور اس کے نتائج خطے کی جیو سٹرٹیجک صورت حال پر پڑنے لازم ہیں جس میں پاکستان بھی شامل ہے۔

مزید :

کالم -