اے پیارے وطن!اللہ تیری حفاظت فرمائے!

اے پیارے وطن!اللہ تیری حفاظت فرمائے!
اے پیارے وطن!اللہ تیری حفاظت فرمائے!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ملت اسلامیہ پاکستان کے لئے 14؍اگست کا پُرمسرت دن یوم آزادی ہے۔ آج سے سڑسٹھ سال قبل 14؍اگست 1947ء کو پاکستان وجود میں آیا تھا۔ حسن اتفاق، بلکہ حکمت خداوندی ہے کہ یہ رمضان کا مبارک مہینہ تھا اور 14؍اگست، 27؍رمضان المبارک کو بنتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی بے پایاں رحمت سے تمام مخالفتوں اور نامساعد حالات کے باوجود اس پاک سرزمین کوآزادی کی نعمت سے سرفراز کیا، وہ بھی لیلۃ القدر میں۔ سبحان اللہ! الحمد للہ! ہندو اکثریت میں تھے اور وہ ہرگز نہیں چاہتے تھے کہ مسلمانوں کا ایک آزاد خطہ وجود میں آجائے۔ سکھ اقلیت میں ہونے کے باوجود مسلمانوں کے خون کے درپے تھے۔ بدیشی حکمران، برطانوی استعمار نے برصغیر کی حکومت مسلمانوں ہی سے چھینی تھی، اس لحاظ سے وہ اپنا سیاسی حریف مسلمانوں کو سمجھتے تھے۔ 1857ء کی جنگ آزادی غیرملکی استعمار کے خلاف مسلمانوں ہی نے لڑی تھی۔ انگریزوں نے اسے غدر کا نام دیا۔ بے شمار مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا۔ علمائے کرام کا انگریزوں کے خلاف اس جدوجہد میں کلیدی کردار رہا۔ کالے پانی کی سزائیں اور پھانسیاں علمائے حق کے مقدر میں آئیں۔
ان سارے تاریخی واقعات نے مسلمانوں کو یہ شعور بخشا کہ انہیں اپنی کھوئی ہوئی عزت بحال کرنے کے لئے جدوجہد کرنا ہوگی۔ اس دوران ہندو اکثریت نے بھی سیاسی میدان میں آل انڈیا کانگریس پارٹی کے تحت آزادی کے لئے سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا۔ ہندو اکھنڈ بھارت کے حامی تھے اور گاندھی جیسا بظاہر عدم تشدد کا پرچارک ہندو لیڈر بھی انڈیا کی تقسیم کو گاؤ ماتا کے ٹکڑے کرنے کے مترادف قرار دیتا تھا اور ساتھ یہ بھی کہتا تھا کہ پاکستان میری لاش پر ہی بن سکتا ہے۔ ولبھ بھائی پٹیل انتہائی متعصب اور انتہاپسند اسلام دشمن ہندولیڈر تھا۔ اس نے بھی بہت سے زہریلے بیانات دیئے جو ریکارڈ پر موجود ہیں۔ انتہا پسند ہندو تنظیمیں بھی سرگرم عمل تھیں جو آج بھی زہر اگلتی رہتی ہیں۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ آغاز میں کانگریس کی جدوجہد کو مخلصانہ سمجھ کر اس میں شامل ہوئے، مگر بہت جلد انہیں معلوم ہوگیا کہ ہندو عصبیت زوروں پر ہے اور وہ مسلمانوں کے وجود کو تسلیم کرنے کے لئے بھی تیار نہیں۔ زیرک اور سمجھ دار محمد علی جناحؒ کانگریس کو چھوڑ کر مسلم لیگ کی طرف آئے، جس میں قیادت کا بہت بڑا خلا تھا۔ قائداعظم نے اس خلا کو بخوبی پر کیا۔
قائداعظمؒ کی سربراہی میں مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے یہ نعرہ لگا : ’’مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ‘‘۔ اسی طرح یہ نعرہ بھی آج تک سیکولر طبقات کے مخالفانہ پراپیگنڈے کے باوجود ذہنوں میں پیوست ہے: ’’پاکستان کا مطلب کیا؟ لاالہ الااللہ۔‘‘ ۔۔۔گویا حصول پاکستان کی یہ ساری جدوجہد ایک دینی جذبے کے تحت اسلامی ریاست کے حصول کے لئے تھی۔ اس موقع پر تاریخی طور پر اس حقیقت کو تسلیم کرلینا چاہیے کہ پاکستان کی بنیاد دوقومی نظریہ تھا، جسے کسی ابہام کے بغیر قائداعظمؒ نے اپنی تحریروں اور خطابات میں بارہا واضح کیا۔ اسی دو قومی نظریے کو دلائل وبراہین کے ساتھ مفکر اسلام سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اپنی کتاب ’’مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش‘‘ کے حصہ اول میں کھول کر واضح کیا۔ اس دور میں ان مضامین کو مسلم لیگ کا پبلسٹی ونگ کتابچوں کی صورت میں چھاپ چھاپ کر ملک بھر میں پھیلاتا رہا۔
قیام پاکستان کے بعد مولانا مودودی کی کوششوں سے مطالبۂ اسلامی دستور کی تحریک چلی اور الحمدللہ قرارداد مقاصد منظور ہوئی جو اب اللہ کے فضل سے دستور کا نافذ العمل حصہ ہے۔ پاکستان اللہ کا عظیم عطیہ ہے،اس کا قیام تائید خداوندی کے بعد قائداعظم کی جرأت مند اور دیانت دار قیادت اور مسلم عوام کی بھرپور تائید کا مرہون منت ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے شاعر مشرق حضرت علامہ محمد اقبالؒ اور بانئ پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ سے عقیدت کا زبانی اظہار تو بہت کیا ہے،مگر ان کی فکر کے مطابق کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ سڑسٹھ سال گزر جانے کے بعد ہم آج بھی اپنی سالمیت کے بارے میں خطرات سے دوچار ہیں، حالانکہ ہم واحد ایٹمی مسلمان ملک ہیں۔ سیاسی ماحول اس مرتبہ یوم آزادی سے پہلے ہی اتنا پراگندہ ہوچکا ہے کہ ہرشخص فکرمند ہے۔ حکومت کی بے تدبیری، بزدلی اور لوٹ کھسوٹ کی وجہ سے ملک کے سیاسی،معاشی اور معاشرتی تمام میدانوں میں ابتری ہے۔ ایسے میں اپوزیشن کی ایک جماعت ،جو اسمبلیوں میں موجود ہے، ملک میں عجیب وغریب قسم کی فضا پیدا کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ ان کے ساتھ کچھ غیرسیاسی عناصر اور چند سیاسی شخصیات بھی اس کھیل کا حصہ بن گئی ہیں۔
ہمارا قومی المیہ ہے کہ یوم پاکستان پر ہمیں جس یکجہتی کا اظہار کرنا چاہیے، اس کی بجائے ایک دوسرے کا گریبان چاک کرنے اور کچل ڈالنے کی دھمکیاں دونوں جانب سے سننے کو مل رہی ہیں۔ یہ سیاسی نابالغی کی علامت ہے۔ ہم سب کو مل کر اس یوم پاکستان پر یکجہتی اور ہم آہنگی کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ قوت برداشت دونوں جانب ضروری ہے۔ جماعت اسلامی بطور ایک سیاسی جماعت اس بات کی خواہش مند اور اس کے لئے کوشاں ہے کہ تصادم کی بجائے افہام وتفہیم کا راستہ اختیار کیا جائے۔ جہاں کوئی غیرقانونی اور غیر دستوری کام ہوا ہے، اس کا ازالہ کیا جائے۔ ایک جانب یہ رویہ کہ ’’نہ کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے‘‘ اور دوسری جانب کھیل کے میدان پر قبضہ اور اجارہ داری جہاندیدہ سیاست دانوں کو زیب نہیں دیتا۔ ہم نے ہمیشہ اعتدال کی راہ اختیار کی ہے ،جس کے نتیجے میں ہردور میں متحارب گروپ ہماری کاوشوں اور اللہ کے فضل وکرم سے ایک میز پر بیٹھے ہیں اور ایک دوسرے کی بات سننے پر آمادہ ہوئے ہیں۔
یوم پاکستان کے اس موقع پر ہم پوری قوم سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ملک کی سالمیت کے لئے اللہ سے دعائیں بھی کرے اور عوام اور سیاسی کارکنان اپنے اپنے سیاسی دھڑوں کو انتہا پسندی سے باز رہنے کی تلقین کریں۔ یہ ملک اللہ کی نعمت اور اس کا عطیہ ہے اور اس کے بارے میں ہم سے باز پرس کی جائے گی۔ اے وطن عزیز اللہ تجھے سلامت رکھے، اندرونی وبیرونی ہرخطرے سے تیری حفاظت فرمائے اور تجھے پھلتا پھولتا رکھے۔ آمین۔ اسلام زندہ باد، پاکستان پائندہ باد!
رہے ہیں اور ہیں فرعون میری گھات میں اب تک
مگر کیا غم کہ میری آستیں میں ہے یدِبیضا!

مزید :

کالم -