نظریۂ پاکستان ہی بقائے پاکستان ہے

نظریۂ پاکستان ہی بقائے پاکستان ہے
نظریۂ پاکستان ہی بقائے پاکستان ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

بات اتنی بھی مشکل نہیں کہ سمجھ نہ آ سکے، ویسے اس حوالے سے کوئی خاص پردہ رکھا بھی نہیں جا رہا۔ ایک منظم منصوبے کے تحت آئین پاکستان کی اسلامی شقوں کو غیر مؤثر بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والے پاکستان کے عوام ووٹ چاہے کسی کو بھی دیں آئین کی اسلامی دفعات کے دفاع کو مشترکہ ذمہ داری تصور کرتے ہیں۔ یہ سازش ہے ہی اتنی بڑی کہ دائیں بازو کے نام پر سیاست کرنے والی بڑی بڑی جماعتوں کے اہم ترین رہنما خود کو سیکولر ثابت کرنے کے لئے باقاعدہ جتن کررہے ہیں۔ سیکولر کا لفظ مناسب نہ لگے تو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ان میں سے اکثر خود کو لبرل اور روشن خیال ثابت کرنا چاہتے ہیں ،آخر ان ’’نیک بختوں‘‘ نے امریکہ کو بھی تو جواب دینا ہے۔ اس تمام صورت حال پر جہاں معاملے کی نزاکت سمجھنے والے محب وطن اور اسلام پسند حلقے پریشانی کا شکار ہیں وہیں دینی تنظیموں میں بھی فکر مندی پیدا ہو گئی ہے جو ہر گزرتے دن کے ساتھ تشویش کی صورت اختیار کررہی ہے۔ ایسا نہیں کہ پاکستان میں لادینیت کے نفاذ پر جتی (مُصر) اس طاقتور لابی کا مقابلہ کرنے کے لئے دینی قوتیں موجود نہیں، اصل مسئلہ لیکن یہ ہے کہ اس حوالے سے جس طرح کام کیا جانا چاہئے ویسے ہو نہیں رہا۔


بائیں بازو کے وہ گروہ جو کبھی روس اور بھارت کے وظیفہ خوار ہوا کرتے تھے اب بھارت کے ساتھامریکہ کے بھی نمک خوار ہیں ۔ 11 اگست 1947 ء کو قائداعظم سے منسوب ایک بیان ان کی وفات کے کئی برسوں بعد ایجاد کر لیا گیا کہ ریاست کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہو گا۔ اِسی لابی نے اس غیر مصدقہ بیان کی آڑ لے کر وہ طوفان کھڑاکیا کہ جھوٹ کی دھول میں سچائی کی تلاش مشکل ہو گئی۔ یہی لابی اب ایک اور قائداعظم سے منسوب بیان گھڑ لائی ہے جو مبینہ طور پر انہوں نے پاکستان آنے سے قبل دہلی میں دیا تھا۔ ثبوت اس کا بھی، مگر کوئی نہیں۔


پاکستان کو ’’روشن خیال‘‘ بنانے کا کھیل باقاعدہ طور پر جنرل مشرف نے شروع کیا۔ انہیں اس حوالے سےہدایات اور تجاویز امریکہ کے سابق وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے جاری کی تھیں۔ امریکی پالیسیوں کے باعث جب مسلم دنیا کے جوان پرتشدد پالیسیوں پر اتر آئے اور جہاد کا نعرہ مقبول ہونے لگا تو امریکہ نے طے کیا کہ اسلام کی تعریف وہ خود ہی طے کریگا۔ اپنے تھنک ٹینک رینڈ کارپوریشن سے سفارشات تیار کراکے باجگزار مسلم ممالک کو نفاذ کا حکم دیا گیا۔ اس حوالے سے سب سے اہم رول میڈیا نے ادا کرنا تھا سو نجی ٹی وی چینلز کے اجرا اور پھیلاؤ کی حکمت عملی اختیار کی گئی۔ میڈیا کے لئے غیر ملکی فنڈنگ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ ایسے میں دین سے بیزار ’’بوتل گروپ ‘‘کی تو گویا چاندی ہو گئی۔ پاکستان کی نظریاتی اساس، اخلاقیات اور سماجیت پر حملے شروع ہوئے تو جواب دیتے وقت بے حد کمزوری کا مظاہرہ کیا گیا۔قائداعظم سے منسوب بیانات تو اپنی جگہ ایک موقع پر باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت حکم الامت علامہ محمد اقبال ؒ کی شخصیت کو بھی متنازعہ بنانے کی کوشش کی گئی ۔ ایسی کوششیں اب بھی جاری ہیں۔ اس امر سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس سلسلے میں سب سے بڑا ہتھیار بہر طور میڈیا ہی ہے۔ دیکھنا مگر یہ ہے کہ اس یلغار کو روکنے کے لئے سٹیک ہولڈرز کیا کررہے ہیں؟ ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا کہ جب میڈیا پر لکھتے اور بولتے وقت سب سے زیادہ جو چیز ملحوظ خاطر رکھی جاتی تھی وہ احتیاط ہی تھی۔ آج یہ عالم ہے کہ ٹی وی چینلوں پر بیٹھ کر جس کے منہ میں جو آئے بول دے ،تحریر کرتے ہوئے، جس کا جی چاہے لکھ مارے۔ ایک طرف غیر ذمہ دار میڈیا بے لگام عفریت کی شکل اختیار کر گیا ہے تو دوسری جانب یہ بھی نوٹ کیا جا رہا ہے کہ مزاحمت کرنے والی قوتیں کمزور ردعمل دے کر وقت گزارنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ اکثر میڈیا ہاؤسز عالمی اور مقامی مخصوص ایجنڈے کے تحت کام کر رہے ہیں، تو پھر یہ بھی تسلیم کرنا ہو گا کہ معاشرے کو اسکے منفی اثرات سے بچانے کے لئے ٹھوس جوابی منصوبہ بندی کرنا ہو گی۔ اگر ریاستی ادارے اس حوالے سے کمزور ہیں یا مصلحتاً صرف نظر کررہے ہیں تو پھر بھی کسی نہ کسی کو آواز اٹھانا ہو گی۔ جنرل مشرف کے دور میں زور پکڑنے والی اس مہم کے دوران قوم نے کیا کچھ نہیں دیکھا۔

میڈیا پر عریانی اور فحاشی کو ایسے فروغ دیا جارہا ہے جیسے یہ کوئی لازمی ڈیوٹی ہو، مگر کوئی نہیں بولا، ایک بڑے قومی اخبار میں شراب کے رسیا نے مُلک بھر میں شراب خانے کھولنے کے فوائد پر درجنوں کالم لکھ مارے، مگر چند ایک کے سوا کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ اِسی کالم نویس نے بدکاری کے ساتھ ساتھ بدفعلی کی بھی کھلے بندوں اجازت دینے کے مطالبات کر دیئے۔حیرانی مگر یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ٹھوس جواب دینا تو درکنار کسی نے چوں تک بھی نہ کی۔ ایک اور ایسا ہی نمونہ جو نام نہاد تجزیہ کار بھی ہے لائیو شو کے دوران رنگدار مائع کی چسکیاں لیتا رہا۔ موصوف بادہ نوشی کے حوالے سے اس مقام پر ہیں کہ سادہ پانی بھی پیتے ہوئے پائے جائیں تو حسن ظن رکھنا مشکل ہوتا ہے کہ آیا یہ واقعی پانی ہے؟میڈیا پر دیکھنے اور پڑھنے کے حوالے سے جب ایسا مواد بلاروک ٹوک دستیاب ہو گا، تو معاشرہ کو مجموعی طور پر بے راہ روی سے روکنے کی محض خواہش ہی کی جا سکتی ہے۔


ایک وقت تھا کہ اسلام اور نظریۂ پاکستان تو درکنار کسی غیر اخلاقی جملے یا تحریر پر بھی محب وطن حلقے حرکت میں آ جاتے تھے۔ مہذب طریقے سے شکایات پہنچائی جاتی تھیں تو ادارے نہ صرف تردید، بلکہ معذرت کرنے پر مجبور ہو جاتے تھے۔ افسوس میڈیا سے ہر صورت اچھے تعلقات بنائے رکھنے کے تصور نے ان حلقوں اور دینی جماعتوں کو ہلکی سی شکایت لگانے سے بھی روک دیا۔ ویسے یہ تاثر بھی عام ہے کہ اکثر میڈیا ہاؤسز کا پالیسی کنٹرول ایسے ہاتھوں میں ہے کہ جن کی مخالفت مول لینا کسی طور آسان نہیں ہے۔ چپ بھی تو مگر نہیں رہا جا سکتا کہ آنے والے دن اس حوالے سے مزید خرابی کا سبب بن سکتے ہیں۔ ذرا غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ پاکستان کی مین سٹریم جماعتیں خود کو دین سے دور ثابت کرنے کی شعوری کوشش کررہی ہیں۔ حکمران مسلم لیگ (ن) نے تو عرصہ ہوا اپنا دائیں بازو لپیٹ کر ہی رکھ دیا ہے۔ پارٹی چلانے والے اب صرف بائیں بازو والے ہی ہیں۔ ایسے میں یہ اطلاعات کہ آئندہ عام انتخابات میں کامیابی کی صورت میں وزیراعظم شہباز شریف ہو سکتے ہیں موجودہ پالیسی کو ہی کہیں زیادہ رفتار سے آگے لے کر چلنے کی پیش گوئی کے مترادف ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ شہباز شریف ترکی کے اتاترک سے بے حد متاثر ہیں( یاد رہے جنرل مشرف کا رول ماڈل بھی اتاترک ہی تھے) یہ الگ بات ہے کہ اس اتاترک کی پالیسیوں نے عظیم سلطنت ترکی کو یورپ کا ’’مرد بیمار‘‘ بنا ڈالا تھا۔ ملک کی دوسری بڑی جماعت تحریک انصاف کہ جس کے سربراہ عمران خان پر کبھی کبھار طالبان خان ہونے کی ’’تہمت‘‘ لگائی جاتی ہے وہ مسلم لیگ (ن) سے بھی کہیں بڑھ کر ’’روشن خیال‘‘ ہے۔ عمران خان کے آس پاس ایسے لوگوں کی بھرمار ہے ۔رہ گئی پاکستان پیپلز پارٹی تو محترمہ بینظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے ادوار میں دینی جماعتوں سے کچھ نہ کچھ تعلق ضرور رہا، مگر اب بلاول، بختاور اور آصفہ پر مشتمل نئی پارٹی قیادت کیا پالیسی اختیار کرے گی جاننے کے لئے ذہن پر زیادہ بوجھ ڈالنے کی ضرورت نہیں۔


فوجی عدالتوں کو جائز قرار دینے سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے نے زبردست کنفیوژن پیدا کر دی ہے۔ تفصیلی فیصلے میں آئین کی بنیادوں کا ذکر کرتے ہوئے اسلام کا حوالہ تک نہیں دیا گیا۔ ان حالات میں اگر کوئی ایسا منصوبہ بن گیا کہ اقتدار اِسی کو سونپا جائے گا جو خود کو دوسروں سے کہیں بڑھ کر ’’لبرل‘‘ ثابت کرے گا تو باقاعدہ ریس شروع ہو سکتی ہے۔ بہت سے حلقوں کو خدشات ہیں کہ پاکستان کا اسلامی نظریاتی تشخص ختم کرنے کے لئے منصوبے پر باقاعدہ عمل درآمد شروع کر دیا گیا ہے۔ شاید اسی خوشی میں بدمست ہو کر ’’بوتل گروپ‘‘ والے جگہ جگہ چہکتے پھررہے ہیں۔ وہ ایسا کرنے میں حق بجانب بھی ہیں، کیونکہ انکا سرپرست اب کوئی ایک آدھ نہیں، بلکہ کئی ایک ہیں اس کے باوجود سب کو یاد رکھنا چاہئے کہ اسلام کے نام پر بننے والے ملک سے دین کو دیس نکالا نہیں دیا جا سکتا۔ پاکستانی مسلمان اپنی روایات اور اقدار کا خود تحفظ کرنا اچھی طرح جانتے ہیں۔ شر سے خیر برآمد ہو گا ، اس تمام دھینگا مشتی کے بعد خاک لا دین عناصر اور مذہب بیزار عناصر کو ہی چاٹنا ہو گی۔ پاکستانی عوام کی دینی حمیت اور شعور کا غلط اندازہ لگانے سے باز ہی رہنا بہتر ہو گا۔ آئین پاکستان اپنی اسلامی دفعات اور قرارداد مقاصد سمیت نہ صرف برقرار رہے گا بلکہ اسلامی ریاست کا دیرینہ خواب بھی شرمندہ تعبیر ہو گا۔انشا اللہ


پس تحریر: یہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کون چلا رہا ہے؟ بڑے بڑے بھونپو مُصر ہیں کہ سول حکومت کا اس پر کوئی کنٹرول نہیں، وہ صرف احکامات کی تعمیل کرتی ہے۔ اگر واقعی ایسا ہے تو بتایا جائے کہ ہمارے ازلی دشمن بھارت نے برادر اسلامی ملک متحدہ عرب امارات کے ساتھ 75 ارب ڈالر کا معاہدہ کیسے کر لیا؟ اس فنڈ سے تیار ہونے والے دفاعی آلات آخر کس کے خلاف استعمال ہونگے۔ بھارت ایران کے ساتھ تو پہلے ہی ایک پیج پر ہے۔ آج ہماری خارجہ پالیسی کا حال یہ ہے کہ ایک ہی روز میں بھارت اور افغان سفیروں کو طلب کر کے سرحدی خلاف ورزیوں پر احتجاج کر رہے ہیں۔

مزید :

کالم -