بحرِہند میں ایک نئی ناٹو؟ (2)
مسلم دنیا نے گزشتہ تین چار سو برسوں میں غیر مسلم دنیا سے اس لئے مار کھائی کہ مسلم دفاعی سائنس دانوں نے اس طرف توجہ نہ دی۔ ہم جن علوم و فنون کے پیچھے پڑے رہے وہ اور تھے اور غیر مسلم دنیا دفاعی افکار و خیالات کی نہ صرف ترویج کرتی رہی بلکہ عسکری ایجادات اور دفاعی ٹیکنالوجی کے بل بوتے پر مسلمانوں کو غلام بنائے رکھا۔ پاکستان نے ماضی ء قریب میں الحمدللہ جوہری اور میزائلی شعبوں میں ترقی کرتے ہوئے جس بالغ نگاہی کا ثبوت دیا ہے وہ محتاجِ تشریح نہیں۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی نسلِ نو میں ان علوم و فنون اور عسکری ٹیکنالوجی کی ترویج و اشاعت میں آگے بڑھیں اور ماضی کی طرح خوابِ غفلت میں مدہوش سوئے نہ رہیں۔ ہمیں اپنی قومی زبان میں ان موضوعات کو عام کرنا چاہیے اور غیر مسلم دنیا کی چیرہ دستیوں کا اعادہ روک دینا چاہیے۔
خوش قسمتی سے بھارت ہمارا دشمن ہے۔۔۔ کسی بھی ملک ، قوم یا قبیلے کو آگے بڑھنے کے لئے ایک دشمن کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارا دشمن جتنا سفاک، ظالم اور سنگدل ہو گا، ہم اتنے ہی قوی، مضبوط اور پُرعزم بن جائیں گے۔ یا یوں کہیے کہ ہمیں بننا پڑے گا۔ اگر ایسا نہیں کریں گے تو صفحہء ہستی سے مٹ جائیں گے۔ پاکستان نے بھارت کو نیچا دکھانا ہے اور اسے ہر میدان میں پیچھے چھوڑنا ہے۔ کرکٹ میچ میں جس جذبے نے ہمیں بھارت پر فتح دلائی ہے اسی جذبے سے ہم نے اسے دوسرے میدانوں میں شکست سے دوچار کرنا ہے۔۔۔ اور ان میدانوں میں دفاع کا میدان سب سے اہم ہے!
ہمیں اس نکتے پر بھی غور کرنا چاہیے کہ بھارت کو بھی ہمارے سٹرٹیجک دشمنوں نے ایک ایسا دشمن دکھا دیا ہے جو ان کا اپنا سٹرٹیجک دشمن ہے۔ میری مراد چین سے ہے۔ بھارت یہ نہیں سوچتا کہ اس پر ایک ہزار سال سے زیادہ برسوں تک کس نے قبضہ کئے رکھا؟ کیا وہ چین کا بدھ مت تھا؟۔۔۔ نہیں وہ اسلام تھا۔ اور اسلام کے بعد برطانیہ تھا جو عیسائی تھا۔ آج ان عیسائی اور مسلم ملکوں کو پسِ پشت ڈال کر امریکہ اور برطانیہ اور اس کے دیگر حواریوں نے چین کو انڈیاکے سامنے لاکھڑا کیا ہے اور انڈیا کو باور کروایا جا رہا ہے کہ چین ہی اس کا بڑا دشمن ہے۔ اہلِ مغرب نے اہلِ ہند کو یہ سبق بھی پڑھا دیا ہے کہ بحرہند، ہندیوں کا ہے۔ آج بہت سے ہندو، بحرہند کو اپنا تالاب گردانتے ہیں اور یہ نہیں جانتے کہ انہی پانیوں پر سوار ہو کر یورپی اقوام سواحلِ ہند پر اتری تھیں اور صدہا سال تک اہلِ ہند کو غلام بنائے رکھا تھا۔ اگست 1947ء میں انڈیا کس قوم کی غلامی سے آزاد ہوا تھا؟۔۔۔ یہ عیار اور مکار مغربی اقوام انڈیا کو چین کا ہوّا دکھا کر اہلِ ہند کو بے وقوف بنا رہی ہیں۔ ماضیء قریب میں جب چین نے بحیرۂ چین سے نکل کر باہر کی دنیا کا رخ کیا تھا تو اس کے لئے آسان ترین بحری راستہ انڈین اوشن (Indian Ocean) تھا۔ لیکن جب اہل مغرب نے دیکھا کہ مشرق میں ایک نئی طاقت سر اٹھا رہی ہے اور ان کا ایک نیا دشمن ابھر رہا ہے تو اس کو روکنے کے لئے انہوں نے پہلی دفاعی لائن تشکیل دی اور اس میں بحرہند کے ساحلی ممالک کو شامل کیا تاکہ وہ چین کو بحرہند ہی میں روکیں اور اس کو دوسرے بحور (Oceans) کی طرف نہ آنے دیں۔
1995ء میں بھارتی وزیراعظم نے امریکہ کا دورہ کیا تھا۔ اس وقت بھارت میں نرسہماراؤ وزیراعظم اور امریکہ میں بل کلنٹن صدر تھے۔ واشنگٹن میں خفیہ اور بند کمروں میں امریکی صدر نے بھارتی وزیراعظم کو بریفنگ دی اور کہا کہ چین کو روکو، اس کے بحری جہاز (بالائے آب اور زیرآب دونوں طرح کے) تمہارے تالاب (بحرہند) میں آ رہے ہیں اور تم کو ان سے خطرہ ہے۔ پھر کلنٹن صاحب نے نرسہماراؤ کو یہ پٹی بھی پڑھائی کہ چین کو روکنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اپنے بے آباد ’’کالے پانیوں‘‘ پر ایک فوجی مستقر قائم کرو، جس کے قیام اور جس کو مسلح کرنے کا سارا عسکری سازوسامان ہم آپ کو فراہم کریں گے۔ چنانچہ انڈیا نے ’’حب الحکم‘‘ یا حسب المشورہ اپنے ان جزیروں پر ایک فارایسٹرن نیول کمانڈ قائم کی۔ یہ انڈیا کی چھٹی کمانڈ ہے (باقی پانچ کمانڈین ایسٹرن، ویسٹرن، ناردرن، سادرن اور سنٹرل کمانڈ کے نام سے جانی جاتی ہیں) اس کمانڈ کی تخصیص یہ ہے کہ اس میں انڈیا نے بری، بحری اور فضائی فورسز رکھی ہوئی ہیں۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں جزائر انڈیمان اور نکوبارکو تقسیمِ برصغیر سے پہلے ’’کالے پانی‘‘ کا نام دیا جاتا تھا۔ انگریز نے حکومت کے باغیوں اور خطرناک مجرموں کو ان دوردراز اور بے آباد جزیروں میں بھیج کر اور انہیں عبورِ دریائے شور کی سزا کا مستوجب گردان کر ان سے گلو خلاصی کروانے کا ایک نیا طریقہ ڈھونڈ لیا تھا۔ لیکن آج وہ ’’کالے پانی‘‘ تعمیر و ترقی کی بہت سی منزلیں طے کرکے ’’سنہری پانی‘‘ بن چکے ہیں۔ ان میں انڈین آرمی کے دو بریگیڈ، نیوی کے پندرہ وارشپ اور ائرفورس کے چار سکواڈرن مقیم ہیں۔ یہ تمام عسکری اثاثے بہترین اور جدید ترین سازوسامانِ جنگ سے مسلح ہیں۔ اور یہ تمام کچھ امریکہ اور مغربی ملکوں کی ’’عطا‘‘ ہیں۔ اس طرح بل کلنٹن اور ان کے جانشینوں نے اپنا وعدہ پورا کیا اور چین کو روکنے کے لئے جدید ترین الیکٹرانک سامان بھی انڈیا کو فراہم کیا جس کی مدد سے چین کی بحری ٹریفک کی نگرانی اور جاسوسی کی جاتی ہے۔۔۔ تازہ ترین خبر یہ ہے کہ امریکہ نے انڈیا میں ایف۔16 بنانے کا ایک پلانٹ منتقل کرنے کا معاہدہ کر لیا ہے جس پر باقاعدہ دونوں ممالک کے زعما نے دستخط کر دیئے ہیں۔۔۔۔
ذرا نقشے پر نگاہ ڈالیں اور انڈیمان اور نکوبار کا محلِ وقوع دیکھیں۔جس طرح آبنائے ہرمز، خلیج فارس کے دہانے سے نکلنے اور جانے والے ہر بحری جہاز کو پاکستان کی گوادر پورٹ مانیٹر کر سکتی ہے اسی طرح آبنائے ملاکا، بحرالکاہل سے بحرہند میں آنے جانے والے بحری ٹریفک کی نگرانی (اور جاسوسی) کر سکتی ہے۔ بھارت کے ان جزیروں پر نصب جاسوسی کا سارا پیرا فرنیلیا (Parapharnalia) پہلے ہی چینی بحری ٹریفک کی جاسوسی پر مامور ہے جو دن رات کی جا رہی ہے۔ ان جزائر پر موجود بری، بحری اور فضائی مستقروں (Bases) کو ڈویلپ کرنے کا کام گزشتہ اڑھائی تین عشروں سے جاری ہے۔ وہاں جو عسکری بِلڈاَپ تشکیل پا رہا ہے اس پر ایک الگ اور مبسوط مقالہ لکھا جا سکتا ہے۔ قارئین انٹرنیٹ پر جا کر اس تفصیل کو دیکھیں تو آنکھیں کھل جائیں گی!
ایک طرف انڈیا، چین سے خوفزدہ ہے حالانکہ ماضی میں(اکتوبر1962ء کے سوا) چین نے انڈیا کے خلاف کبھی جارحانہ اقدام نہیں کیا۔1962ء کا چینی حملہ بھی ایک مدافعانہ اقدام تھا جو بھارت کے جارحانہ اقدامات کا جواب تھا، تو دوسری طرف چین بحر ہند کے کھلے پانیوں میں اپنے بین الاقوامی حقوقِ جہاز رانی کا استعمال کرتے ہوئے اپنے تجارتی مفادات کی نگہہبانی کی خاطر اپنی بحریہ کو بحرہند میں استعمال کر رہا ہے۔لیکن اس کا یہ استعمال کسی بھی طور انڈیا کے خلاف نہیں۔انڈو چائنا تجارتی حجم چین کی امن پسندی کا واشگاف اظہار ہے۔ جب سے چین نے بحرہند کی راہ افریقہ اور یورپ کے ممالک میں اپنی بحری تجارت کو فروغ دینا شروع کیا ہے، امریکہ نے اس کا غلط مطلب نکالا ہے اور طرح طرح سے چین کو ڈرانے دھمکانے کی پالیسی پر گامزن ہے۔
گوادر اور سی پیک پر تو قارئین کو اب خاصی آگہی حاصل ہے۔ لیکن شائد اس بات کی خبر نہیں کہ چین نے جی بو ٹی (Djibouti) میں ایک چھوٹا سا بحری مستقر بھی قائم کر رکھا ہے۔ جی بو ٹی ایک اسلامی ملک ہے جو افریقہ کے سینگ(Horn) پر واقع ہے۔ یہ سینگ کی اصطلاح بھی تھوڑی سی تشریح مانگتی ہے۔ ہر سینگ دار جانور کے دو سینگ ہوتے ہیں جو جانور کے سر کے دائیں بائیں اُگے ہوتے ہیں اور ان دو سینگوں کے درمیان اس جانور کا دماغ ہوتا ہے۔ جی بو ٹی ایک چھوٹا سا افریقی ملک ہے جو افریقی سینگ (انتہائی شمالی علاقے) پر واقع ہے اس لئے اس کی لوکیشن اہم ہے۔ اس لوکیشن کی ایک اور اہمیت بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ بحیرۂ احمر کے جنوبی ساحل پر ایک نگہبانی چوکی کی طرح کھڑا ہے۔ یہاں سے نہر سویز تک کی نگرانی بھی کی جا سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے جی بو ٹی میں ایک مضبوط بحری مستقر قائم کر رکھا ہے جو دائیں طرف بحر ہند کے مغربی ساحل کو ’’دیکھ‘‘ رہا ہے تو شمال میں بحیرۂ احمر کے جنوبی ساحل کے کونے پر ’’نظر‘‘ ہے۔ ماضئ قریب تک یہ ملک ایک فرانسیسی کالونی تھا جسے فرانسیسیوں کو آزاد کرنا پڑا۔ یہاں کے باشندوں کی زبان فرانسیسی اور عربی ہے۔جی بو ٹی کے ہجوں (Spellings) پر غور کریں اس میں شروع کیD ایک خاموش آواز ہے اور فرانسیسی زبان کے اکثر الفاظ D کے حرف سے شروع ہوتے ہیں۔ یو ڈی کولون، ڈی کیفے اور اسی قبیل کے دوسرے الفاظ فرانسیسی الاصل ہونے کا سراغ دیتے ہیں۔ آزادی حاصل کرنے کے بعد اس مُلک نے اپنا غیر جانبدارانہ تشخص برقرار رکھا ہے۔ ملک کا نام بھی جی بو ٹی ہے اور اس کے دارالحکومت کا نام بھی جی بی ٹی ہے جو ایک قدرتی بندرگاہ ہے۔ اس کے ساتھ ہی چند کلو میٹروں کے فاصلے پر ایک اور شہر کا نام ابوک(Obock) ہے۔ یہ بھی ایک قدرتی بندرگاہ ہے لیکن جی بو ٹی سے بہت چھوٹی ہے۔ اس پر چین نے وہاں کی حکومت کی اجازت سے ایک بحری مستقر قائم کر رکھا ہے۔ بظاہر چین کی یہ نیول بیس، بحری قزاقوں کا قلع قمع کرنے کے لئے قائم ہے۔ صومالیہ کی سرحدیں جی بو ٹی سے ملتی ہیں اور آپ کو معلوم ہے کہ صومالیہ بحری ڈاکوؤں کی پرانی اور معروف جنت ہے۔ امریکہ نے بھی جی بو ٹی میں اپنی جو نیول بیس قائم کی ہوئی ہے اس کا مقصود بھی بحری قزاقی کی روک تھام بتایا ہوا ہے۔لیکن یہ مستقر اردگرد کے ممالک بالخصوص یمن اور جنوبی سعودی عرب کی جاسوسی کے لئے استعمال ہوتا ہے۔یعنی اگر اوبوک کی چینی بیس بظاہر بحری ڈاکوؤں کے خلاف قائم کی گئی ہے تو اس کا اصل کام بھی وہی ہے جو جی بو ٹی میں امریکن نیول بیس کا ہے یعنی:
تُو بھی پاکستان ہے مَیں بھی پاکستان ہوں
الغرض مستقبل قریب میں پاکستان کے ہمسائے میں ایک نئی ناٹو بننے والی ہے جس کا نام ’’آئی یو ٹو‘‘(انڈیا اوشن ٹریٹی آرگنائزیشن) ہو سکتا ہے۔ یہ نام اگر نہ بھی ہو تو یہ نئی فوجی تنظیم چار ممالک پر مشتمل ہو گی جن میں امریکہ انڈیا، آسٹریلیا اورجاپان شامل ہوں گے۔بعد میں اور ایشیائی ممالک بھی مل جائیں گے۔لیکن ان میں دو ممالک (امریکہ اور انڈیا) ایسے ہوں گے جن کے پاس جوہری بم اور طرح طرح کے میزائل وغیرہ بھی ہوں گے اور جوہری آبدوزیں اور جوہری طیارہ بردار بھی ہوں گے۔
اس آیوٹو کے مقابلے میں جو تنظیم ہو گی اسے آراٹو(ARATO) کہا جائے گا جو ’’عریبین سی ٹریٹی آرگنائزیشن‘‘ کا مخفف ہو گی۔ اس میں ابتدائی طور پر چین اور پاکستان شامل ہوں گے جو دونوں جوہری اور میزائلی قوتیں ہیں۔ جوں جوں آئی یو ٹو میں اضافہ ہو گا توں توں آراٹو میں بھی اضافہ ہو گا۔۔۔۔ ناٹو اور وارسا پیکٹ میں یہ سب کچھ پہلے ہو چکا ہے۔ بعض مبصر عرب ممالک کی ناٹو کا بھی ذکر کرتے ہیں لیکن جب تک کسی عرب ملک کے پاس ایٹم بم اور اس کا ڈلیوری سسٹم نہیں آ جاتا تب تک یہ محض خالی خولی اور بے ضرر (Toothless) تنظیم ہو گی۔ (جیسی مسلمانوں کی OIC ہے یا عربوں کی GCC وغیرہ ہیں)۔ ۔۔۔ علاوہ ازیں چونکہ بحر ہند عالمی قوتوں کا مرکز بن جائے گا اس لئے امریکہ یہاں بھی اپنی چودھراہٹ قائم کرنے کی کوشش کرے گا۔ ایک طرف کو چین، ممبئی، دوارکا، چنائی اور کول کتہ وغیرہ امریکی گریژن بن جائیں گے تو دوسری طرف گوادر، کراچی اور مارا وغیرہ کا بھی یہی حال ہو گا۔ آج اگر امریکہ نے ایف16- کا پلانٹ انڈیا میں بنانے کا معاہدہ کیا ہے تو آنے والے کل میں شائد چین اور روس کو بھی پاکستان کے ساتھ ایسا ہی معاہدہ کرنا پڑے۔ انڈیا اگر روس کے مگ طیاروں کی جگہ امریکی ایف16- بنائے اور خریدے گا تو چین اور روس کو ناچار پاکستان میں اپنے برانڈڈ طیاروں کے پلانٹ لگانے پڑیں گے جو امریکی طیاروں کا جواب ہو سکیں۔۔۔۔
بیشتر قارئین کو آج یہ منظر نامہ ناقابلِ یقین معلوم ہو رہا ہو گا لیکن تاریخ نے اپنے آپ کو دہرانا ہے۔۔۔اور ضرور دہرائے گی!