اتر پردیش پر ہندو جنونیوں کا قبضہ (2)

اتر پردیش پر ہندو جنونیوں کا قبضہ (2)
 اتر پردیش پر ہندو جنونیوں کا قبضہ (2)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

2014 ء کا الیکشن بھاری اکثریت سے جیتنے کے بعد نریندر مودی اب تمام ہندو انتہا پسند تنظیموں کو ساتھ لے کر چلتے ہوئے اکھنڈ بھارت، ہندؤتوا اور اس طرح کے تمام جنونی نظریات کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کھل کر سامنے آچکے ہیں اور اس کا ایک نتیجہ بھارت کی سب سے بڑی اور سیاسی طور پر سب سے اہم ریاست اتر پردیش میں سامنے ظاہر ہو چکا ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ نہ صرف وفاق میں بی جے پی کی ایک انتہائی مضبوط حکومت قائم ہے، جسے دونوں ایوانوں۔۔۔ لوک سبھا اور راجیہ سبھا۔۔۔ میں اکثریت حاصل ہے، بلکہ ایک ایک کر کے زیادہ تر ریاستوں میں بھی اس کی حکومت بنتی جا رہی ہے۔ بھارت میں ریاستی انتخابات چونکہ مختلف اوقات میں ہوتے ہیں، اس لئے مختلف ریاستوں کے الیکشن اپنی باری آنے پر ہوتے ہیں۔ فروری میں جن پانچ ریاستوں میں انتخابات ہوئے، ان میں سے تین اتر پردیش، اتر آکھنڈ اور گوا میں بی جے پی نے بھاری اکثریت حاصل کر کے اپنی حکومت بنا لی ہے۔ البتہ پنجاب میں بی جے پی کو ہزیمت اٹھانا پڑی۔ وہاں دس سال سے برسر اقتدار شرومنی اکالی دل اور بی جے پی اتحاد کو کانگریس نے بھاری شکست دی۔ پنجاب میں عام آدمی پارٹی نے بھی نمایاں کامیابی حاصل کی۔ جہاں تک بھارتی ریاستوں کا تعلق ہے، ان میں سے مہاراشٹر، گجرات، راجستھان، اتر پردیش، اتر آکھنڈ، ہریانہ، جھارکنڈ، مدھیہ پردیش، آسام ،گوا، اروناچل پردیش، چھتیس گڑھ اور منی پور میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومتیں ہیں اور تقریباً تمام ریاستوں میں راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ یا ہندو مہاسبھا سے تعلق رکھنے والے وزرائے اعلیٰ مقرر کئے گئے ہیں۔ اس کے مقابلے میں کانگریسی حکومتیں اب محض چند ریاستوں تک محدود رہ گئی ہیں، جن میں پنجاب، ہماچل پردیش اور کرناٹک کے علاوہ چھوٹی دور دراز ریاستوں جیسے میگھالیہ، میزورام اور پانڈی چری شامل ہیں۔ وہ ریاستیں جن میں کسی اور پارٹی کی حکومت ہے، ان میں دہلی میں عام آدمی پارٹی، آندھرا پردیش میں تیلگو دیشم پارٹی، بہار میں جنتا دل، جموں و مقبوضہ کشمیر میں محبوبہ مفتی کی پیپلز ڈیموکریٹک فرنٹ، کیرالہ اور تری پورہ کی ریاستوں میں کمیونسٹ پارٹی، ناگا لینڈ میں ناگا پیپلز فرنٹ، اڑیسہ میں بیجو جنتا دل، سکم میں سکم ڈیموکریٹک فرنٹ، تامل ناڈو میں اے ڈی ایم کے، تلنگانہ میں تلنگانہ راشٹریہ سمیتھی اور مغربی بنگال میں ترینامول کانگریس کی حکومتیں قائم ہیں۔

دیکھا جائے تو شمالی، وسطی اور مغربی ریاستوں میں زیادہ تر انتہا پسند ہندو جنونیوں کی حکومتیں قائم ہو چکی ہیں، جبکہ جنوبی اور مشرقی ریاستیں ابھی تک ان انتہا پسندوں سے قدرے محفوظ ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ وہ وقت دور نہیں جب شمالی اور جنوبی بھارت الگ ہو جائیں گے، کیونکہ انتہا پسند شمال کا اعتدال پسند جنوب کے ساتھ زیادہ عرصہ چلنا مشکل نظر آتا ہے۔ ایک پاکستانی کی حیثیت سے ہمیں دن کے چوبیس گھنٹے اور ہفتے کے ساتوں دن بھارت کے خطرناک عزائم کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس ہمہ وقتی کی کیفیت کو آج کل کے دور میں 24x7 کہا جاتا ہے۔ بھارت نے نصف صدی سے زائد عرصے سے سیکولرزم کا لبادہ اوڑھ رکھا تھا۔ ہمیں نریندر مودی کا شکر گذار ہو نا چاہئے کہ اس نے یہ لبادہ اتار پھینکا ہے اور ہندو جنونی اپنے اصل چہرے کے ساتھ سامنے آ چکا ہے۔ وہ نہ صرف پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی براہ راست موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ بلکہ افغانستان کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے پاکستان کی مغربی سرحدوں کو بھی اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کر رہا ہے، جس کے تحت وہ پاکستان میں دہشت گردی کراتا رہتا ہے۔ بھارت کی تمام ریاستوں میں اتر پردیش سیاسی طور پر اہم ترین ریاستوں میں سے ایک ہے۔اگر دیکھا جائے تو ہندو انتہا پسندی کے حوالے سے مہاراشٹر ہمیشہ اہم ریاست رہی ہے، اس کے بعد گجرات اور اتر پردیش ہیں۔ اب ان تمام ریاستوں پر ہندو جنونیوں کا قبضہ ہو چکا ہے۔ جن ریاستوں سے بھارت کی زیادہ تر لیڈر شپ آتی ہے، وہ تمام کی تمام ہندو انتہا پسندوں کے قبضے میں جا چکی ہیں۔ اتر پردیش میں پہلے بھی 1991ء میں بی جے پی کی انتہا پسند حکومت قائم ہوئی تھی، جس کے دوران اگلے سال ہی جب بابری مسجدکا سانحہ پیش آیا تو کلیان سنگھ کی جنونی حکومت کو ختم کرکے صدر راج لگا دیا گیا تھا۔ کلیان سنگھ کے پیچھے ایل کے ایڈوانی تھے،جبکہ یوگی ادتیا ناتھ کے پیچھے نریندر مودی اور راج ناتھ سنگھ۔۔۔ یہ کیا گل کھلانے جا رہے ہیں اس کا ذرا تفصیل میں جائزہ لینا پڑے گا۔ (جاری ہے)

مزید :

کالم -