سی پیک کے دشمن (آخری حصہ )
آج بھارت کی سیاست ہندو انتہا پسندوں کے قبضے میں جا چکی ہے۔ مسلمانوں اور پاکستان کی دشمن بی جے پی اور وزیر اعظم نریندر مودی کے سامنے کانگریس اب بہت معصوم اور بے ضرر لگتی ہے، حالانکہ مسئلہ کشمیر اور اس کے بطن سے جنم لینے والے تمام مسائل کانگریسی لیڈروں، جواہر لال نہرو اور سردار ولبھ بھائی پٹیل کے پیدا کردہ ہیں ۔بعد میں ایک اور کانگریسی وزیر اعظم اندرا گاندھی پاکستان کو دو لخت کرکے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے کا مرکزی کردار تھی۔ وہ کانگریس، جس کی حکومتوں نے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کیا، جونا گڑھ اور حیدرآباد دکن کو زبردستی بھارت میں ضم کیا، پاکستان پر تین جنگیں مسلط کیں اور مشرقی پاکستان پر حملہ کرکے اسے بنگلہ دیش بنوا دیا۔۔۔ آج کی بی جے پی اور اس کے متعصب لیڈروں کے آگے معصوم اور بے ضرر لگتی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ نریندر مودی کی بی جے پی پاکستان اور بھارتی مسلمانوں کے لئے کتنا بڑا عذاب ہے، جسے راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) ، تمام ہندو مہاسبھائی پارٹیوں اور شیو سینا کی نہ صرف مکمل حمایت حاصل ہے، بلکہ بھارت کی 13 ریاستوں میں ان کی انتہا پسند حکومتیں بھی قائم ہیں۔ انیس بیس کے فرق سے کانگریس اور بی جے پی میں کوئی زیادہ فرق نہیں، صرف یہ کہ کانگریس ہمیشہ سیکولرزم کا لبادہ اوڑھ کر چھپ کر وار کرتی ہے، جبکہ بی جے پی اور اس کی حلیف انتہا پسند جماعتیں ننگی تلواریں لے کر جتھوں کی شکل میں مسلمانوں پر حملہ آور ہوتی ہیں۔ کشمیر پر قبضہ جواہر لال نہرو نے کیا تھا ،اس کے بعد بھارت کی قومی پالیسی کے تحت اسے ’’اٹوٹ انگ‘‘قرار دے کر بھارت کی ہر حکومت نے اس پالیسی کو آگے بڑھایا۔ بھارت کی کوئی حکومت اگر مسئلہ کشمیر حل کرنا بھی چاہے تو وہ اس لئے ممکن نہیں ہے کہ بھارتی آئین کا آغاز آرٹیکل ایک سے ہوتا ہے جس میں لکھا ہے بھارت، اس میں موجود ریاستوں پر مشتمل ہے جس میں کوئی بھی ریاست بھارت سے علیحدہ ہونے کا فیصلہ نہیں کر سکتی۔ جموں اور کشمیر پر قبضہ کرنے کے بعد بھارت نے اسے اپنے اند ر ضم کر کے ریاست کا درجہ دے دیا تھا، چنانچہ یہی وجہ ہے کشمیر کا سیا سی حل نکلنا تقریباً ناممکن ہے۔
سی پیک چونکہ گلگت بلتستان سے شروع ہو کر اس میں سے گزرتا ہے، اس لئے بھارت کے لئے سی پیک کو تسلیم کرنا ممکن نہیں ہے، کیونکہ بھارتی دعوے کے مطابق گلگت بلتستان کشمیر کا حصہ ہے۔ دوسرے الفاظ میں بھارت کے لئے سی پیک کو تسلیم کرنا (اس کے لئے)غیر آئینی ہے۔اگر بھارتی پارلیمنٹ اپنے آئین کے آرٹیکل ایک میں ترمیم کر نے کی کوشش کرتی ہے، تب بھی ایک مشکل یہ ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ یہ رولنگ دے چکی ہے کہ آئین کے آرٹیکل ایک میں ترمیم نہیں کی جا سکتی، چنانچہ کشمیر ایک ایسا کمبل ہے ،جس سے جان چھڑانا بھارت کے لئے ناممکن بن چکا ہے۔ عالمی مالیاتی ریٹنگ ادارے پرائس واٹر ہاؤس کوپر (PwC) کے مطابق پاکستان کی تیزی سے بڑھتی ہوئی معیشت اگلے پچیس سال میں دنیا کی 16 ویں سب سے بڑی اور G-8 میں شامل کینیڈا اور اٹلی سے بڑی معیشت ہو گی۔ حال ہی میں سری نگر کے ایک تھنک ٹینک ’’دی کشمیر انسٹی ٹیوٹ‘‘ میں ایک سیمینار کے دوران اس بات پر زور دیا گیا کہ کشمیر کو بھی سی پیک کا باقاعدہ حصہ بنایا جائے، کیونکہ یہ پاکستان کی طرح کشمیر کے لئے بھی گیم چینجر ثابت ہو گا۔ کشمیر ایوان صنعت و تجارت کے صدر مبین شاہ نے کہا کہ اگر کشمیر کو بھی سی پیک کا حصہ بنا دیا جائے تو یہ براہ راست سنٹرل ایشیا سے منسلک ہو جائے گا، جس کی وجہ سے کشمیری عوام کی تقدیر بدل جائے گی اور یہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے پہلا قدم بھی ثابت ہو گا۔ کچھ اس سے ملتی جلتی خواہش کا اظہار بھارتی مقبوضہ کشمیر کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی بھی ایک سے زائد بار کر چکی ہیں کہ سی پیک میں شامل ہو کر کشمیر بھارت کے لئے سنٹرل ایشیا کا گیٹ وے بن سکتا ہے۔
حریت لیڈر میر واعظ عمر فاروق بھی کشمیر کو سی پیک میں شامل کرنے کا مطالبہ کر چکے ہیں۔ چینی حکومت ، چینی وزارتِ خارجہ کے عہدیدار اور چینی میڈیا بھی بھارت کو مشورہ دیتے رہتے ہیں کہ اپنے عوام کی تقدیر بدلنے کے لئے وہ ہٹ دھرمی چھوڑ کر سی پیک کا حصہ بن جائے۔ چینی سرکاری اخبار ’’گلوبل ٹائمز‘‘ نے ایک تجزیہ شائع کیا جس میں بتایا گیا کہ سی پیک کا حصہ بننے سے بھارت سمیت پورے خطے میں نہ صرف کئی ملین لوگوں کے لئے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے، بلکہ اربوں ڈالر کی براہ راست بیرونی سرمایہ کاری(FDI) بھی ہو گی۔ ایک طرف بھارتی مقبوضہ کشمیر کی وزیر اعلیٰ، حریت کانفرنس کے لیڈراور لاکھوں کشمیری عوام ہیں جو دل و جان سے سی پیک کے ثمرات سمیٹنا چاہتے ہیں اور دوسری طرف سات لاکھ فوج کی مدد سے کشمیر پر بھارتی قبضہ ہے ، کیا یہ قبضہ اب برقرار رہ سکے گا؟ یقیناًنہیں، کشمیر میں پچھلی انتفادہ، جو 1989 میں شروع ہوئی تھی، اب شرو ع ہونے والی انتفادہ اس سے کئی گنا زیادہ طاقتور ہے اور اب اس میں سی پیک سے محرومی کا غم و غصہ بھی شامل ہو چکا ہے۔صاف نظر آتا ہے کہ بھارت اپنے آئین کے آرٹیکل ایک کی پوجا پاٹ کرتے کرتے بھارت ماتا کے ہی کئی ٹکڑے کروا بیٹھے گا۔
چند روز قبل تامل ناڈو کے دارالحکومت چنائی (مدراس) میں میٹرو ٹرین کی افتتاحی تقریب کے دوران بھارتی وزیر مملکت برائے شہری ترقی وینکائیاہ نائیڈو اور تامل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایڈاپاڈی پالانی سوامی کے درمیان تلخ کلامی ہوئی، جس میں وزیر مملکت نے ریاستی وزیر اعلیٰ کو دھمکیاں دیں تو انہوں نے جواب دیا کہ ہماری نا اتفاقی کا آخری حل علیحدگی ہی ہے۔ بھارت میں طویل عرصے سے علیحدگی کی بہت سی تحریکیں چل رہی ہیں، لیکن گذشتہ چند دنوں میں دو ریاستی وزرائے اعلیٰ کی طرف سے یہ جملے پہلی بار سنے گئے جو آنے والے وقت میں بھارت کی ٹوٹ پھوٹ کی نوید دیتے ہیں۔ بھارتی حکومت اور وزیر اعظم نریندر مودی اپنے ملک کے سیاست دانوں اور عوام کے الفاظ پر غور کرنے کی بجائے سی پیک کو ناکام بنانے کے لئے پاکستان میں تخریب کاری اور دہشت گردی کو ہوا دے رہے ہیں۔ بھارت طویل عرصے سے بلوچستان میں دہشت گردی کرا رہا ہے اور اس کے لئے افغانستان اور ایران کی سرزمین بھی استعمال کرتا ہے، لیکن اب اس کے ایجنڈے میں سی پیک اور گوادر کی بندرگاہ کو ناکام بنانے کا اضافہ ہو چکا ہے۔ بلوچستان کے کچھ سیاسی عناصر بھارتی ایجنٹوں کا کردار ادا کرتے رہے ہیں ، اب انہیں گوادر میں خون خرابے کا اضافی ٹاسک دے دیا گیا ہے۔
پاکستان میں ایسے نام نہاد دانشور بھی موجود ہیں جو غلط فہمیاں اور ڈس انفارمیشن پھیلاتے رہتے ہیں، سوشل میڈیا اب دہشت گردوں اور ملک دشمنوں کا اہم ہتھیار بن چکا ہے۔ دہشت گردوں کو بھارت میں بیٹھ کر واٹس ایپ اور فیس بک کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے ، نئے ٹارگٹ دینے کے علاوہ نئی بھرتی بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے ذریعے ہوتی ہے۔ عام پبلک تک زہریلا مواد بھی فیس بک اور واٹس ایپ کے ذریعے ہی پھیلایا جاتا ہے۔ پاکستان کے کچھ میڈیا گروپ بھی حکومت اور فوج کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے میں کردار ادا کر رہے ہیں اور اب سی پیک کے بارے میں غلط کہانیاں چھاپی جا رہی ہیں۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ علاقائی طور پر یہ پاکستان کو مضبوط اور بھارت کو کمزور کرے گا اور ان دونوں باتوں کا آغاز ہو بھی چکا ہے۔ بھارتی ریاستوں میں بات علیحدگی کی تحریکوں سے آگے بڑھ کر ریاستی حکومتوں کی طرف سے بھارتی وفاق پر عدم اعتماد اور علیحدگی کی باتوں تک پہنچ گئی ہے۔ بھارتی انتہا پسند حکمران اب اپنے آپ کو بچانے کے لئے پاکستان میں موجود اپنے ایجنٹوں ، دانشوروں اور میڈیا میں موجود چند عناصر کے ذریعے پاکستان میں بد امنی پھیلانے کے علاوہ سی پیک کو متنازعہ بنانے کی کوشش جاری رکھیں گے ۔دنیا کی ہر قوم میں صلاحیت ہونی چاہئے کہ وہ اپنے دوست اور دشمن میں پہچان کر سکیں، پاکستانی حکومت اور عوام کے لئے یہی لٹمس ٹیسٹ ہے۔ ہر وہ شخص جو پاکستان میں بیٹھ کر سی پیک کے خلاف پراپیگنڈہ کر رہا ہے، وہ پاکستان کا دوست نہیں،دشمن ہے اور پاکستانی عوام کو ایسے تمام اندرونی دشمنوں کا محاسبہ کرنا پڑے گا۔ (ختم شد)